افسانہ۔ 13
عنوان: چائے کا کپ
افسانہ نگار: علیم طاہر
---
بارش کی رم جھم میں مالیگاؤں کے پرانے بس اسٹینڈ کے سامنے واقع چھوٹی سی ٹپری نما چائے کی دکان پر وہ دونوں اکثر ملا کرتے تھے۔
"ایک کٹ چائے، کم شکر، تھوڑی سی تلخی کے ساتھ۔۔۔ جیسے "
ریحان ہنستے ہوئے کہتا اور سارہ نظریں جھکا کر چائے کی خوشبو سونگھتے ہوئے مسکرا دیتی۔
چائے کے کپ جیسے وہ لمحے تھے جو ہمیشہ ادھورے رہتے… لیکن مکمل محسوس ہوتے۔
سارہ کے چہرے پر وہ چمک تھی جو بارش کے بعد مالیگاؤں کی مٹی میں اترتی خوشبو جیسی تھی۔ اور ریحان؟ وہ ان آنکھوں میں ڈھلنے والے شعر کی طرح تھا، جو صرف محسوس کیا جاتا ہے، بیان نہیں۔
سارہ:
"تمہیں چائے سے محبت ہے یا مجھ سے؟"
ریحان:
"چائے میں تمہاری جھلک ہے… اور تم میں چائے جیسی تپش، نرمی، اور کڑواہٹ۔"
ایک دن وہ چائے کا کپ درمیان میں رکھے بیٹھے تھے، جب اچانک سارہ نے کہا:
"میں کل جا رہی ہوں، مستقل۔۔۔ ممبئی۔ شادی ہو رہی ہے میری۔"
ریحان خاموش رہا۔ چائے کا کپ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
ریحان:
"یہ چائے بھی کبھی ہماری طرح گرم تھی… اور اب…؟"
سارہ:
"تم نے تو کبھی کہا ہی نہیں کچھ…"
(اس کی آواز تھکی ہوئی تھی، جیسے آخری گھونٹ باقی ہو)
ریحان:
"کہنے کے لیے کبھی وقت نہیں ملا،
اور اب شاید وقت ہی چائے کی طرح چھن گیا ہے۔"
بارش تیز ہو چکی تھی، سڑک پر پانی بہنے لگا تھا، جیسے جذب نہ ہونے والی محبت بہہ رہی ہو۔ سارہ چلی گئی۔ ریحان روز اس چائے کی دکان آتا، دو کپ منگواتا… اور ایک خالی چھوڑ دیتا۔
دن، ہفتے، مہینے گزر گئے۔ پھر ایک دن، موسم ویسا ہی تھا، بارش میں بھیگی ہوا، اور بارش کی ہلکی خنکی میں لپٹی تنہائی۔
تبھی ایک اجنبی سی آواز سنائی دی:
"ایک کٹ چائے، کم شکر… اور تھوڑی تلخی کے ساتھ۔۔۔ جیسے تم!"
ریحان نے نظریں اٹھائیں۔
سارہ سامنے کھڑی تھی، پر آج اُس کی مانگ خالی تھی، آنکھوں میں ہلکی سی نمی اور ہونٹوں پر ہنسی۔
ریحان:
"تم…؟"
سارہ:
"شادی نہیں کی۔ ممبئی پہنچی تو لگا، سب کچھ رہ گیا یہاں…
چائے کا ذائقہ، تمہاری باتیں، یہ دکان… اور وہ کپ جس میں ہم دونوں تھے۔"
ریحان نے کانپتے ہاتھوں سے وہی کپ اٹھایا، جو برسوں سے اُس کے دل کی طاق پر رکھا تھا — ایک خالی چائے کا کپ، پر مکمل۔
ریحان:
"چائے تو اب بھی ویسی ہے،
بس تمہیں پلانے والا تھک گیا تھا… انتظار کرتے کرتے۔"
سارہ:
"تو آج پلاؤ، اور کہنا مت چھوڑنا…
کیونکہ کچھ چائے کے کپ کبھی ٹھنڈے نہیں پڑتے،
اگر محبت سے لبریز ہوں۔"
---
اختتام:
بارش تھم چکی تھی۔ چائے کا دھواں اٹھ رہا تھا،
اور دو دلوں کی تلخ، مگر میٹھی کہانی — ایک کپ میں مکمل ہو رہی تھی۔
مالیگاؤں...
جہاں ہر گلی ایک قصہ ہے، ہر نکڑ ایک نظم، ہر چائے کا کپ ایک ادھورا خط۔
ریحان اور سارہ اب روز اس چھوٹی سی دکان پر ملتے ہیں۔ وہی خستہ سا چھپر، جس پر بارش کی بوندیں تال کی طرح گرتی ہیں، اور وہی لکڑی کی بینچ، جس پر کبھی خاموشی بیٹھتی ہے تو کبھی قہقہے۔
ریحان کی آنکھوں میں اب دھند نہیں رہی، وہی روشنی لوٹ آئی ہے جو برسوں پہلے سارہ اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اور سارہ؟ وہ اب ہر بار چائے کا پہلا گھونٹ لینے سے پہلے ریحان کی آنکھوں میں جھانکتی ہے، جیسے یقین کر رہی ہو کہ یہ لمحہ خواب نہیں۔
ایک دن شام کو، جب آسمان گلابی تھا اور ہوا میں رات کی خوشبو گھلنے لگی تھی، سارہ نے دھیرے سے کہا:
سارہ:
"پتا ہے ریحان… میں نے کئی شہر دیکھے، ممبئی کی روشنی، پونے کا سکون، دہلی کا ہجوم…
پر جو بات مالیگاؤں کی خاموش گلیوں میں ہے، وہ کہیں نہیں۔"
ریحان (ہنستے ہوئے):
"کیونکہ یہ شہر تمہیں میرے ساتھ چاہتا تھا… اور تم میرے ساتھ۔"
سارہ:
"اور تم؟ کیا تمہیں میری چاہت نے باندھ رکھا تھا؟"
ریحان:
"نہیں… تمہاری یاد نے آزاد کر دیا تھا — ہر بےمقصد خواب سے، ہر اجنبی شہر سے۔"
اسی لمحے، چائے والا دو کپ رکھ کر ہنسا:
"ارے واہ، آج چینی تھوڑی زیادہ ہے، شاید محبت بھی زیادہ ہو گئی ہے!"
وہ دونوں ہنس پڑے، اور سارہ نے پہلی بار وہی کپ اٹھایا جس میں برسوں پہلے کی خامشی چھپی تھی۔
ریحان:
"اب کوئی تلخی باقی ہے؟"
سارہ (نرمی سے):
"نہیں، صرف ایک ذرا سی خواہش ہے…"
ریحان:
"کیا؟"
سارہ:
"یہ چائے کا کپ… ہمیشہ تمہارے ساتھ پیوں، مالیگاؤں کی بارش میں… اور تمہاری آنکھوں کی روشنی میں۔"
ریحان نے کپ اس کے ہاتھ سے لیا، ایک گھونٹ پیا اور مسکرا کر بولا:
"یہ کپ اب کبھی خالی نہیں ہوگا… کیونکہ محبت اب مکمل ہے، اور شہر — مالیگاؤں — ہمارا ہے!"
---
بارش پھر ہونے لگی تھی۔
چائے کی بھاپ میں، محبت کی خوشبو تھی۔
اور مالیگاؤں، دو دلوں کے نام ایک افسانہ بن چکا تھا۔
---
افسانہ نگار: علیم طاہر
(C):
Afsana
Chaye ka Cup
By
Aleem Tahir
Email id aleemtahir12@gmail.com
No comments:
Post a Comment