Friday, 6 June 2025

افسانہ 20۔ سایہ جو چپ رہتا

 آفسانہ نمبر:  20


عنوان: "سایہ جو چپ رہتا ہے"


(افسانہ نگار: علیم طاہر)


کہا جاتا ہے…

ہر انسان کے ساتھ ایک سایہ پیدا ہوتا ہے،

لیکن شہرِ "سناخت" میں لوگوں کے سائے چپ تھے، اور خود لوگ مسلسل بولتے رہتے تھے۔

اتنا بولتے کہ لفظ کم پڑ جاتے اور چیخیں جملوں کا نعم البدل بن جاتیں۔


وہ شہر لفظوں کی بارش میں جلتا تھا،

جہاں دعائیں صرف نعرے تھیں، اور سچ صرف "ذاتی خیال"۔


ایک روز ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا سایہ بولتا تھا —

مگر خود لڑکا گونگا تھا۔


جب وہ چلتا، اس کا سایہ آگے چلتا۔

جب وہ بیٹھتا، سایہ کھڑا رہتا۔

اور جب وہ سوتا، سایہ جاگتا رہتا، اور سرگوشی میں کہانیاں سناتا —

ایسی کہانیاں جو کسی کتاب میں نہیں ملتیں، اور جنہیں سننا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔


شہر والوں کو یہ سایہ پسند نہ آیا۔


ایک عالمِ دین نے فتویٰ جاری کیا:

"یہ سایہ شرک ہے۔ سایہ صرف تابع ہونا چاہیے، ترجمان نہیں!"


ایک فلسفی نے تنبیہ کی:

"یہ سایہ ما بعد الطبیعاتی انحراف ہے — اس کی بولی وقت کو بگاڑ دے گی!"


اور ایک وزیر نے قانون بنایا:

"سایہ جو بولے، وہ بغاوت کے زمرے میں آئے گا!"


اب اس لڑکے کو شہر بدر کیا گیا۔

لیکن جیسے ہی وہ شہر سے نکلا، اس کا سایہ اس کے وجود سے الگ ہو گیا —

اور آسمان پر ابھرتے ہوئے ایک سیاہ پرندے میں بدل گیا۔


پرندہ اونچا اڑا۔

اور بولنے لگا۔

اس کی آواز کسی صحیفے کی طرح سنائی دی:


"یہ لوگ سائے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ خود سایہ بن چکے ہیں…!"


شہرِ سناخت کے لوگ آسمان کی طرف دیکھ کر چیخنے لگے،

لیکن ان کی چیخیں اب آواز سے خالی تھیں —

کیونکہ پہلی بار وہ خود بے سائے ہو چکے تھے۔


انہیں سمجھ نہیں آیا کہ اصل سزا کیا تھی —

سایہ کا بولنا،

یا ان کا خود سایہ بن جانا…؟



---




آج بھی جب رات گہری ہو جاتی ہے،

اور لوگ اپنے آپ سے سچ بولنے کی کوشش کرتے ہیں،

تو انہیں لگتا ہے کوئی سایہ ان کے کان میں کہتا ہے:


"تم وہ ہو جو سچ سے پہلے خاموش ہو جاتے ہو، اور جھوٹ کے بعد بولنا سیکھتے ہو۔"



---


No comments:

Post a Comment