افسانہ نمبر: 18
: "گم شدہ آئینے کا چہرہ"
(افسانہ نگار: علیم طاہر)
اس شہر میں کوئی آئینہ نہیں بکتا تھا۔
نہ بازار میں، نہ محل میں، نہ مسجدوں اور نہ عدالتوں میں۔ صرف ایک پرانا آئینہ بچا تھا، جو کبھی ایک بزرگ فلسفی کے کمرے میں نصب تھا۔ لوگ کہتے تھے، اُس آئینے میں چہرہ نہیں، سچائی دکھتی تھی۔
ایک دن وہ لڑکا جو ہر وقت سوال کرتا رہتا تھا، اس آئینے کو ڈھونڈنے نکلا۔ وہ سڑکوں سے گزرا جہاں دیواروں پر نعرے نہیں، زخم ثبت تھے۔ وہ گلیوں سے گزرا جہاں کھڑکیوں کے پیچھے آنکھیں نہیں، خوف بیٹھا تھا۔ وہ محل کے قریب پہنچا تو دروازے پر سیاہ چادر میں ملبوس ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی، جو آنکھوں پر سفید پٹیاں باندھے تھی۔
"آگے مت جانا، وہاں خواب جلتے ہیں"، اس نے سرگوشی کی۔
لڑکا ہنسا — "میں خوابوں کو جلتا ہوا دیکھنے آیا ہوں، تاکہ جان سکوں راکھ میں کیا بچتا ہے۔"
محل کے اندر ایک طویل گیلری تھی، جہاں ہر کمرے میں ایک خالی فریم آویزاں تھا۔ نیچے تختیاں تھیں — "جمہوریت"، "سیکولرزم"، "انصاف"، "رواداری" — لیکن ان میں کوئی عکس نہیں تھا۔ جیسے الفاظ، اپنے معانی کھو بیٹھے ہوں۔
آخر میں ایک بند کمرہ آیا۔ دروازے پر لکھا تھا:
"یہاں آئینہ رکھا ہے — مگر دیکھنے سے پہلے فیصلہ کرو، کیا تم اپنے اندر کے جانور سے نظریں ملا سکتے ہو؟"
وہ دروازہ کھولتا ہے۔ اندر ہلکی روشنی ہے۔ درمیان میں ایک قدآور آئینہ رکھا ہے۔ وہ اس میں دیکھتا ہے — اور حیرت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
اس میں کوئی چہرہ نہیں — صرف ایک سیاہ سایہ ہے، جو چیخ رہا ہے:
"میں وہ ہوں جسے تم نے مار دیا، جب تم نے قلم کے بجائے خنجر چُنا۔ میں وہ ہوں جسے تم نے جلا دیا جب مسجدوں میں محبت کی جگہ نفرت رکھ دی گئی۔ میں وہ ہوں جو تمہاری خاموشی کی راکھ سے بنا ہوں۔"
آئینے میں آنسو اُترتے ہیں، اور پھر وہ سایہ پھٹ کر ایک روشنی بن جاتا ہے۔
لڑکے نے آنکھیں بند کیں۔ جب کھولیں، آئینہ غائب تھا۔ کمرہ خالی تھا۔ بس ایک جملہ فرش پر لکھا تھا:
"اب تم ہی آئینہ ہو۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ عکس دکھاؤ گے یا سائے؟"
---
وہ واپس شہر آیا — ایک آئینہ بن کر۔
لوگ اس کی آنکھوں میں جھانکتے، اور یا تو شرمندہ ہو جاتے یا خوف زدہ۔
کیونکہ جو خود کو سچائی کے بغیر دیکھے، وہ یا ٹوٹ جاتا ہے یا تلوار اٹھا لیتا ہے۔
---
No comments:
Post a Comment