افسانہ : 12
عنوان: دھوپ
افسانہ نگار: علیم طاہر
---
صبح کی دھوپ نرم چادر کی طرح گاؤں کے میدان پر پھیل چکی تھی۔ درختوں کی چھاؤں نیم خوابیدہ لگ رہی تھی، اور بادلوں کی اوٹ سے سورج جھانکتا، جیسے کسی پردے کی اوٹ سے وہ محبوبہ، جو سارا منظر سنوار دیتی ہے۔
ریحان، شہر سے آیا ہوا نوجوان شاعر، آج پہلی بار شمائلہ سے ملنے آیا تھا، گاؤں کے اس پرانے کنویں کے پاس، جہاں بچپن کی دھوپ ان دونوں پر بکھرتی رہی تھی۔
شمائلہ نیلے دوپٹے میں ملبوس، آنکھوں میں برسوں کی پرچھائیاں اور ہونٹوں پر وہ خاموشی لیے، جیسے ہر لفظ صرف ریحان کے لیے سنبھال کر رکھا ہو۔
ریحان (ہنستے ہوئے):
"تمہیں یاد ہے، بچپن میں تم کہا کرتی تھیں کہ دھوپ میری محبوبہ ہے… اور اب؟"
شمائلہ (نرمی سے):
"اب دھوپ تمہارے ہاتھ کی گرمی جیسی لگتی ہے… نرم، سچی… اور جلانے والی نہیں۔"
ریحان کے دل میں ایک سرگوشی اٹھی۔ دھوپ کی تپش میں وہ پہلی بار سکون محسوس کر رہا تھا۔
ریحان:
"شمائلہ، تم تو ہمیشہ چھاؤں تلاش کرتی تھیں… پھر دھوپ سے اتنی قربت کیوں؟"
شمائلہ (آہستگی سے):
"تم جیسے لوگ دھوپ سے بنتے ہو ریحان… تمہاری باتوں میں روشنی ہے، تمہاری خاموشی میں تمازت…
میں نے سیکھا ہے، محبت صرف چھاؤں نہیں ہوتی…
سچی محبت وہ ہے، جو جل کر بھی چمکتی ہے… دھوپ کی طرح۔"
ریحان نے آسمان کی طرف دیکھا۔ دھوپ کی تیز کرنیں اس کی پلکوں پر رقص کر رہی تھیں۔
وہ لمحہ، جیسے وقت کی دھڑکن بن گیا۔
ریحان:
"تو آج سے ہم اس دھوپ میں قدم بہ قدم چلیں گے؟
نہ چھاؤں کی تلاش، نہ سایے کی آس؟"
شمائلہ:
"ہاں، ہم دھوپ میں جئیں گے، ریحان…
کیونکہ جو محبت سورج جیسی ہو،
وہ چھپ کر نہیں، جگمگا کر جیتی ہے۔"
ریحان نے شمائلہ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسالیں۔
دھوپ ان کے سروں پر چمک رہی تھی، جیسے کسی منظوری کی مہر ہو۔
کہیں دور گاؤں کے بچے پتنگیں اڑا رہے تھے، ہوا میں قہقہے گھل رہے تھے…
اور دھوپ، دو عاشقوں کے درمیان خاموشی سے محبت کی چادر بن کر بچھتی جا رہی تھی۔
ریحان اور شمائلہ کی انگلیاں دھوپ میں ایک دوسرے میں گندھی رہیں۔ دھوپ اب ہلکی سی تیز ہو چکی تھی، لیکن ان کے بیچ کوئی سایہ نہیں رہا، نہ کسی سوال کا، نہ کسی ڈر کا۔
مگر زندگی صرف شاعری نہیں ہوتی۔
اسی وقت گاؤں کے پگڈنڈی سے چوہدری ارشد کا بیٹا، عامر، شمائلہ کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ کڑوی مسکراہٹ، غرور سے بھری آنکھیں، اور آواز میں وہ حق جتانے والا زہر جو برسوں پرانا تھا۔
عامر:
"تو اب تم شہروں کے شاعر کے ساتھ دھوپ میں خواب بنتی ہو؟
یاد رکھو شمائلہ، تم اس مٹی کی ہو، اور اس مٹی کا فیصلہ گاؤں کے دستور کرتے ہیں، نہ دل۔"
ریحان نے آگے بڑھ کر شمائلہ کا ہاتھ تھاما۔
ریحان (پُرسکون لہجے میں):
"یہ مٹی صرف قدموں کی نہیں ہوتی، خوابوں کی بھی ہوتی ہے۔
شمائلہ کی مٹی اب روشنی میں جاگ گئی ہے، اور روشنی پر کسی کا زور نہیں چلتا۔"
شمائلہ (نرمی سے مگر پورے یقین کے ساتھ):
"عامر، تم جو کہتے رہے، میں سنتی رہی۔
لیکن آج پہلی بار میں اپنی آواز کو سن رہی ہوں۔
اور میری آواز کہتی ہے: میں ریحان کے ساتھ دھوپ میں جیوں گی، نہ تمہارے سایے میں۔"
عامر کچھ لمحے خاموش رہا، پھر چپ چاپ لوٹ گیا۔
ریحان نے شمائلہ کو کنویں کے پاس لے جا کر کہا:
ریحان:
"یاد ہے تم کہتی تھیں، تم دھوپ سے ڈرتی ہو؟"
شمائلہ (ہنستے ہوئے):
"ہاں، پر اب اس دھوپ میں تمہاری آنکھیں چمکتی ہیں،
تو مجھے روشنی سے پیار ہو گیا ہے۔"
وہ دونوں کنویں کے کنارے بیٹھے، جیسے وقت کی لکیروں کو مٹا رہے ہوں۔ دھوپ اب تھوڑی جھک چکی تھی، جیسے شام کی گود میں جا رہی ہو۔ لیکن محبت کی روشنی ابھی جوان تھی۔
ریحان نے جیب سے ایک پرانا کاغذ نکالا — اس پر ایک نظم لکھی تھی، وہ جو برسوں پہلے اس نے خواب میں دیکھی تھی:
> "دھوپ میں وہ چہرہ تھا،
روشنی میں وہ باتیں تھیں،
اور محبت…
وہ تھی، جو جلنے سے نہیں ڈرتی۔"
شمائلہ کی آنکھیں بھیگ گئیں، لیکن چہرہ چمک رہا تھا۔
شمائلہ:
"کیا یہ نظم میرے لیے ہے؟"
ریحان:
"نہیں، یہ نظم ہم دونوں کے لیے ہے…
اس دھوپ کے لیے، جو ہماری چھاؤں بن گئی۔"
---
دھوپ سمٹ رہی تھی، پر ان کے چہرے چمک رہے تھے۔
کنویں کے کنارے دو دل، ایک خواب، اور ایک محبت…
جو دھوپ کی طرح صاف، گرم، اور سچی تھی۔
افسانہ نگار: علیم طاہر
(C):
Writer
Aleem Tahir
Email: aleemtahir12@gmail.com.
---
No comments:
Post a Comment