Tuesday, 3 June 2025

افسانہ: 04_ خاموش وقت

افسانہ 04 ۔  ۔          

 خاموش وقت

 افسانہ نگار : علیم طاہر۔



      یہ تقریبا چالیس سال پہلے کی بات ہے اس میں۔    دولت کی بھوک بہت بڑھ چکی تھی ۔اور لالچ کی پیاس تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی۔ سماج سے بغاوت کرنے والے وکیل احمد نے مسلسل غریبی سے تنگ آ کر زندگی کے ایسے راستوں کا انتخاب کرنا شروع کر دیا تھا، جسے سماج،

 غیر سماجی مانتا ہے۔

 جن پر چلنے والا مسافر مجرم اور اس کی مسافرت مجرمانہ کہلاتی ہے۔

        وکیل احمد نے یہ فیصلہ غربت کی اذیتوں اور وقت کے ظالمانہ رویوں کو سہتے ہوئے مجبور ہو کر کیا تھا کہ اب مجھے زندگی کی تمام راحتوں کو پانا ہے۔

 چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔

 وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس معاملے میں بھی اس کی نگاہ میں غربت ہی قصور وار تھی۔

               اپنی ماں اور چھوٹے بھائی کی کفالت کرتے کرتے ایک دن اس کے گھر اس کی چھوٹی بہن کی منحوس خبر آئی تھی کہ وہ سسرال میں جل کر مر گئی ہے۔

 غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے وکیل احمد پر ۔

مگر اس کے ہاتھ میں کچھ نہ تھا وہ سمجھتا تھا وہ دکھ جھیلنے کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے ۔

مگر کسی طرح اس منفی سوچ کے دائرے سے باہر نکل کر اس نے خود پر قابو پانا شروع کر دیا تھا۔ 

              جب وکیل احمد اس کی ماں "زیتون" بی اور بھائی خلیل احمد،

 مری ہوئی بہن شکیلہ کے گھر سے لوٹ رہے  تھے۔

 تو انہیں سچائی یہ بتائی گئی تھی، کہ

 وہ اسٹو جلاتے ہوئے اسٹو کے بھڑکیلے شعلے کی زد میں آکر جھلس گئی تھی۔

 چونکہ اس کے  پاس کوئی اور نہ ہونے کی وجہ سے مدد سے محروم رہ گئی تھی ۔

اور کچھ ہی دیر میں روح کا دامن چھوڑ، جل کر  مردہ ہو گئی تھی۔

           رو رو کر آنکھیں سوجائے ہوئے تینوں اپنے گھر پہنچے تھے۔

 مگر رہ رہ کے وکیل احمد کو زندگی سے کافی شکایتیں تھیں۔

وہ ایک طرف خلیل احمد کو اعلی تعلیم سے آراستہ کروا رہا تھا۔ تو دوسری طرف غیر سماجی راستوں پر بھی چل پڑا تھا۔

 سماج کے افراد صرف اتنا جانتے تھے کہ خلیل احمد کو ایک خوبصورت عورت نے اپنے عشق کے جال میں پھانس لیا ہے۔

 اور وہ عورت اپنی مرضی سے اس کا استعمال کر رہی ہے۔

 وہ عورت اتنی شاطر ہے کہ اسے کسی سے بھی کام کروانے میں مہارت حاصل ہے۔

 اس لیے وکیل احمد نے حال ہی میں نئی ہونڈا خریدا تھا ۔

جس پر بیٹھنے کے بعد اس کا بدصورت، موٹا ،بھدا ،وجود بھی کسی حد تک خوبصورت ضرور دکھائی دیتا تھا۔

            وہ کسی سے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔

 اور نہ ہی کسی کو اس سے بات کرنے کی ضرورت پیش آتی ۔

دن گزرتے رہے خلیل احمد کو ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کرنے وکیل احمد نے اپنی دو نمبری کالی کمائی کا بھرپور استعمال کیا ۔

یہ بات خلیل احمد اور اس کی ماں بھی جانتی تھی۔

 مگر شاید دونوں نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ کہ کیا ہوا جو روپیہ ہی تو ہے کام آ رہا ہے زندگی کو سنوارنے میں۔

 شاندار زندگی گزر رہی ہے ۔اور کیا چاہیے۔     

          وکیل احمد نے اپنی بیوی پر مکمل اعتماد کرنے میں کبھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن ایک دن اپنی بیوی سے اس کی بحث ہو گئی۔

 بحث کا موضوع یہ تھا کہ وہ جتنا کماتا ہے اس کمائی پر اس کا زیادہ حق ہے۔

 عورت وہ حق اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی ۔

اس بات کو لے کر دونوں میں آپسی رنجش اور نفرت بہت بڑھ گئی۔

 وکیل احمد نے یہ حق دینے سے بیوی کو فیصلہ کُن لہجے میں صاف انکار کر دیا ۔

اور معمول کے مطابق اپنے کاموں میں لگ گیا۔ 

         گاؤں کے ریلوے اسٹیشن پر آدھی رات کو آئی ہوئی ٹرین  سے وکیل احمد اترنے کے لیے بالکل تیار تھا۔

 بھیڑ معمول کے مطابق تھی۔

 ٹرین آہستہ اہستہ رکنے لگی تھی۔

 اسی دوران کہیں سے آتا ہوا وکیل احمد اس سے پہلے کہ ٹرین سے اتر کر پلیٹ فارم پر چلنا شروع کرتا۔

 ایک زوردار چھپاکہ اس کے منہ پر پڑا۔

 غالباً بھیڑ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی شخص نے گلاس میں بھرا سیال اس کے منہ پر دے مارا تھا۔

 وہ سیال وکیل احمد کے منہ پر پڑتے ہی وکیل احمد بلبلا اٹھا تھا۔

 اس سے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کرے۔

 مگر اس نے اپنی بکھرتی ہوئی ہمت باندھی۔  اندازے سے پلیٹ فارم عبور کرتے ہوئے اسٹیشن کے باہر رکشہ میں بیٹھا اور ہاسپٹل کی سمت نکل پڑا ۔ 

 ہاسپٹل پہنچ کر طبی امداد حاصل کیا۔

 اس وقت تک اس کا بھائی خلیل  وہاں پہنچ چکا تھا۔

 ڈاکٹر نے کہا وکیل احمد کے چہرے پر جو تیزاب پھینکا گیا تھا۔

 وہ انتہائی خطرناک قسم کا تھا جو اگر کسی ہتھیلی پر ایک بوند ٹپکا دی جائے تو وہ ہتھیلی کے نیچے آر پار نکل جانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

        اسی لیے وکیل احمد پر جب تیزاب کا چھپاکہ پڑا اس وقت گھبراہٹ میں اس کا منہ خود بخود کھل گیا تھا۔جس کی وجہ سے تیزاب کی کچھ مقدار حلق سے گزر کر پیٹ میں اتر گئی تھی۔

 اور اب اندر اتر کر تیزاب اپنی کارستانی انجام دے رہا تھا۔

 یعنی وہ اندرونی نظام کو تباہ کرتے ہوئے گزرتا جا رہا تھا۔

 ڈاکٹر نے نأ امیدی ظاہر کی تو خلیل احمد کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھاریں  لگ گئی تھیں ۔اس کی ماں بھی آچکی تھی رو رو کر دونوں کا بہت برا حال تھا۔

          آپرسن تھیٹر میں لے جایا گیا جہاں وکیل احمد کا آپریشن کیا جانے لگا ۔

 لال بلب جلتا رہا ۔

باہر خلیل احمد اور ماں زیتون دعاؤں میں مصروف تھے۔

 لال بلب بند ہو گیا۔

 اپنی ٹیم کے ساتھ ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر نکلتے ہوئے رک گیا۔

 اور خلیل احمد کی جانب رحم دلی کے ساتھ دیکھتے ہوئے،

 "آئی ایم سوری" 

بول کر آگے کی طرف بڑھ گیا۔

 خلیل احمد دھاڑیں مار کر رونے لگا ۔

یہی حال ماں کا بھی تھا ۔

پوسٹ مارٹم کے بعد لاش گھر لائی گئی محلے کا ایک ہجوم موجود تھا۔

 جنازہ اٹھا کر  قبرستان لے جا گیا۔

 جہاں نمازِ جنازہ کے بعد وکیل احمد کی میت قبر کے گڑھے میں اتار دی گئی ۔

اور آئے ہوئے تمام سماجی افراد نے تین تین مٹھی مٹی دے کر قبر کو پر کر دیا۔

         فاتحہ پڑھا جا رہا تھا ۔

مغفرت کی  دعا مانگی جا رہی تھی۔

 کہ یکا یک آسمان میں گڑگڑاہٹ پیدا ہوئی۔

 بادل گرجدار آواز کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔

 اچانک بارش شروع ہو گئی۔

 جنازے میں شریک تمام افراد فاتحہ پڑھتے ہوئے کھڑے کھڑے بھیگنے لگے۔

 اسی اثناء میں قبر اچانک نیچے جتنی کھودی ہوئی تھی ایک جھٹکے میں بیٹھ گئی۔

 قبرستان میں چاروں طرف کیچڑ ہو چکا تھا۔ 

فوری طور پر دوبارہ وکیل احمد کی قبر کو بھر دیا گیا۔

         فاتحہ ختم ہونے کے بعد لوگ باگ  بھیگتے ہوئے قبرستان کے صدر گیٹ سے نکل رہے تھے۔

 ہر چہرے پر مختلف قسم کے تاثرات میں  بے شمار سوالات جھلملا رہے تھے۔ 

مگر ان سوالات کے جوابات دینے والا سوائے  "خاموش وقت" کے دوسرا کوئی موجود نہیں تھا ۔ 

   *افسانہ نگار* : *علیم طاہر*

________________________________

(C):Afsana:

" Khamosh waqt "

By Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

No comments:

Post a Comment