Tuesday, 3 June 2025

افسانہ: 03_ پردے کے پیچھے

افسانہ:03

 پردے کے پیچھے

افسانہ نگار : علیم طاہر


---


"میری آواز آرہی ہے؟"

"جی سر!"

"ویڈیو آن کیجیے سب لوگ۔"

کہتے ہوئے پروفیسر زبیر نے اپنے چہرے پر نقاب سا چڑھا لیا—میکانکی مسکراہٹ، خالی آنکھیں، اور تھکن سے لرزتی آواز۔ وہ زوم پر آن لائن کلاس لے رہے تھے، لیکن کیمرہ میں نظر آنے والی ان کی ہنسی میں جیسے زندگی کا کوئی رنگ نہ تھا۔


یہ چوتھا سال تھا جب وہ ایک پرائیویٹ کالج میں کنٹریکٹ بیسس پر پڑھا رہے تھے۔ ہر سال امید دلاتی میٹنگز، خالی وعدے، اور "اب کی بار فکس پوسٹ نکلنے والی ہے" جیسے جملے ان کے کانوں میں کسی آسیب کی طرح گونجتے رہتے۔


---


اس دن زبیر نے جب تنخواہ کے بارے میں پرنسپل سے پوچھا، تو جواب آیا،

"ابھی فنڈنگ نہیں آئی، ہم خود بھی تنخواہ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ آپ سمجھ دار ہیں، صبر رکھیے۔"

پھر اسی شام انہوں نے دیکھا کہ وہی پرنسپل نئی گاڑی میں بیٹھ کر کسی فائیو اسٹار ہوٹل جا رہے تھے۔ زبیر مسکرا دیے، اندر سے کچھ اور مر چکا تھا۔


---


گھر آتے ہی بیوی نے ٹفن دکھایا،

"آج بس آلو کے پراتے تھے، کچھ پیسے نہیں بچے بازار سے کچھ اچھا لانے کے لیے۔"

بیٹی چپ چاپ اپنی پرانی اسکول ڈریس میں ہوم ورک کر رہی تھی۔

"ابا، میرے جوتے چھوٹے ہو گئے ہیں، پر کوئی بات نہیں، میں اگلے سال کے لیے بچا کے رکھوں گی!"

زبیر کا دل کٹ گیا، لیکن چہرے پر محبت کا مصنوعی پردہ چڑھا کر کہا،

"تم میری شہزادی ہو، تمہیں تو نیا لباس ملے گا، وعدہ رہا۔"


---


ہر رات وہ آنکھیں بند کرتے، تو خواب میں انہیں ایک بڑا لیکچر ہال دکھائی دیتا جس میں وہ بطور پرمننٹ پروفیسر بچوں کو پڑھا رہے ہوتے۔ لیکن صبح پھر کمپیوٹر کے سامنے زوم کلاس میں بیٹھنا ہوتا، پچیس اسٹوڈنٹس میں سے سات آن لائن، پانچ موبائل پر گیم کھیلتے، اور باقی کیمرہ آف کر کے غائب۔


---


ایک دن حکومت نے اعلان کیا کہ مالی خسارے کے باعث "جز وقتی اساتذہ کی خدمات فی الحال معطل" کی جا رہی ہیں۔

زبیر نے بس اتنا کہا:

"پردہ گرا دیا گیا ہے... لیکن تماشہ ابھی باقی ہے۔"


---


ایک مہینے بعد زبیر ریڑھی پر کتابیں بیچتے دکھائی دیے۔

کتب کے عنوان تھے:

"امید"

"تعلیم اور تقدیر"

"پردے کے پیچھے"


اور آخر میں ایک خالی کتاب، جس پر کچھ بھی نہ لکھا تھا—صرف اندر کے پہلے صفحے پر ہاتھ سے لکھا ایک جملہ:

"جس دن استاد کو نوکری کی بھیک مانگنی پڑے، اس دن قوم کی تقدیر خود بے روزگار ہو چکی ہوتی ہے۔"


صبح کی پہلی روشنی اس کمرے میں داخل ہوئی جہاں زبیر چپ چاپ ایک پرانی، چٹخی ہوئی کرسی پر بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھیں کھلی تھیں، لیکن وہ جاگے نہیں تھے، شاید خواب اور حقیقت کے درمیان کسی پتلی سی لکیر پر ٹکے ہوئے تھے۔ میز پر وہی خالی کتاب پڑی تھی، جس کا پہلا جملہ اب دھندلا ہو چلا تھا۔


دروازے پر دستک ہوئی۔

"ابو؟"

بیٹی کی آواز آئی۔

"اسکول کا فارم جمع کرنا ہے، آج آخری تاریخ ہے۔"

زبیر نے بیٹی کو دیکھا—وہی چمکتی آنکھیں، جو اب امید سے خالی ہونے لگی تھیں۔


انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ صرف پانچ سو روپے تھے۔

"تم فارم جمع کرا دو، باقی ہم بعد میں دیکھیں گے۔"

بیٹی خاموشی سے سر ہلا کر چلی گئی۔


---


دوپہر کو وہ گورنمنٹ لائبریری چلے گئے، جہاں کبھی وہ ریسرچ کے لیے گھنٹوں بیٹھا کرتے تھے۔ آج وہاں خاکروب کا کام مانگنے آئے تھے۔

"ہمیں صفائی کے لیے کوئی تعلیم یافتہ نہیں چاہیے۔ زیادہ پڑھے لکھے سوال کرتے ہیں، کام نہیں!"

بابو نے تمسخر سے کہا۔


زبیر نے بس اتنا کہا:

"سوالوں سے اگر صفائی ہو سکتی، تو شاید اس ملک کی حالت بہتر ہوتی۔"


---


شام کو محلے کے ایک مدرسے سے کال آئی۔

"ہمیں بچوں کو اردو سکھانے والا کوئی چاہیے۔ تنخواہ کم ہے، مگر چھت کے نیچے جگہ ملے گی۔"

زبیر نے کہا،

"اردو کے لیے تنخواہ کی فکر کون کرتا ہے؟ بس اتنا بتا دیجیے، بچوں کے پاس قلم ہیں؟"

دوسری طرف خاموشی تھی۔

"قلم؟ وہ تو ڈنڈے سے پڑھتے ہیں، مولانا صاحب کے مطابق۔"


---


رات کو بیٹی نے کہا،

"ابو، آپ جو اتنی کتابیں پڑھتے ہو، ان میں آپ کے جیسا کردار کیوں نہیں ہوتا؟ جو جیتتا ہو؟"

زبیر چپ رہے۔


پھر اٹھے، اور کتابوں کا ایک نیا باب لکھنے بیٹھ گئے:

باب دوّم: خالی کرسی کا سوال


اس بار پہلے صفحے پر صرف ایک لائن لکھی:

"یہ کرسی صرف جسم کا بوجھ نہیں، ضمیر کا وزن بھی اٹھاتی ہے۔"


---


کبھی وہ ہاتھ، جو بلیک بورڈ پر چاک سے حروف تراشتے تھے، آج ایک رکشے کے ہینڈل پر جُھکے ہوئے تھے۔

زبیر اب ایک سائیکل رکشہ چلاتے تھے—نہ چاہ کر، بس جینے کے لیے۔

ہر سواری کے ساتھ وہ اپنی ذات کا ایک ورق اُدھڑتے جاتے، جیسے کوئی کتاب تھی جو بے عنوان ہو گئی ہو۔


ایک دن ایک طالب علم سا لڑکا رکشے پر بیٹھا۔ ہاتھ میں فائل تھی۔

زبیر نے آہستہ آہستہ چلانا شروع کیا۔

لڑکا فون پر کہہ رہا تھا،

"پی ایچ ڈی کے بعد بھی چپراسی کے لیے فارم بھرنا پڑ رہا ہے۔ امی کہتی ہیں کچھ بھی کر لو، بس گھر چلے۔"


زبیر نے مڑ کر نہ دیکھا۔ وہ بس رکشے کے پیڈل چلاتے رہے۔

دل میں کسی نے جیسے گہرا کتبہ گاڑ دیا ہو:

"تعلیم، جب روزی کا در کھولنے کے بجائے، عزت کا دروازہ بند کر دے، تو وہی قلم مزار بن جاتی ہے۔"


---


اسی رات، زبیر واپس اسکول کی عمارت کے کھنڈر نما دروازے پر پہنچے۔

یہ وہی اسکول تھا جہاں وہ بارہ سال نان گرانٹ پر خدمات انجام دیتے رہے۔

اب وہاں بس ویرانی تھی۔ بورڈ پر دھول جمی تھی، جس پر انگلی پھیر کر انہوں نے لکھا:

"یہاں کبھی خواب پڑھائے جاتے تھے۔"


اندر جا کر وہ ایک پرانی کرسی پر بیٹھے۔

ان کی نظر سامنے کی دیوار پر جمی، جہاں وہ اکثر "محنت کا صلہ دیر سے ملتا ہے" لکھا کرتے تھے۔

دیوار میں دراڑ پڑ چکی تھی۔

جیسے وقت نے خود اس جملے سے اختلاف کر لیا ہو۔


---


اچانک دروازے پر آواز آئی۔

ایک نوجوان، سانولی سی رنگت، ہاتھ میں ایک پرانی ڈائری تھامے کھڑا تھا۔


"سر، آپ زبیر صاحب ہیں؟ میں ناظم ہوں۔ کبھی آپ کا شاگرد تھا۔ آپ نے ہی مجھے ادب سے جوڑا۔ آج میں اسکول میں اردو پڑھاتا ہوں۔ وہی اسکول جو اب گرانٹیڈ ہو چکا ہے۔"


زبیر کی آنکھوں میں حیرت اور نرمی اتر آئی۔


"میں نے وہ ڈائری سنبھال کر رکھی ہے، جس پر آپ نے لکھا تھا:

قلم وہ چراغ ہے، جو تاریکی سے بغاوت کرتا ہے۔


آج اسکول میں ایک گوشہ ’زبیر سر کارنر‘ کے نام سے بنانا ہے، میں چاہتا ہوں آپ وہاں آئیں۔"


زبیر کی آنکھوں سے برسوں کی نمی بہنے لگی۔


ناظم نے کہا:

"سر، وہ قلم اب مزار نہیں، مینار بننے جا رہا ہے۔"


---


وہ دن، جب زبیر ناظم کے ساتھ اسکول لوٹے، وقت جیسے پیچھے پلٹ آیا ہو۔

وہی در و دیوار، مگر اب رنگین، کھڑکیاں کھلی ہوئی، بچوں کے قہقہے گونجتے ہوئے۔

جہاں کبھی زبیر چپ چاپ تنخواہ کے انتظار میں بیٹھے ہوتے، وہاں آج ان کے استقبال میں بچوں نے قطار بنائی تھی۔

ایک بچے نے پھول پیش کیے۔

زبیر کی آنکھیں جھک گئیں — خالی ہاتھوں کے وہ پھول، جو برسوں دل کے زخموں پر رکھے جا سکتے تھے۔


---


’زبیر سر کارنر‘ میں ایک تصویر لگی تھی—وہی کلاس روم کی، جہاں زبیر بلیک بورڈ پر لکھ رہے تھے:

"لفظ جب قلم سے نکلتے ہیں تو تقدیر میں گھل جاتے ہیں۔"


ناظم نے ہاتھ جوڑ کر کہا:

"سر، آپ ہمارے استاد نہیں، ہماری پہچان ہیں۔ ہم نے سیکھا کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ آج یہ اسکول، آپ کی روشنی کا مرہونِ منت ہے۔"


زبیر نے دھیرے سے کہا:

"میں تو اندھیرے میں جلتا ایک چراغ تھا۔ تم لوگ وہ ہوا بنے جو میری روشنی کو بجھنے نہ دیا۔"


---


اس دن، اسکول میں زبیر نے پہلی بار باقاعدہ لیکچر دیا—

موضوع تھا: "تعلیم کی سچائی"

انہوں نے کہا:

"تعلیم صرف نوکری نہیں، نظریہ ہے۔

یہ وہ خواب ہے جو سماج کو خود سے بہتر بناتا ہے۔

میں ایک شکست خوردہ معلم تھا، مگر آج، جب میں اپنے شاگردوں کو استاد بنتے دیکھتا ہوں، میں جیت جاتا ہوں۔"


---


لیکچر کے بعد کئی طلبا ان کے پاس آئے، ہاتھوں میں ڈائریاں، آنکھوں میں سوال، دل میں احترام۔

ایک لڑکی نے پوچھا:

"سر، اگر کوئی بھی آپ کی طرح ٹھکرایا جائے تو کیا وہ پھر بھی پڑھائے؟"


زبیر نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا:

"بیٹی، روشنی کو ضرورت نہیں ہوتی کہ اسے پہچانا جائے،

بس وہ جلتی ہے، اور اندھیرے کو ہٹا دیتی ہے۔

تم پڑھاؤ، چاہے کوئی سنے یا نہ سنے،

وقت سننے والا ہے۔"


---


اس دن شام ڈھلے، زبیر اسکول کے باہر درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔

ناظم نے پوچھا:

"سر، اب آپ رکشہ چلائیں گے؟"


زبیر مسکرائے:

"نہیں، اب میں پھر سے چلوں گا—

مگر علم کے راستے پر۔

میری منزل اب نوکری نہیں، نوکری پیدا کرنا ہے۔"


ناظم نے عاجزی سے کہا:

"ہم سب ساتھ ہوں گے، سر۔"


زبیر نے آسمان کی طرف دیکھا، سورج ڈوب رہا تھا۔

مگر اب وہ ڈوبتا سورج، رات کی علامت نہیں تھا—

بلکہ اگلے دن کی پہلی کرن کا وعدہ تھا۔


---


صبح کی پہلی روشنی دروازے سے جھانکی، تو زبیر سر کی آنکھ کھل گئی۔

یہ وہ نیند نہ تھی جو تھکن سے آتی ہے، یہ سکون سے لکھی گئی رات کا اختتام تھی۔

اُن کے سامنے میز پر ایک نئی ڈائری رکھی تھی۔

صفحات خالی تھے، لیکن دل میں ایک مکمل کتاب دھڑک رہی تھی۔


ناظم نے آکر اطلاع دی:

"سر، آج شہر کے مرکزی ہال میں آپ کا لیکچر ہے۔ عنوان: ’ایک معلم کی جنگ‘"


زبیر خاموش رہے۔ وہ جیسے سوچ رہے تھے —

جنگ کیسی؟ کس سے؟

وقت سے؟ نظام سے؟ یا خود اپنے آپ سے؟


---


ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔

ایسے لوگ بھی موجود تھے جو کبھی زبیر پر ہنسے تھے،

اور وہ بھی، جنہوں نے زبیر کو صرف ایک رکشہ والا جانا تھا۔

مگر آج وہ سب ایک طالبعلم بن کر بیٹھے تھے۔


زبیر نے تقریر شروع کی:


"میں نے وہ دن دیکھے ہیں جب لفظوں نے منہ موڑا، جب علم سے رشتہ ٹوٹا، جب میں رکشہ چلاتے ہوئے خود کو دفن شدہ استاد محسوس کرتا رہا۔

مگر سچائی یہ ہے… کہ استاد کبھی دفن نہیں ہوتا۔

وہ زمین میں بیج کی طرح دفن ہوتا ہے…

اور جب موسم بدلتا ہے، تو وہ دوبارہ اگتا ہے —

پہلے سے زیادہ سرسبز، پہلے سے زیادہ طاقتور۔"


ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

مگر زبیر کی آنکھیں کسی خاموش چہرے کو تلاش کر رہی تھیں —

وہی چہرہ جس نے اُنہیں کبھی کہا تھا:

"علم کو بازار میں بیچنے کی کوشش مت کرنا، زبیر۔ ورنہ تم علم بیچو گے، عزت نہیں پا سکو گے۔"


---


لیکچر کے بعد ایک بوڑھی عورت آئی، کانپتے ہاتھوں میں پرانا شناختی کارڈ۔

"پہچانا مجھے؟"


زبیر نے غور سے دیکھا، اور چونک گئے۔

یہ رشیدہ تھی… اسکول کی صفائی کرنے والی،

جس نے اُس دن زبیر کو چپکے سے کہا تھا:

"سر، آپ پڑھاتے رہیے… میں جھاڑو دے دوں گی۔"


زبیر نے اُس کے قدم چھو لیے۔

"آج جو میں پڑھا رہا ہوں، وہ آپ کے جھاڑو سے صاف کیے گئے کمرے کی مہربانی ہے۔"


رشیدہ نے کہا:

"علم کا سچ… پردے کے پیچھے ہوتا ہے، بیٹا۔ تم نے وہ پردہ ہٹا دیا ہے۔"


---


اس رات زبیر چھت پر بیٹھے تھے۔ آسمان صاف تھا۔

ستارے جھلملاتے تھے، جیسے ان کی زندگی کی ایک ایک رات گواہ بنی ہو۔

انہوں نے ڈائری کھولی، قلم اٹھایا، اور پہلا جملہ لکھا:


"میں معلم ہوں۔

میں کبھی نہیں گرا۔

میں بس پردے کے پیچھے تھا۔

اور آج… پردہ ہٹ گیا ہے۔"


افسانہ نگار:  علیم طاہر 

--------


(C):

Afsana 

Parde ke peeche 

Afsana Nigar 

Aleem Tahir 

Email id aleemtahir12@gmail.com 

_______________

No comments:

Post a Comment