Tuesday, 3 June 2025

افسانہ: 02_ بلیک ہول


                            افسانہ :02                                         بلیک ہول 

                       افسانہ نگار: علیم طاہر           




فضاؤں کی بلندیوں سے پستی کی جانب اترتا ہوا۔  خوبصورت صاف و شفاف شیشے سے تشکیل کردہ ہیلی کاپٹر پرکشش بنگلے کی چھت تک پہنچتا ہے.

 دوسرے ہی لمحے چھت درمیان سے ہٹتے ہوئے دو حصوں میں کھلنے لگتی ہے ۔

اور آہستہ روی کے ساتھ ہیلی کاپٹر چھت کے اندر بنگلے میں داخل ہو رہا ہے۔

 ہیلی کاپٹر کے اندر داخل ہوتے ہی چھت پہلے کی طرح آپس میں جڑ کر برابر ہو جاتی ہے۔

 اندر بنگلے کے ہال میں ہیلی کاپٹر لینڈ ہو رہا ہے ۔

رکتے ہی دروازہ اوپن ہوتا ہے ۔

جس کی سیڑھیوں سے ایان برامد ہوتا ہے چند انسان نما روبوٹس ایان کا استقبال کرتے ہیں۔

 دوسرے ہی لمحے فرش کے دونوں جانب فاصلہ بڑھتا ہے اور اچھا خاصا گہرا راستہ بن جاتا ہے۔

 ہیلی کاپٹر اڑتے ہوئے اندر کی طرف لینڈ ہو جاتا ہے۔

 اس کے لینڈ ہوتے ہی فرش بالکل برابر ہو جاتی ہے۔

    ایان اپنے بیڈ روم میں داخل ہو کر خود کفیل مشینوں کے ذریعے اپنے جوتے اور کپڑے تبدیل کرتا ہے۔

 بیڈ پر لیٹ جاتا ہے۔

 جہاں اسے موبائل پر خلا میں اڑتی ہوئی اس لیڈی کا دھیان اتا ہے جس کی پرکشش مسکراہٹ میں طلسماتی جذبات کار فرما ہیں۔

 وہ موبائل پر پراسرار عیب پر کلک کرتا ہے۔

 جہاں زمانہ مستقبل میں پہنچنے کے لیے کلک کیجئے لکھا ہوا ہے۔

 ایان اپنی انگلی سے کلک کرتا ہے۔

 لال پیلی روشنیوں کے اخراج کا عمل انعقاد پذیر ہو رہا ہے ۔

ایان روشنیوں کی زد میں آ کر ایپ میں پوری طرح سما کر غائب ہو جاتا ہے۔

فضاؤں میں پرندوں کی مانند بے شمار سواریاں پرواز کر رہی ہیں ۔

دودھیا موسم خوش رنگ کیفیت پیدا کر رہا ہے۔

 ایان بھی ایک شیشے کے سرمئی حصار میں مقید پرواز کرتے ہوئے اسی خوبصورت لیڈی کو اپنی مضطرب نگاہوں سے تلاشنے میں مگن ہے ۔

یخ لخت اس کے دوسری طرف وہی لیڈی ہنستے کھلکھلاتے ہوئے گلابی حصار میں مقید،

 حاضر ہو جاتی ہے۔

وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھتا ہے ۔

او ہو !!.....

میں نے بس سوچا ہی تھا آپ کے بارے میں اور آپ حاضر ہو گئیں ۔ 

یہ کیا چکر ہے؟

لیڈی نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

"دراصل آپ کی سوچ لہریں میری سوچ لہروں سے کنیکٹ ہو گئی ہیں ۔

مجھے سگنل ملتے ہی میں حاضر ہو گئی۔۔۔ بس اتنی بات ہے۔"

ایان بہت متعجب ہوا. اور بس مسکرا کر رہ گیا۔

لیڈی نے کہا ۔

"کیا میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتی ہوں "

ایان نے کہا

" میں سمجھا نہیں" 

لیڈی نے کہا

 اجی چائے, کافی, ناشتہ, کھانا, کچھ طلب محسوس کر رہے ہو تو۔۔۔‌‌۔۔۔

ایان مسرت سے کہنے لگا

" او ہو.....  یعنی یہاں سب ہمارے والے شوق بھی مہیا ہیں۔"

لیڈی نے کہا 

"جی بس آپ اجازت دیجئے۔۔"

ایان نے خوشی سے کہا 

" نیکی اور پوچھ پوچھ... یعنی بالکل سو فیصد اجازت ہے۔"

کیا میں اپ کا نام جان سکتا ہوں۔

 لیڈی نے اپنی حسین نیلی آنکھوں میں محبت کی چمک پیدا کرتے ہوئے کہا 

نیلوفر

 ایان مسکراتے ہوئے بولا

 اچھا نام ہے

 نیلوفر۔۔۔۔۔ بالکل آپ کی طرح خوبصورت حسین و جمیل پرکشش۔۔

 نیلوفر نے کہا

" بس کیجیے۔۔۔ اب ایک جملے میں اتنی تعریف..

  چلیے ائیے میرے پیچھے،...... آپ کو کسی شخص سے ملاقات کروانی ہے۔"

 دونوں کے حصاروں کو دودھیا فضا میں اڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

 جو بہت خوبصورت موڈ میں محو گفتگو ہیں۔

 چند منٹوں کے بعد لچیلے انداز سے دونوں کے حصاروں نے ٹرن لیا ۔

چاروں اطراف ان کی ہی طرح بہت سارے حصار فضاؤں میں پروان پرواز کر رہے ہیں۔

 ہر حصار نے کسی نہ کسی کو اپنے اندر مقید کیے ہوئے حفاظت کے ساتھ محفوظ رکھا ہے۔

 فلکیاتی سرمئی مدھم دودھیا فضائیں ہلکے کہرے سا سماں بنا رہی ہیں۔

 ٹیلے نما مقام کے قریب ایان اور نیلوفر کے حصار پہنچتے ہیں ۔

وہیں ایک پتھروں کا خفیہ دروازہ سرکتا ہوا کھلتا ہے۔

 جن میں دونوں حصار داخل ہو جاتے ہیں۔

 اور دروازہ خود بخود بند ہو جاتا ہے۔

 جیسے پہلے جیسا وہاں کوئی ٹیلے کا گمان ہو رہا ہو۔

 اندر ایک تجربہ گاہ موجود ہے۔

 جہاں مختلف مشینیں اور سائنسی آلات موجود ہیں۔

 چند روبوٹس ،مشینوں اور آلات کو ہینڈل کرتے ہوئے تجربات اور مشاہدات میں مشغول ہیں۔

 دونوں حصار ایک مخصوص دائرے میں ٹھہر جاتے ہیں۔

 دروازے کھلتے ہیں

 ایان اور نیلوفر باہر نکلتے ہیں ۔

آس پاس روبوٹس ان کا استقبال کرتے ہیں۔

 ایان کی نگاہیں کسی ایک چہرے پر جا کر رک جاتی ہے۔

 وہ حیرت زدہ ہو کر نیلوفر کی طرف دیکھتا ہے۔

 نیلوفر مسکراتے ہوئے کہتی ہے

 میں نے کہا تھا نا۔۔۔۔۔

 میں کسی شخص سے ملانے والی ہوں وہ یہی ہے۔۔۔

 ایان حیرت سے کہتا ہے

 لیکن یہ بالکل میری طرح۔۔۔۔۔۔!!!!!!!

 کیسے ممکن ہے۔۔

 وہ شخص ہو بہو بالکل ایان ہی کی طرح ہے۔

 ایان اس شخص کے قریب پہنچتا ہے۔

 اور کشمکش میں مبتلا  ہوتے ہوئے اسے چھونے کی کوشش کرتا ہے۔

 لیکن اخلاقا نیلوفر سے اجازت طلب کرتا ہے۔

 نیلوفر  کیا میں اسے چھو سکتا ہوں۔

 کیا یہ انسان ہی ہے یا کوئی اآپ کا تشکیل کردہ روبوٹ۔۔۔۔۔؟؟

 نیلوفر نے  قریب اآتے ہوئے ایان سے کہا 

ایان یہ ہو بہو آپ کا ہم شکل ہے۔

 کوئی روبوٹ نہیں۔۔۔ شاید اسی لیے میں نے فضاؤں میں اڑتے ہوئے پہلی ملاقات میں آپ کو ہی مخاطب کیا تھا ۔

ایان کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہو رہی ہیں۔

 وہ کہتا ہے

" لیکن بالکل ہو بہو!....... یہ کیسے......؟

 نیلو فر اطمینان بخش لہجے میں کہتی ہے

" دراصل ایان یہ اپ کا ہم شکل ہے۔"

 ایان کہتا ہے ہاں ہاں میں نے سنا ہے ہر کسی کے سات ہمزاد ہوتے ہیں نیلوفر ہاتھ کے اشارے سے ہم شکل کی طرف انگلی  اٹھاتے ہوئے کہتی ہے۔

"یہ اپ کے مستقبل کا ہم شکل ہے۔"

 ہم شکل مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے۔

 مصافحہ کرتا ہے۔

 نیلوفر آگے بڑھتے ہوئے ایان کو لیے دوسرے ہال میں 

پہنچتی ہے 

جہاں ایک بڑی سی کینٹین ہے۔

جہاں اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان اپنے اپنے ٹیبلز کے روبرو کئی اشخاص لذت کام و دہن میں مصروف ہیں۔

 ایک طرف بڑے سے کاؤنٹر پر خدمت گزار اپنی خدماتی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔

 مدھم  پیلی اور دودھیا سی ہلکی روشنیوں میں کینٹین کا ماحول نہایت اطمینان بخش محسوس ہو رہا ہے۔

 نیلوفر اور ایان کرسیوں پر براجمان ہوتے ہوئے ہیں۔ 

دوسرے ہی لمحے دو گلاس مشروبات ٹیبل پر حاضر کیے جاتے ہیں۔

 جو شخص مشروبات ٹیبل پر رکھ کر کاؤنٹر کی سمت لوٹتا ہے۔

 ایان اسے دیکھ کر کشمکش اور تذبذب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

 کہ آیا یہ انسان ہے یا روبوٹ ۔

نیلوفر خاموشی کا طلسم توڑتے ہوئے گویا ہوتی ہے۔

 کہاں کھو گئے مسٹر ایان۔۔۔ آپ کی خدمت میں مشروب پیش کیا جا چکا ہے۔

 نوش فرمائیے۔۔۔

 اس سے پہلے کہ یہ اپنی ٹھنڈک کھو کر بے مزہ ہو جائے ۔۔


ایان تفکرات کے دھندلکوں سے لوٹ آتا ہے۔

 اور گلاس اٹھا کر منہ سے لگاتے ہوئے چسکیاں لینے لگتا ہے۔

 نیلوفر بھی مسکراتے ہوئے سرخ رنگ کے مشروب سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔

 مشروب جیسے جیسے دونوں حلق کے نیچے اترتا رہا دونوں آپسی  گفتگو سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

 دونوں شیشے کے گلاس جب خالی ہو چکے اور ٹیبل پر رکھ دیے گئے۔

ایان کے چہرے پر عجیب تاثرات ابھرے۔

 جسے نیلوفر نے مسکراتے ہوئے دیکھ کر محسوس کیا اور کہا

" معاف کرنا ایان...

 یہ مشروب بھی ایک سرپرائز ہے کہ اب تمہیں کیا محسوس ہو رہا ہے ؟

اور اب کچھ ہی دیر بعد تم پرواز کر رہے ہوں گے!

 گھبرائیے مت۔۔۔۔

 میں بھی ہمراہ رہوں گی۔۔۔۔

 ایان اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھ لیتا ہے۔

 اور آنکھیں موندتے ہی

 اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ تاریک خلا میں تیز رفتاری کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔

 اس کا وجود روشنی کی رفتار سے کسی ان دیکھی  طاقتوں کی مقناطیسیت سے نامعلوم منزل کی طرف کھینچا چلا جا رہا ہے۔

 وہ آس پاس دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

 روشنی کے طوفانی دریاؤں کے تیز رفتار دھارے اسے بہا لے جا رہے ہیں۔

 اسے اچانک ایک جھلک  کوئی  نسوانی وجود بہتا ہوا محسوس ہوا۔

 غور کرنے پر معلوم ہوا وہ وجود کسی اور کا نہیں بلکہ نیلوفر کا ہے ۔

تو کیا نیلوفر بھی اپنے وجود کے ہمراہ طوفانی لہروں کی زد میں ہے ۔

وہ سوچتا جا رہا ہے۔

 اس کی سوچ رفتار سے بھی کئی گنا زیادہ تیز رفتاری سے اس کا وجود تنکے کی مانند بہتا جا رہا تھا۔

 کبھی کبھی اندھیرے میں ہلکی سی دودھیا روشنی میں گول بھونڈر سا نظر آ جاتا تھا۔

 گول بھونڈر۔۔۔۔۔۔!!!!

 ایان سوچنے لگا 

یہ کہیں" بلیک ہول" تو نہیں....

 جس کے بارے میں اس نے پڑھ اور سن رکھا تھا۔

 شاید

 بلیک ہول

 کی سمت اس کا اور نیلوفر کا

 وجود نہ چاہتے ہوئے بھی ان دیکھی  قوتوں کے ذریعے فنا یا بقا کی کگار تک رسائی پا چکا تھا۔

  یہ سفر کب تک اختتام پذیر ہوگا ۔

کیا ہمارے وجود سلامت رہ پائیں گے؟

 اور اگر سلامت رہے بھی تو وہ کون سی دنیا ہوگی؟ وہاں کیسی مخلوقات سے واسطہ پڑے گا؟

 ایان سوچتے ہوئے بہتا جا رہا ہے۔

 مسلسل روشنیوں کے بہاؤ سے

 اس کا اور نیلوفرکا وجود 

تنکوں کی مانند محسوس ہو رہا ہے۔


                            علیم طاہر: افسانہ نگار 


(C):

Afsana 

Black Hole 

By 

Aleem Tahir 

_________________________________________

No comments:

Post a Comment