افسانہ: 06
بارش کی خوشبو
(رومانٹک افسانہ)
افسانہ نگار: علیم طاہر
مالیگاؤں کی گلیاں اکثر اچانک برستی بارش
سے چونک پڑتی ہی
بوندیں مٹی کو چھوتی ہیں، اور ایک مانوس سی خوشبو فضا میں تیرنے لگتی ہے۔
یہ خوشبو کچھ لوگوں کے دل میں ٹھہر جاتی ہے۔
اور حنین انہی لوگوں میں سے تھی۔
اس شام بھی، جب بازار کے نکڑ پر پہلی بوند گری، حنین نے دوپٹہ سنبھالتے ہوئے آسمان کو دیکھا۔
کوئی لمحہ یاد آیا، یا کوئی چہرہ، یہ تو کہنا مشکل ہے، مگر وہ رک گئی۔
دھوپ چھاؤں جیسی اس کی آنکھوں میں اک دھند آ گئی تھی۔
کافی ہاؤس کے کونے والی میز پر بیٹھتے ہوئے اس نے موبائل پر وقت دیکھا — پانچ بج کر پندرہ منٹ۔
یہ وہی وقت تھا جب آریش اکثر آیا کرتا تھا۔
دو سال پہلے۔
جب وہ مالیگاؤں کی بارش میں بھیگتی تھی، اور وہ دونوں زندگی کے خواب بُنتے تھے۔
حنین نے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا:
"عجیب بات ہے نا… بارش میں ہر چیز بھیگتی ہے، سوائے یادوں کے۔ وہ تو پہلے سے ہی نم ہوتی ہیں۔"
کچھ فاصلے پر ایک پرانا بنچ تھا، جہاں وہ دونوں بیٹھا کرتے تھے۔
اب وہ خالی تھا، مگر حنین کے دل میں وہ آج بھی مصروف تھا — باتوں سے، ہنسی سے، اور چند ایسے خوابوں سے جنہیں موسم بھی دھو نہ سکا۔
---
پچھلے وقت کا ایک ٹکڑا
"بارش رکنے والی نہیں لگتی،" آریش نے کہا تھا، جب وہ دوپٹہ سمیٹتی ہوئی بھیگنے سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"رکنے دو… کبھی کبھی بھیگ جانا ضروری ہوتا ہے،"
حنین نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔
آریش کا ہنسنا حنین کو ہمیشہ بارش جیسا لگتا تھا — بے ساختہ، مگر دل کو چھو لینے والا۔
---
حال کی حقیقت
حنین کو اب بارش میں بھیگنے سے ڈر لگتا تھا۔
نہ جانے کیوں… شاید وہ بھیگ کر پھر وہ سب نہ یاد کر بیٹھے جو دفن سمجھا گیا تھا۔
کافی ختم کر کے وہ نکلی، اور سڑک کنارے رک گئی۔
آسمان صاف ہو چکا تھا، مگر دل اب بھی بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔
اسی وقت، ایک آواز نے اسے چونکایا۔
"حنین…"
آواز آشنا تھی، جیسے پرانے گانے کی کوئی بھولی ہوئی دھن۔
مڑ کر دیکھا تو آریش تھا۔
بدلا بدلا سا، مگر آنکھیں وہی تھیں۔
حنین نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا:
"بارش کے بعد زمین نم رہتی ہے، اور کچھ دل بھی۔"
آریش قریب آیا، فاصلے ابھی باقی تھے، مگر خامشی میں بھی کچھ کہا گیا تھا۔
"میں سوچتا تھا… شاید تم بھول چکی ہوگی،"
آریش نے ہولے سے کہا۔
"اور میں سوچتی تھی… شاید تم کبھی سمجھو گے،"
حنین کی آواز نمی سے بھیگی تھی۔
خاموشی پھیل گئی۔
جیسے دو کتابوں کے درمیان کوئی بے نام صفحہ کھل گیا ہو۔
آریش نے پوچھا:
"کیا دوبارہ آغاز ممکن ہے؟"
حنین نے نظریں ملائے بغیر کہا:
"ممکن ہے، اگر بارش کی خوشبو پھر سے سانسوں میں بسنے لگے…"
کچھ دیر دونوں خاموش کھڑے رہے۔
نہ "ہاں" کی ضرورت تھی، نہ "نہ" کی۔
جو کہا گیا تھا، وہ لفظوں سے پرے تھا۔
حنین آہستہ سے چلنے لگی۔
آریش اس کے ساتھ قدم ملا کر چلنے لگا۔
بارش رک چکی تھی۔
زمین گیلی تھی۔
اور ہواؤں میں پھر سے وہی خوشبو اترنے لگی تھی…
بارش کی خوشبو۔
---
*** حنین اور آریش نے ایک دوسرے کو پایا نہیں تھا، دوبارہ چُنا تھا۔
اور چُنی گئی محبت میں اک نرمی ہوتی ہے، وہ مطالبہ نہیں کرتی، بس موجود رہتی ہے۔
مالیگاؤں کی پرانی بیکری کے سامنے وہ کرائے کے گھر میں شفٹ ہوئے — چھوٹا سا گھر، مگر محبت کا ہر کونا روشن تھا۔
ایک دن، بارش ہلکی ہلکی برس رہی تھی۔
آریش کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا اور حنین چائے بنا رہی تھی۔
آریش نے کہا:
"تمہاری چائے میں بھی بارش جیسا سکون ہے…"
حنین نے مسکرا کر پلٹ کر کہا:
"اور تمہارے لفظوں میں پرانے گانے جیسا سکون… جو بار بار سننے کو جی چاہتا ہے۔"
چائے کے کپ تھامے دونوں چھت پر آ گئے۔
بارش کی بوندیں ان کی خامشی پر ساز بن چکی تھیں۔
حنین نے آریش سے پوچھا:
"تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ کہ کہیں یہ سب بس خواب نہ ہو؟"
آریش نے اس کے ہاتھ تھام کر کہا،
"اگر خواب میں تم ہو… تو جاگنے کا کیا فائدہ؟"
---
چھوٹی چھوٹی خوشیاں
آریش اکثر کتابوں میں محبت کے نشان چھوڑ دیتا،
کبھی پھول، کبھی پرچی جس پر لکھا ہوتا — "تم مسکراؤ تو بارش کی خوشبو اور نکھر جاتی ہے۔"
حنین روز صبح شیشے پر انگلی سے لکھتی:
"میرا دن تم سے شروع ہوتا ہے۔"
اور شام کو وہ دھندلے لفظوں کو پڑھ کر مسکرا دیتا۔
ایک شام، بارش کچھ زیادہ تیز ہو گئی۔
بجلی چمکی، اور حنین تھوڑا سہم گئی۔
آریش نے اسے اپنی بانہوں میں لے کر کہا:
"بارش میں ڈرنے کی نہیں، بھیگنے کی چیز ہے… جیسے محبت۔"
---
تلخ لمحے بھی آئے…
ایک دن، آریش نے حنین سے کہا،
"مجھے کچھ دن شہر سے باہر جانا ہے، ایک آرٹ ورکشاپ کے لیے…"
حنین نے چہرہ نیچے کر کے دھیرے سے کہا:
"بارش میں تم نہیں ہو گے تو مجھے بوندیں بھی خاموش لگیں گی…"
آریش نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
"میں جہاں بھی جاؤں، تو یہ خوشبو تو تمہارے ساتھ رہے گی۔"
---
واپسی
کچھ دن بعد جب آریش واپس آیا،
تو حنین چھت پر کھڑی بارش میں بھیگ رہی تھی،
جیسے کوئی وعدہ نبھا رہی ہو…
آریش نے دور سے دیکھ کر کہا:
"میں لوٹ آیا ہوں… تم میں، اس خوشبو میں، اپنی زندگی میں۔"
حنین بھاگ کر اس کے گلے لگ گئی،
اور ان کے بیچ بارش کی وہ خوشبو بس گئی… ہمیشہ کے لیے۔
---
(تیسرا باب ):
وہ لمحہ جب بارش نے ہمیں مکمل کیا
مالیگاؤں کی گلیاں، ان دنوں محبت بھرے نغموں کی طرح دکھتی تھیں۔
ہر نکڑ پر خزاں کے خشک پتے بھی ایک دھن میں اڑتے تھے،
اور آسمان۔۔۔۔۔۔۔
جیسے کسی بہت خاص لمحے کی تیاری کر رہا تھا۔
آج آریش نے حنین کے لیے کچھ خاص سوچ رکھا تھا۔ وہ لمحہ، جو وہ مدتوں سے اپنے دل میں سجا رہا تھا…
---
حنین، سفید کرتا پہنے صحن میں بیٹھ کر آم کے پتوں سے بنی ایک کتابی بک مارک بنا رہی تھی۔
اس کی انگلیاں خوشبو بُن رہی تھیں اور نگاہیں کسی انجانے انتظار کی طرف لگی تھیں۔
اتنے میں آریش آیا — ہاتھ میں چھوٹا سا صندوق، اور آنکھوں میں ہزاروں ستارے۔
آریش :
"کیا تمہیں معلوم ہے، اس مالیگاؤں شہر کی بارشیں تم پر رشک کرتی ہیں؟"
حنین (مسکرا کر):
"کیونکہ میں بھیگتی ہوں اور تم لفظوں میں بھیگا کرتے ہو؟"
آریش (صندوق آگے بڑھاتے ہوئے):
"نہیں… کیونکہ میں نے ان سے کچھ چُرا لیا ہے۔ یہ… تمہارے لیے۔"
حنین نے حیرت سے صندوق کھولا —
اس میں ایک پرانا، سرمئی رنگ کا چھوٹا سا موسیقی کا باکس تھا،
جیسے بچپن کی یادوں میں بجتا رہتا ہو۔
اور ساتھ ہی، ایک چھوٹی سی انگوٹھی…
جس پر کندہ تھا: "بارش کی خوشبو میں تم ہو…"
حنین کی آنکھیں بھر آئیں۔
حنین:
"یہ سب… اتنا خوبصورت کیوں ہے؟"
آریش:
"کیونکہ تم ہو۔ تمہارے ساتھ جو بھی لمحہ ہو… وہ خوبصورت ہو جاتا ہے۔"
پھر اچانک بارش برسنے لگی — وہی پہلی بار جیسی، دھیرے، نرمی سے…
آریش نے جھک کر اس کے سامنے ایک گھٹنہ ٹیکا، اور کہا:
"حنین، محبت کو بہت دن جیا، اب چاہتا ہوں اسے زندگی میں بسا لوں…
کیا تم بارش کے ہر موسم میں میری ساتھی بنو گی؟"
حنین نے کوئی جواب نہیں دیا،
بس آنکھوں میں وہ ہاں تھی جو لفظوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔
---
(چھ مہینے بعد)....…
وہی صحن، وہی خوشبو،
بس آج مہمان زیادہ تھے،
اور چھت پر جگمگاتی لڑیوں کے بیچ بیٹھے تھے دو لوگ —
آریش اور حنین، اپنی شادی کے دن۔
ہر طرف ہنسی تھی، خوشبو تھی، اور موسیقی کا وہی باکس خود بخود بج رہا تھا…
اور بارش — جیسے انہیں آشیرباد دینے آئی ہو۔
ایک دوست نے پوچھا:
"محبت کا انجام کیا ہوتا ہے؟"
آریش نے ہنستے ہوئے جواب دیا:
"محبت کا انجام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…
اگر محبت سچی ہو…
تو وہ بارش کی خوشبو کی طرح… ہر موسم میں باقی رہتی ہے۔"
---
اختتام:
وہ خوشبو جو کبھی ختم نہ ہو
حنین اور آریش کی محبت ختم نہیں ہوئی —
وہ روز کے معمول، قہقہوں، جھگڑوں، اور چائے کے کپوں میں زندہ رہی۔
محبت نے ان کا پتہ لکھ دیا تھا —
بارش کی خوشبو، گلی نمبر سات، مالیگاؤں۔
جہاں ایک چھوٹا سا صندوق تھا،
ایک موسیقی کا باکس،
اور ایک مکمل محبت کی کہانی…
افسانہ نگار: علیم طاہر
____________________________________________
(C):
Afsana
Baarish ki khushboo
By
Writer
Aleem Tahir
Email id aleemtahir12@gmail.com
____________________________________
No comments:
Post a Comment