"ادب تبھی زندہ رہتا ہے جب وہ ضمیر کی آواز، سچ کی گواہی اور سماج کے خلاف ایک خاموش بغاوت بن جائے۔
یہ مضمون صرف پڑھنے کے لیے نہیں — سوچنے اور جاگنے کے لیے ہے!"
✒️ از: علیم طاہر
📖 مکمل مضمون پڑھیں، محسوس کریں اور شیئر کریں… کیونکہ ادب کی خاموشی، سماج کی موت ہے۔
#ادب_کا_ضمیر
#آزادی_اور_ادب
#قلم_کی_آواز
#سچ_کا_ادب
#علیم_طاہر
#ادبی_سوچ
#خاموش_بغاوت
#تخلیقی_تحریک
#ادب_زندہ_ہے
#سچ_لکھو
#اردو_ادب
#ادبی_مکالمہ
#ادب_برائے_سماج
مضمون نمبر: 02
عنوان: ادب اور ضمیر کی آواز: قلم کی صداقت کا بحران
مضمون نگار: علیم طاہر
ادب کا بنیادی فریضہ سماج کی نبض پر ہاتھ رکھنا، سچائی کی گواہی دینا اور مظلوم کی صدائے احتجاج کو لفظوں کا قالب دینا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب ادیب خود مصلحت کی دبیز چادر اوڑھ لے، جب قلم نفع و نقصان کے ترازو میں تولا جانے لگے، اور جب تحریر "مناسب وقت" کی تاک میں دم سادھے بیٹھ جائے، تب کیا ادب، ادب رہتا ہے یا محض کاغذ پر لکیریں؟
ادب دراصل ضمیر کی وہ آواز ہے جو وقت، اقتدار اور خوف سے ماورا ہو کر گونجتی ہے۔ جس ادب میں ضمیر کی گواہی نہ ہو، وہ کتنا ہی فصیح کیوں نہ ہو، فقط ایک رسمی اظہار ہے، کوئی داخلی تڑپ یا سچائی کا آہنگ نہیں رکھتا۔ آج کا ادیب دو دنیاؤں کے بیچ جھول رہا ہے: ایک طرف آزادیِ اظہار کے عالمی دعوے، دوسری طرف داخلی و خارجی دباؤ۔ ایسے میں سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ قلم اپنی راہ کیسے چُنے؟
آزادیِ اظہار محض ایک قانونی اصطلاح نہیں، بلکہ یہ ادب کی سانس ہے۔ تخلیق کا دم اسی وقت گھٹتا ہے جب سچ لکھنے والا خود کو تنہا محسوس کرے۔ اور یہ المیہ کم و بیش ہر عہد میں دہرایا جاتا رہا ہے۔ وہ ادیب جو وقت کی سفاکیوں کو لفظوں میں ڈھالنے کی جرأت رکھتا ہے، وہی اصل معنوں میں خالق کہلانے کے لائق ہوتا ہے۔ مگر معاشرے کو ایسے تخلیق کاروں سے ہمیشہ خوف رہا ہے — شاید اس لیے کہ وہ بے نقاب کرتے ہیں، خوشامد نہیں۔
معاشرتی نظام میں ہر وہ آواز جو سوال اٹھاتی ہے، مشکوک قرار دی جاتی ہے۔ ایسے میں ادیب کے لیے سچ لکھنا آسان نہیں رہتا۔ مگر یہی تو اصل تخلیق کی آزمائش ہے۔ یہ آزمائش صرف قلم سے نہیں، ضمیر سے ہوتی ہے۔ جس لمحے ادیب مصلحت کے آگے سر جھکا لے، وہ لمحہ ادب کے جنازے کا پہلا اعلان بن جاتا ہے۔
نئے زمانے کے ادیبوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ادب ضمیر کی آواز نہیں بنے گا تو وہ فقط بازار کا مضمون ہوگا۔ ہم ادب کو بازار سے نکال کر سچ کی راہوں پر واپس لا سکتے ہیں، مگر اس کے لیے بے خوفی، فکری ایمانداری اور سچائی سے بے پناہ عشق درکار ہے۔ ایسے میں شاید ہمارا ادب وہ آئینہ بن جائے، جس میں صرف چہرے ہی نہیں، کردار بھی دکھائی دیں۔
قلم کبھی بھی غیر جانب دار نہیں ہوتا۔ وہ یا تو سچ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا خاموشی کے جرم میں شریک ہو جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ادب آنے والی نسلوں کے ضمیر کو بیدار کرے، تو ہمیں آج ہی اپنے قلم کو ضمیر سے جوڑنا ہوگا، کسی مفاد سے نہیں۔
---
جب قلم سچ لکھنے سے گھبرانے لگے، جب ادیب لفظوں کو کانٹوں کی طرح چنے، اور جب ہر جملہ کاغذ پر اترنے سے پہلے مصلحت کی چھلنی سے گزرے، تب تخلیق کی اصل روح دم توڑنے لگتی ہے۔ ادب کوئی ہنر یا تفریح کا ذریعہ نہیں، یہ روح کی آگہی ہے، وہ آئینہ ہے جو چمکتا تبھی ہے جب سچ کی روشنی اس پر پڑے۔
لیکن آج کے دور میں، سچ کی روشنی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ہر طرف دھواں ہے — مصلحت کا، مصلحت اندیشی کا، اور چپ رہنے کی تربیت کا۔ ادیب کو سکھایا جا رہا ہے کہ خاموشی بھی ایک فن ہے، مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ فن اصل میں بزدلی ہے۔ ایک ایسا خول، جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔
ادب اگر صرف "قابلِ اشاعت" ہونے کے اصول پر چلے گا، تو پھر یہ صرف طباعت زدہ صفحے ہوں گے، زندہ الفاظ نہیں۔
ادب اگر کسی ایوارڈ یا داد کے حصول کے لیے لکھا جائے، تو وہ تحریر صرف تقریری خوشامد بنے گی، احتجاجی صدا نہیں۔
ادب اگر حق گوئی سے ہچکچائے، تو وہ صرف دل بہلانے کا سامان رہ جائے گا، ضمیر جگانے کا نہیں۔
ہر وہ ادب جو اپنے عہد کی سچائی سے نظریں چراتا ہے، وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا مجرم ہوتا ہے۔ کیونکہ ادب صرف جمالیاتی تجربہ نہیں ہوتا، یہ اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ ادب کو اگر آج کے ظلم، استحصال، اور ناانصافی پر خاموشی طاری ہے، تو وہ صرف کمزور نہیں، خائن بھی ہے۔
یاد رکھیے، بڑے ادیب وہی ہوئے جنہوں نے اپنے قلم کو زمانے کے جبر کے سامنے جھکنے نہ دیا۔
منٹو کو "فحش" کہا گیا، مگر وہ "سچ کا سپاہی" تھا۔
فراز کو "باغی" کہا گیا، مگر وہ "محبت کا سچ بولنے والا" تھا۔
فیض کو قید کیا گیا، مگر ان کا شعر قید سے آزاد ہو کر قلوب پر راج کرتا رہا۔
کیا آج کے ادیب کو یہ ورثہ یاد ہے؟ کیا ہم نے قلم کو خوف کی گرفت میں دے دیا ہے؟ کیا ضمیر کی گواہی اب اشاعت سے مشروط ہو گئی ہے؟
یہ وہ سوال ہیں جن پر ہر سنجیدہ ادیب کو خود سے مکالمہ کرنا ہوگا۔
کیونکہ اگر ادب آئینہ ہے، تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم نے اس آئینے پر سہولتوں کا پردہ تو نہیں ڈال دیا؟
---
تحریر محض لفظوں کا کھیل نہیں، یہ ایک روحانی کشمکش ہے — ایک مسلسل بغاوت، ایک ناگزیر جنگ۔ وہ جنگ جو تخلیق کار کا اپنے ضمیر سے ہوتی ہے، زمانے سے نہیں۔
ادب وہی ہوتا ہے جو وقت کے رخ پر سوال کی کھرچ چھوڑ دے، جو اقتدار کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہے:
"میں لفظ ہوں، میں سچ ہوں، میں ہوں وہ آگ جس سے تمہارے قلعے خاک ہو سکتے ہیں۔"
ادیب کا اصل امتحان تب شروع ہوتا ہے جب وہ مقبولیت اور صداقت کے بیچ کھڑا ہو — اور وہ راستہ چنے جو کٹھن ہو، مگر سچا ہو۔ آج بھی اگر کوئی تخلیق کار صرف اس لیے لکھ رہا ہے کہ وہ داد پائے، اشاعت ہو، پذیرائی ہو — تو وہ حرفوں کے تاجر ہیں، روح کے خالق نہیں۔
اصل ادب وہ ہوتا ہے جو:
ظلم پر خاموشی کو بے نقاب کرے
محبت کو رسموں سے آزاد کرے
انسان کو انسان سے جوڑنے والا پل بنے
اور سب سے بڑھ کر — انسان کو اس کے آپ سے ملوائے
یاد رکھیے، کوئی بھی معاشرہ اس وقت مرنے لگتا ہے جب اس کے ادیب خاموش ہو جائیں۔ کیونکہ جب حرف چپ ہو، تو سچ دفن ہو جاتا ہے۔
لیکن خوش نصیبی یہ ہے کہ ہر عہد میں کوئی نہ کوئی قلم ایسا ہوتا ہے جو صدیوں کی خاموشی کو توڑتا ہے۔
یہی قلم "ادب" کہلاتا ہے۔
اور ادب کبھی نہیں مرتا۔
ادب صرف کتابوں میں نہیں ہوتا، وہ دلوں میں جاگتا ہے، آنکھوں سے بولتا ہے، ضمیروں کو جھنجھوڑتا ہے، اور وقت کو فتح کرتا ہے۔
ادب وہ آہٹ ہے جو سماج کی کچلی ہوئی روح میں زندگی کی آواز بن کر گونجتی ہے۔
ادب وہ آنسو ہے جو بے حس چہروں پر احساس کی نمی لا دیتا ہے۔
ادب وہ احتجاج ہے جو خامشی سے بلند ہوتا ہے، اور زمانے کی دیواروں پر سوال کی طرح لکھا جاتا ہے۔
اگر آپ کے لفظ کسی کو چونکا نہ سکیں، جگا نہ سکیں، تو پھر وہ صرف روشنائی ہیں — روشنی نہیں۔
ادب وہی ہے جو سوال بن جائے، جو خواب دکھائے، جو زخم گنے نہیں بلکہ مرہم بن جائے۔
---
اے اہلِ قلم!
اگر تمہیں نیند آنے لگے، تو یاد رکھنا، تمہارے لفظوں کو جاگتے رہنا ہوگا۔
اگر تم خاموش ہو جاؤ، تو یاد رکھنا، کسی بے گناہ کی چیخ سنائی دینا بند ہو جائے گی۔
اور اگر تم نے سچ نہ لکھا — تو یاد رکھو، تم نے آنے والی نسلوں کے ضمیر پر جھوٹ کا قرض چڑھا دیا ہے۔
پس، ادب لکھو — مگر وہ جو زندہ ہو۔
جو لہو میں دھڑکے، جو آنکھوں میں چمکے، جو ضمیر کو جگائے۔
اور اگر تم ایسا ادب لکھ سکتے ہو —
تو تم سچے ادیب ہو۔
---
(C):
Mazmoon
Adab aur Zameer Ki Awaaz
Qalam ki sadaqat ka bohraan
Mazmoon:
Nigar Aleem Tahir
Email id: aleemtahir12@gmail.com
_________________________
No comments:
Post a Comment