ڈرامہ نمبر 01
آخری سیٹی
(ایک علامتی و تمثیلی ڈراما: تین حصّوں پر مشتمل)
ڈرامہ نگار: علیم طاہر
تعارف:
جب زندگی کی ریل گاڑی پٹری سے اترنے لگے، تو کہیں نہ کہیں کوئی ایک سیٹی ایسی ضرور بجتی ہے جو ہمارے اندر کی خاموشی کو چونکا دیتی ہے۔
"آخری سیٹی" صرف ایک ڈراما نہیں، بلکہ ضمیر، بصیرت اور بدلتے سماجی اقدار کا مکالمہ ہے۔
یہ کہانی ہے وقت کے ایک ایسے پلیٹ فارم کی، جہاں ہم سب کبھی نہ کبھی اترتے ہیں، رکتے ہیں، سوچتے ہیں…
اور پھر… شاید… دوبارہ نہیں چلتے۔
اقتباس:
"خاموشی کی آواز بہت گہری ہوتی ہے… بعض اوقات وہ ایک سیٹی بن کر سنائی دیتی ہے، جو وقت کا آخری اشارہ ہوتی ہے…"
-------
کیپشن:
زندگی کی ریل پر کبھی سوار ہو کر دیکھو، ہر اسٹیشن پر تمہارا کوئی نہ کوئی سایہ انتظار کرتا ہے…
پیش ہے ایک علامتی، فکری، اور جذباتی رنگوں سے سجا نیا ڈراما — آخری سیٹی
تحریر: علیم طاہر
ہیش ٹیگز:
#آخری_سیٹی #علیم_طاہر #اردوڈراما #علامتی_ادب #اردوادب #سوشیلسچ #تمثیلیڈرامہ #فکریادب #ڈراما_سیریز #ادبی_پوسٹ
------------
ڈرامے کا عنوان: آخری سیٹی
ڈراما نگار: علیم طاہر
کردار:
بابا جان (ریٹائرڈ ریلوے گارڈ، 75 سالہ)
سلمان (بابا جان کا پوتا، 20 سالہ طالب علم)
آمنہ (سلمان کی ماں، بابا جان کی بہو)
انور (محلے کا پرانا دوست، 80 سالہ)
ہانیہ (پڑوس کی بچی، 10 سالہ)
---
پَردہ اُٹھتا ہے۔
منظر: ایک پرانا سا گھر۔ صحن میں دھوپ اور بابا جان لکڑی کی کرسی پر ریلوے کی پرانی ٹوپی پہنے بیٹھے ہیں۔ ہاتھ میں سیٹی تھامی ہے۔ دیوار پر لٹکی ہوئی پرانی گھڑی مسلسل ٹک ٹک کر رہی ہے۔
بابا جان (خودکلامی میں)
"سیٹی بجی نہیں... اور گاڑی نکل گئی... زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے... مسافر رہ گئے، پلیٹ فارم خالی ہو گیا۔"
سلمان (داخل ہوتے ہوئے)
دادا جان! آپ پھر سے اُسی سیٹی کو لے کر بیٹھ گئے؟ اب وہ وقت گزر گیا۔ اب نہ وہ اسٹیشن، نہ وہ گارڈ، نہ وہ گاڑیاں۔
بابا جان (ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ)
"وقت تو پلیٹ فارم نمبر ایک سے چھوٹ گیا بیٹا... لیکن یادیں ابھی تک ویٹنگ روم میں بیٹھی ہیں۔"
آمنہ (کچن سے آواز دیتی ہے)
بابا جان! چائے تیار ہے، آج ہانیہ آئی ہے آپ سے ریلوے کے قصے سننے۔
ہانیہ (دوڑتی ہوئی آتی ہے)
بابا نانا! آپ نے ٹرین کبھی لیٹ کی تھی؟
بابا جان (ہنستے ہوئے)
"ارے نہیں بیٹی! میں وقت کا بڑا پابند گارڈ تھا۔ میرے ہاتھ کی سیٹی وقت پر بجتی تھی۔"
سلمان (طنزیہ انداز میں)
"بس سیٹی ہی بجتی تھی، زندگی تو لیٹ ہو گئی... دادا جان، آپ نے زندگی میں کچھ اور بھی سوچا تھا کبھی؟"
بابا جان (خاموشی سے سیٹی کو دیکھتے ہوئے)
"زندگی بھی ایک پلیٹ فارم ہے سلمان... ہر کوئی کسی نہ کسی گاڑی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے... کوئی ملازمت والی گاڑی، کوئی محبت والی، کوئی منزل والی... اور کبھی کبھی صرف آخری گاڑی۔"
انور (آہستہ آتے ہوئے)
"سیٹی بجی بابا جان؟ یا اب بھی ویٹنگ لسٹ میں ہو؟"
بابا جان (مسکرا کر)
"تمہاری دوستی والی گاڑی تو روز ہی آ جاتی ہے، انور بھائی۔"
انور
"پر منزل کا اسٹیشن ابھی آیا نہیں..."
سب خاموش ہو جاتے ہیں۔
آمنہ (چائے دیتے ہوئے)
بابا جان! آج اتنے خاموش کیوں ہیں؟
بابا جان (آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے)
"آج ریلوے نے ایک خط بھیجا ہے۔ ریٹائرمنٹ کا آخری پنشن... اور ساتھ لکھا ہے: آپ کی خدمات کا شکریہ۔"
سلمان (نرمی سے)
اور ہم آپ کو شکریہ کہنا بھول گئے دادا جان۔
ہانیہ
بابا نانا، آپ کی سیٹی مجھے دے دیں؟
بابا جان (نرمی سے سیٹی دیتے ہوئے)
"پکڑ لو بیٹی! جب کبھی وقت کی گاڑی چھوٹنے لگے، یہ سیٹی بجا دینا... شاید کوئی پلٹ آئے۔"
گھڑی کی سوئیاں بارہ پر آتی ہیں، ایک ہلکی سیٹی کی آواز، اور روشنی دھیرے دھیرے مدھم ہو جاتی ہے۔
---
پَردہ گرتا ہے۔
------
آخری سیٹی — حصہ دوم
ڈراما نگار: علیم طاہر
منظر:
دو مہینے بعد۔ بابا جان کا کمرہ ویران سا ہے۔ در و دیوار پر خاموشی کی تہیں چڑھی ہوئی ہیں۔ دیوار پر وہی گھڑی اب بند ہے۔ صحن میں ہانیہ خاموشی سے بیٹھ کر بابا جان کی دی ہوئی سیٹی کو دیکھ رہی ہے۔
---
سلمان (دھیرے سے داخل ہوتا ہے)
ہانیہ... تم یہاں اکیلی بیٹھی ہو؟
ہانیہ (نم آنکھوں سے)
سلمان بھائی... بابا نانا نے کہا تھا وقت کی گاڑی چھوٹنے لگے تو سیٹی بجا دینا۔ پر جب اُن کی زندگی کی گاڑی چھوٹی... میں کچھ نہ کر سکی۔
سلمان (اداس مسکراہٹ کے ساتھ)
بابا جان وقت کے پابند تھے، لیکن وقت نے اُنہیں مہلت نہ دی۔ پچھلے ہفتے جو خط آیا تھا... وہ ریلوے میوزیم والوں کی طرف سے تھا، اُنہوں نے بابا جان کی وردی، گھڑی، اور سیٹی مانگی ہے نمائش کے لیے۔
آمنہ (اندر سے آتی ہوئی)
پر میں نے سیٹی دینے سے انکار کر دیا۔
سلمان (حیرت سے)
کیوں ماں؟
آمنہ
کیونکہ وہ صرف دھات کی ایک سیٹی نہیں تھی... وہ بابا جان کی زندگی کا آخری جملہ تھی۔
---
منظر تبدیل ہوتا ہے۔
رات کا وقت۔ صحن میں بابا جان کی کرسی اب خالی ہے۔ ہانیہ، سیٹی لے کر کرسی پر بیٹھتی ہے۔
ہانیہ (خود سے)
بابا نانا... میں آپ کے قصے یاد رکھوں گی۔ آپ کا وقت، آپ کی گاڑیاں، آپ کی سیٹیاں، سب سنبھال کے رکھوں گی۔
اچانک صحن کے ایک کونے سے پرانا دوست انور آتا ہے۔ ہاتھ میں بابا جان کی ایک ڈائری ہے۔
انور
یہ لو بچی، یہ تمہارے بابا نانا کی ڈائری ہے۔ ہر صفحے پر ایک قسط، ایک قصہ، ایک سبق... یہ اُس شخص کی آخری ٹرین کی ٹکٹ ہے، جس نے زندگی بھر دوسروں کو وقت پر پہنچایا، مگر خود ہمیشہ آخری ویگن میں رہا۔
---
سلمان (ڈائری لیتے ہوئے)
ہم سب نے انہیں صرف ایک ریلوے گارڈ سمجھا... پر وہ زندگی کے فلسفی تھے، وقت کے محافظ۔
آمنہ (نرمی سے)
اور اب ہم سب اُن کے مسافر ہیں... جو اُن کی یاد کی پٹری پر سفر کر رہے ہیں۔
---
آخر میں
ہانیہ سیٹی بجاتی ہے۔ روشنی مدھم ہوتی ہے۔ پس منظر میں بابا جان کی آواز گونجتی ہے جیسے کسی خواب سے:
بابا جان (آواز میں)
"یاد رکھنا بچو... وقت کبھی لیٹ نہیں ہوتا، صرف ہم چھوٹ جاتے ہیں۔"
---
پَردہ گرتا ہے۔
________
آخری سیٹی — حصہ سوم (آخری باب)
ڈراما نگار: علیم طاہر
---
منظر:
بابا جان کا پرانا کمرہ۔ آمنہ، سلمان اور ہانیہ ایک چراغ کی روشنی میں بیٹھے ہیں۔ انور ایک پرانی جلد بند ڈائری کھول کر پڑھنے لگتا ہے۔
---
انور (پہلا ورق کھولتے ہوئے)
"17 مارچ، 1984 — آج ایک مسافر میرے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ اس کا بیٹا شہر کی کسی گاڑی میں چھوٹ گیا تھا۔ میں نے اپنا وقت روک دیا... اور اس کے لیے گاڑی رکوائی۔ زندگی میں پہلی بار اصول توڑا، لیکن دل کی آواز پر عمل کیا۔ اُس دن جانا... وقت کبھی صرف گھڑی کا پابند نہیں ہوتا، دل کا بھی ہوتا ہے۔"
آمنہ (نم آنکھوں سے)
یہ تو اُن دنوں کی بات ہے جب وہ صرف ایک کلرک تھے...
ہانیہ (دھیرے سے)
تو بابا نانا ہر دن اپنے دل کی ڈائری میں لکھتے رہے...
---
سلمان (دوسرا صفحہ پڑھتے ہوئے)
"5 اپریل، 1992 — میری بیٹی نے آج پہلی بار 'گاڑی' کا مطلب پوچھا۔ میں نے کہا، گاڑی وہی ہے جو تمہیں وقت پر تمہارے خوابوں تک پہنچا دے۔ اور میں... میں صرف ایک گارڈ نہیں ہوں، میں خوابوں کا نگراں ہوں۔"
آمنہ (مسکرا کر)
یہ صفحہ میرے لیے ہے۔
---
ہانیہ (ایک اور صفحہ کھول کر پڑھتی ہے)
"12 اگست، 2008 — میری پوتی ہانیہ نے پہلی بار سیٹی بجائی۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ میں نے اُس لمحے سوچا، یہ بچی میرے بعد بھی میری آواز بنے گی۔"
ہانیہ (روتے ہوئے)
بابا نانا... میں واقعی آپ کی سیٹی بنوں گی۔
---
انور (آخری ورق کھولتے ہوئے)
"میری ریٹائرمنٹ کا دن — میں نے زندگی کی آخری گاڑی کو الوداع کہا۔ پر میری اصل ٹرین تو ابھی چلی نہیں... میری یادیں، میری باتیں، میری گھڑی، میری سیٹی... سب میرے بعد بھی سفر کریں گی۔ اگر کوئی ان کو سن لے، سمجھ لے، تو میں مر کر بھی زندہ رہوں گا۔"
---
منظر بدلتا ہے —
ایک چھوٹا مقامی ریلوے میوزیم۔ دیوار پر بابا جان کی تصویر آویزاں ہے۔ نیچے اُن کی وردی، گھڑی اور سیٹی شیشے کے شوکیس میں رکھی ہے۔
ہانیہ (وزیٹرز کے سامنے خطاب کرتی ہے)
"میرے نانا جی وقت کے غلام نہیں، وقت کے استاد تھے۔ اُن کی زندگی نے ہمیں یہ سکھایا کہ وقت کو صرف ناپا نہیں جاتا... محسوس بھی کیا جاتا ہے۔ آج ان کی سیٹی، ان کی گھڑی، ان کا وقت... ہم سب کی امانت ہے۔"
---
آخری منظر:
شام ڈھل رہی ہے۔ ریلوے پٹری کے ساتھ ہانیہ کھڑی ہے۔ ایک چھوٹی بچی ہاتھ میں سیٹی لیے اُس کی طرف دیکھ رہی ہے۔
بچی:
"آپ نے یہ سیٹی بجائی تھی نا؟"
ہانیہ (نرمی سے ہنستے ہوئے)
"نہیں بیٹا... یہ سیٹی دراصل کسی اور کی ہے، جو اب بھی ہمیں وقت پر جگاتا ہے۔"
وہ سیٹی بچی کو تھما دیتی ہے۔
بچی سیٹی بجاتی ہے۔ دور کہیں سے ریل گاڑی کی آواز آتی ہے۔
---
بابا جان کی آواز (آخری بار پس منظر میں):
"سیٹی بجاؤ... وقت آ گیا ہے۔"
---
پَردہ گرتا ہے۔
-------
(C):
Writer
Aleem Tahir
Email id aleemtahir12@gmail.com
Mobile no.9623327923.
------
No comments:
Post a Comment