کیپشن:
("رفوگر" — ایک ایسا افسانہ جو زخموں کو سلائی سے نہیں، احساس سے رفو کرتا ہے۔
کیا کبھی کوئی انسان خود رفوگر بن جاتا ہے؟
کیا پیوند صرف کپڑوں پر لگتے ہیں یا دلوں پر بھی؟
پڑھیے ایک منفرد اور دل کو چھو لینے والی کہانی _جو آپ کو تھوڑی دیر کے لیے خاموش اور بہت دیر کے لیے پُراثر بنا دے گی۔)
👇 مکمل افسانہ یہاں پڑھیے اور رائے ضرور دیجیے:
#افسانہ #رفوگر
#اردوادب #افسانہ_نگاری
#احساس #ادب #دل_کی_بات
#کہانی #قلم_کی_طاقت
#Afsana #UrduFiction #Rafugar
#AleemTahir #ادبی_جہان
#FacebookWriters #ViralStory
#StoryThatTouchesHeart #RefugeInWords
#MustRead #ادبی_تحریک #رفو_کہانی
_____________________
افسانہ نمبر۔ 27
رفوگر
افسانہ نگار: علیم طاہر
---
گرد آلود شیشوں کے پیچھے چھوٹا سا بورڈ لٹک رہا تھا:
"رفوگر: پرانے پردوں، لباسوں، اور پرانی یادوں کی مرمت کی جاتی ہے۔"
یہ دکان محض ایک کونے میں سمٹی ہوئی جگہ نہیں تھی، بلکہ وقت کی گزری ہوئی پرتوں میں چھپی ایک کہانی تھی۔ اس چھوٹی سی دکان میں بیٹھا شخص _ جسے محلے والے بس "رفوگر" کہتے تھے _ ایک ایسی زندگی گزار رہا تھا جو اکثر آنکھوں سے اوجھل مگر دلوں میں بسا کرتی ہے۔
اس کی عمر کا اندازہ لگانا آسان نہ تھا۔ نہ وہ جوان تھا، نہ بوڑھا۔ چہرے پر جھریاں تھیں، مگر ان جھریوں میں وقت کے تھپیڑوں سے زیادہ وقار جھلکتا تھا۔ آواز دھیمی، پر لہجہ ایسا جیسے سلوٹوں سے کہانی نکالتا ہو۔
ہر صبح وہ دکان کھولتا، کپڑوں کو غور سے دیکھتا، ان میں موجود چاکوں کو انگلیوں سے محسوس کرتا، اور پھر سوئی میں دھاگا ڈال کر اُس مقام پر ایسے رفو کرتا جیسے کسی کے ماضی کے زخم کو آہستہ سے سہلا رہا ہو۔
رفو اس کا ہنر تھا، مگر درحقیقت وہ معاشرتی شکست و ریخت کی مرمت کا کاریگر تھا۔
کوئی خاتون اپنے شوہر کے چھوڑے کپڑے لے آتی۔
کوئی بیوہ اپنے بیٹے کے پرانے یونیفارم کے دامن۔
کوئی لڑکا اپنی پہلی نوکری کے کوٹ میں چھپی امیدیں۔
اور رفوگر ہر ریشے کو ایسے جوڑتا جیسے زندگی کو ازسرِ نو سِل رہا ہو۔
---
ایک روز ایک نوجوان لڑکی آئی۔ آنکھوں میں نمی، ہاتھوں میں ایک پھٹا ہوا دوپٹہ۔
"یہ میری ماں کا ہے۔ بس... کہیں رکھ دیا تھا۔ اب لگا جیسے اسے رفو کروا دوں۔"
رفوگر نے دھاگا نکالا، سلیقے سے کونے پر سوئی رکھی، اور کہا:
"یادیں کبھی مکمل نہیں ہوتیں، بیٹی۔ ہم بس انھیں اتنا جوڑ دیتے ہیں کہ آنکھیں نم نہ ہوں، اور دل سے بہہ نہ جائیں۔"
لڑکی خاموش رہی، جیسے کسی نے اس کے دکھ کو لفظوں کا پیوند دے دیا ہو۔
---
دن ہفتوں میں بدلے، اور رفوگر کی دکان پرانی ہوتی گئی۔ شہر میں بڑے بڑے شاپنگ مال بن گئے۔ سلائی مشینیں جدید ہو گئیں۔ مگر رفوگر کی انگلیاں ویسی ہی رہیں_پُرسکون، ماہر، دھیمے انداز سے کپڑوں کے زخم سینے والی۔
پھر ایک دن وہ دکان بند ملی۔
شیشے پر بس اتنا لکھا تھا:
"اب رفو کی ضرورت شاید کسی کو نہیں رہی۔ لوگ چیزیں نہیں، رشتے، تعلقات، خواب پھینک دیتے ہیں۔ رفوگروں کا زمانہ بیت گیا۔"
مگر وہ نوجوان لڑکی ایک کاغذ چھوڑ گئی تھی، جو ہوا سے شیشے کے ساتھ چپک گیا تھا:
"آپ نے صرف کپڑے نہیں جوڑے، ہمارے بکھرے وجود کو سیا تھا۔ آپ گئے نہیں، ہر جوڑ میں زندہ ہیں۔"
---
رفوگر کی دکان تو بند ہو چکی تھی، لیکن اس کی خوشبو، اس کی خاموشیاں، اس کی سوئیاں — سب کچھ جیسے ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ پرانی گلی میں اب بھی کبھی کبھی ایک ہلکی سی سُرسراہٹ سنائی دیتی تھی، جیسے دھاگے کی آواز ہو جو اب بھی کسی پیوند کی تلاش میں ہو۔
وہی لڑکی، جو ماں کے دوپٹے کے ساتھ آئی تھی، اب ہفتے میں ایک بار وہاں آتی۔ دکان کے بند شٹر کے آگے خاموش کھڑی رہتی۔ کبھی شیشے کو ہاتھ لگاتی، کبھی زمین پر بیٹھ کر سامنے کی دیوار کو دیکھتی جس پر اب بھی ایک دھندلا سا نشان باقی تھا—شاید اس بورڈ کا، جس پر لکھا تھا:
"رفوگر: پرانی یادوں کی مرمت کی جاتی ہے"
اس روز جب وہ آئی، تو اس کے ہاتھ میں ایک پرانا کوٹ تھا، جس کے اندرونی حصے میں سلوٹیں تھیں، اور وقت کا ایک چاک صاف دکھائی دیتا تھا۔ وہ بیٹھ گئی۔ اس نے کوٹ کو اپنے زانو پر پھیلایا اور جیسے رفوگر کی یادوں سے بات کرنے لگی:
"تم تو کہتے تھے کہ ہر چیز رفو ہو سکتی ہے، لیکن کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جن پر دھاگا پھسلتا رہتا ہے... سوئی چبھتی ہے، پر زخم بند نہیں ہوتا۔"
اس کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹپکا، اور کپڑے پر گر کر جذب ہو گیا — جیسے وقت بھی کچھ دھاگوں کو رفو کرتے کرتے تھک جاتا ہو۔
اسی لمحے، ایک مدھم سی آہٹ سنائی دی۔ جیسے کسی نے اندر سے شٹر کی درز سے دھاگے کا سرا باہر نکال دیا ہو۔ وہ چونکی، مگر درز میں کچھ نہ تھا۔ ہاں، زمین پر ایک چھوٹا سا لفافہ رکھا تھا، جس پر صرف ایک سطر لکھی تھی:
"رفوگر کبھی جاتا نہیں، وہ بس دھاگے کے دوسرے سرے پر چلا جاتا ہے۔"
لڑکی نے وہ لفافہ اٹھایا۔ اندر سے ایک پرانی سی سوئی نکلی — وہی سوئی، جو شاید کبھی اس کے ماں کے دوپٹے میں استعمال ہوئی تھی۔ ساتھ ہی ایک کاغذ تھا، جس پر ایک نقشہ سا بنا تھا۔
ایک نئی گلی، ایک نیا کمرہ، اور ایک نیا نام:
"سلسلہ: دھاگے اور پیوند کا نیا باب۔"
---
چند روز بعد، شہر کے دوسرے کونے میں ایک نئی دکان کھلی:
"سلسلہ"
اور اس کے نیچے چھوٹا سا بورڈ تھا:
"اب صرف کپڑے نہیں، کہانیاں بھی رفو کی جاتی ہیں"
لڑکی اب وہاں بیٹھی تھی۔ اس کی انگلیوں میں وہی سوئی تھی، وہی دھاگا -
لیکن اب وہ صرف کپڑے نہیں سیتی تھی، وہ لوگوں کے دل بھی رفو کرتی تھی۔
پہلا گاہک ایک نوجوان لڑکا تھا، جس کے پاس ایک پھٹی ہوئی جیب تھی اور خالی خواب۔
"کیا یہ جیب رفو ہو سکتی ہے؟" اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
لڑکی نے مسکرا کر کہا:
"ہاں، اگر تمھارے پاس دھاگے کا دوسرا سرا ہے تو…"
---
بارش اُس روز وقفے وقفے سے ہو رہی تھی۔
گلی کے نکڑ پر "سلسلہ" کی دکان نیم وا تھی۔ اندر مدھم پیلا بلب جل رہا تھا، جس کی روشنی میں لڑکی ایک خالی کاغذ پر کچھ سلائی کے نقش بنا رہی تھی—
پیوند کی طرح الجھے ہوئے، مگر کسی رمز کی طرح ترتیب یافتہ۔
دفعتاً دروازے پر ہلکی سی کھنک سنائی دی۔
ایک بوڑھا شخص، سفید داڑھی، میلی چادر، اور کانپتے ہاتھوں سے اندر داخل ہوا۔
اس کی آنکھوں میں تھکن نہیں تھی، کوئی اور شے تھی — شناخت کا بوجھ؟
یا گمشدہ لمحوں کی بازگشت؟
لڑکی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، اور وہ ایک لمحے کو رُک گئی…
سوئی اس کے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر جاگری۔
"تم؟"
اس کے لبوں سے صرف یہی نکلا۔
بوڑھے شخص نے مسکرا کر آہستہ سے کہا:
"رفوگر کبھی جاتا نہیں… وہ بس دھاگے کے دوسرے سرے پر چلا جاتا ہے۔"
لڑکی لرز گئی۔
"پر تم تو… تم تو…"
"ہاں، میں وہی ہوں جس نے تمھاری ماں کے دوپٹے کا زخم سیا تھا۔ جس نے تمھاری آنکھوں میں پہلی بار سلائی کی لکیریں اتاری تھیں۔"
"مگر میں صرف رفوگر نہیں ہوں… میں رشتہ ہوں — جو وقت کے ہاتھوں ادھورا رہ گیا تھا۔"
اس نے جیب سے ایک پیلا سا کاغذ نکالا، جس پر وہی پرانا بورڈ چھپا تھا:
"رفوگر: پرانی یادوں کی مرمت کی جاتی ہے"
"یہ کاغذ؟"
لڑکی نے کانپتے ہاتھوں سے اسے لیا۔
"یہ میری ماں کے صندوق میں تھا… برسوں سے…"
بوڑھا ہلکے قدموں سے دکان کے کونے میں بیٹھ گیا، جہاں وہی پرانی سلائی مشین رکھی تھی— جسے اس نے برسوں پہلے چھوڑ دیا تھا۔
اس نے آنکھیں بند کیں، اور آہستہ سے بولا:
"یہ مشین اب تمھاری ہے۔ رفو کا فن مکمل ہو چکا ہے، اب تمھارے ہاتھوں میں ہے پیوند کا اختیار…"
بارش تیز ہو گئی۔ بجلی کی ایک چمک میں وہ بوڑھا شخص ایک لمحے کو واضح ہوا — اور دوسرے لمحے جیسے بادلوں میں تحلیل ہو گیا۔
کونے میں صرف ایک پرانا چمڑے کا تھیلا بچا تھا، جس میں ایک سرخ رنگ کی سوئی، سونے کے دھاگے کی ایک کٹیا، اور ایک خالی رجسٹر تھا۔
لڑکی نے تھیلا اٹھایا۔
رجسٹر کا پہلا صفحہ کھولا۔
اوپر سنہری روشنائی میں لکھا تھا:
"رفوگر: اب تم ہو۔
جس کا پیوند مکمل ہو، وہی اگلا رفوگر بنتا ہے۔"
---
رفوگر چلا گیا، لیکن اس کے پیچھے وہ علم چھوڑ گیا، جو صرف ہاتھ سے نہیں، دل سے سکھایا جاتا ہے۔
"اب دکان پر بورڈ کچھ یوں تھا-
"سلسلہ _ رفوگر کا آخری پیوند"
"ہم زخم نہیں پوچھتے، بس سلائی کا راستہ جانتے ہیں۔"
بارش رک گئی تھی۔
اور گلی میں کسی نے آہستہ سے کہا:
"رفوگر زندہ ہے… ہر اس دل میں جو پیوند مانگتا ہے۔"
افسانہ نگار : علیم طاہر
______________
(C):
Afsana
Rafugar
Afsana Nigar
Aleem Tahir
Email id: aleemtahir12@gmail.com
_________________
No comments:
Post a Comment