Wednesday, 18 June 2025

افسانہ نمبر 29 خاموش پتنگ



افسانہ نمبر : 29 _ خاموش پتنگ


افسانہ نگار: علیم طاہر


         


            "پتنگ اگر ہار جائے، تو سمجھ لینا ہوا نہیں، یقین کمزور تھا۔"

یہ جملہ زریاب نے اُس وقت پہلی بار سنا تھا جب وہ صرف سات سال کی تھی، اور اُس کے دادا کی انگلی پکڑ کر چھت پر آسمان کو دیکھا کرتی تھی۔


دادا کی انگلی میں لرزش تھی، مگر ڈور مضبوط تھی۔

وہ بوڑھے ہاتھ ایک کاغذی پتنگ کو یوں تھامے ہوتے جیسے کسی خواب کی لگام ہو۔

دادا کہا کرتے،


 "پتنگ صرف کاغذ نہیں ہوتی... یہ وہ خواب ہے جو ہوا سے لڑنا سیکھتے ہیں۔"


زریاب کو تب یہ صرف ایک کھیل لگتا تھا۔

مگر زندگی، کھیل نہیں نکلی۔


---


          دادا کے انتقال کے بعد، زریاب کی دنیا میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔

چھت پر اب صرف خاموشی رہتی — وہی چھت، جہاں ہر اتوار کو رنگ برنگی پتنگیں دادا کے ہاتھوں آسمان چھوتی تھیں۔


ایک دن، دادا کی پرانی صندوقچی کھولتے ہوئے زریاب کو ایک کٹی ہوئی پتنگ ملی۔

پتنگ کا رنگ ماند پڑ چکا تھا، مگر اس پر ایک دھندلا سا جملہ لکھا تھا:


 "ہر پتنگ ایک وارث مانگتی ہے۔"


زریاب چونکی۔

کیا یہ جملہ اُس کے لیے تھا؟


اُس رات اُس نے پہلی بار ڈور کو چھوا۔

زخم لگے، انگلیاں کٹیں، لیکن اُس نے سیکھا —

پتنگ کیسے جیتتی ہے؟

ڈور سے نہیں، دل سے۔


---


            مہینوں کی مشق کے بعد، زریاب نے دادا کی پرانی مانجھی ہوئی ڈور سے ایک نئی پتنگ بنائی —

سفید، مگر اس پر رنگ برنگے خواب۔

پھیکی، مگر اُمید سے بھری۔


چھت پر آج بھی لوگ حیرت سے اسے دیکھتے تھے۔

"یہ وہی لڑکی ہے؟ دادا والی؟"

"کیا یہ اڑا پائے گی؟"


زریاب کی پتنگ اُڑنے لگی — آسمان میں ایک کچی امید کی طرح۔

ہوا مخالف تھی۔

راہمیر کی ٹیم "ہواباز" پوری قوت سے چھتوں پر چھائی ہوئی تھی۔


راہمیر، جو پتنگ بازی کو جنگ سمجھتا تھا، اور زریاب کو ایک مذاق۔


"یہ بچی؟ دادا کی وارث؟ ہاہ!"


زریاب نے بس دادا کی آواز سنی...


 "وقار سے اڑنے والا کبھی گرتا نہیں، زریاب۔"


---


         مقابلے کے دن آسمان رنگوں سے بھر گیا۔

زریاب کی پتنگ مخالف سمتوں سے گھری ہوئی تھی۔


تب اسے احساس ہوا —

ڈور میں چبھن ہے۔

ہاتھ زخمی ہو گئے۔

خون بہہ نکلا۔


کسی نے اُس کی پتنگ کی ڈور میں زہر ملایا تھا...

یہ صرف مقابلہ نہیں تھا، سازش تھی۔


راہمیر چلاّیا:

"یہی ہوتا ہے جب خواب عورتوں کے ہاتھوں میں آ جائیں!"


زریاب کا دل لرزا، مگر اُس کی روح میں دادا کی پکار تھی:


> "زریاب! اگر ہوا دشمن ہو جائے، تو پرواز میں ہچکچاہٹ نہیں، ہنر دکھاؤ!"


---


         زریاب نے دونوں ہاتھوں سے زخمی ڈور تھامی۔

چیخوں کے درمیان، خاموشی کی لکیروں سے گزرتی، اُس نے ایک آخری جھٹکا دیا...


راہمیر کی پتنگ قلابازی کھا کر نیچے گر گئی۔


سناٹا چھا گیا۔


زریاب کی پتنگ... آسمان پر اکیلی رہ گئی۔

خاموش، مگر فتح مند۔


-----


    شام کے وقت، زریاب نے وہی صندوقچی کھولی۔

اب وہ صرف دادا کی یاد نہیں تھی،

بلکہ خود ایک داستان بن چکی تھی۔


پرانی پرچی کے نیچے ایک خفیہ نوٹ تھا، شاید دادا نے کبھی مکمل نہیں کیا تھا:


 "زریاب، اگر یہ پڑھے... تو جان لے کہ ہر پتنگ ہار سکتی ہے، مگر وارث اگر ہار مانے، تو پورا آسمان خالی ہو جاتا ہے۔"


زریاب نے نیچے اپنی تحریر میں لکھا:


"دادا... اب آسمان کبھی خالی نہیں رہے گا۔"


افسانہ نگار :  علیم طاہر 


---

(C):Afsana 

Khamosh patang 

Afsana Nigar:

 Aleem Tahir 

Email id: 

aleemtahir12@gmail.com

______________________

No comments:

Post a Comment