افسانہ نمبر: 23
عنوان: "آخری کتاب کا قاری"
(افسانہ نگار: علیم طاہر)
اسے صرف "قاری" کہا جاتا تھا۔
نام کوئی نہیں جانتا۔
شہر کے آخری کتب خانے میں،
جہاں وقت سانس لینا بھول چکا تھا،
وہ ہر روز آتا،
ایک ہی کتاب پڑھتا،
جس کے تمام صفحات خالی تھے۔
لوگ ہنستے،
کچھ ڈرتے بھی۔
کیونکہ وہ جب بھی کسی صفحے کو پلٹتا،
فضا بدل جاتی۔
کبھی سناٹا شور میں بدل جاتا،
کبھی ہوا سے زخم رستنے لگتے۔
٭
ایک روز ایک نوجوان لڑکی، عرشہ،
جو خود بھی الفاظ میں پناہ ڈھونڈتی تھی،
اس کتب خانے آئی۔
قاری نے اسے ایک خالی صفحہ دکھایا،
اور کہا:
"پڑھ لو۔"
عرشہ نے ہنستے ہوئے کہا:
"یہ صفحہ تو خالی ہے!"
قاری بولا:
"یہ وہ کتاب ہے جو صرف سچ دیکھنے والے پڑھ سکتے ہیں۔
جن کی آنکھیں صرف منظر نہیں،
اندر کے منظر بھی دیکھتی ہیں۔
یہ ‘کتابِ وقت’ ہے —
اور اس کے سچ کا قاری صرف ایک ہوتا ہے،
پھر وہ یا تو مٹ جاتا ہے…
یا خود افسانہ بن جاتا ہے۔"
٭
عرشہ روز آنے لگی۔
صفحات اب دھندلے لفظوں سے بھرنے لگے تھے —
جیسے کسی بھولی ہوئی تہذیب کی آواز لوٹ رہی ہو۔
ایک دن قاری نے اسے آخری صفحہ دکھایا —
جہاں صرف ایک سطر لکھی تھی:
"جو اسے پڑھے گا، وہ باقی نہ رہے گا۔"
عرشہ نے سطر پڑھ لی۔
قاری مسکرایا…
اور راکھ میں بدل گیا۔
٭
کتب خانہ آج بھی ہے۔
ایک نئی قاری روز وہاں آتی ہے۔
ہر روز وہی کتاب کھولتی ہے۔
تمام صفحات خالی ہیں —
سوائے آخری صفحے کے،
جہاں ایک نئی سطر درج ہے:
"قاری بدلتا ہے… کتاب نہیں!"
---
کہا جاتا ہے،
لفظ وہی سچ ہوتے ہیں
جو بولے نہیں جاتے،
صرف محسوس کیے جاتے ہیں…
خالی صفحوں میں۔
No comments:
Post a Comment