افسانہ نمبر 17
"سفید تخت پر سیاہ سایہ"
(افسانہ نگار: علیم طاہر)
اس نے خواب میں بارہا ایک عجیب دربار دیکھا۔ دربار میں ہر چیز سفید تھی __ فرش، دیواریں، پردے، خنجر، اور یہاں تک کہ سائے بھی۔ سائے سفید ہونے کا مطلب یہ تھا کہ روشنی کہیں موجود نہیں تھی _ بلکہ ہر چیز نقلی اجالے سے چمک رہی تھی۔ وہ اجالا جسے حقیقت کے آئینے میں دیکھو تو وہ کالا دھواں بن جائے۔دربار کے وسط میں ایک عورت تخت پر بیٹھی تھی۔ اس کا لباس بے حد نفیس تھا، آنکھیں گہری، اور اس کی ناک ایسی کھڑی تھی جیسے فیصلے خود اس کی سانسوں کے تابع ہوں۔ اس کے چہرے پر ایسی اجنبیت تھی کہ اپنا نام بھی پرایا لگتا۔ اس کے اردگرد جو غلام تھے، وہ ہر وقت اس کے چہرے پر پھیلی اداسی کو تولتے رہتے۔ جیسے اداسی نہ ہو، کوئی پرانا قانون ہو جو ہر روز دوبارہ نافذ کیا جاتا ہو۔"یہ کون ہے؟" خواب میں اس نے پوچھا۔جواب ملا، "یہ تاریخ کی وارث ہے۔ لیکن اپنے ہی ماضی سے خوفزدہ ہے۔"تخت کے پیچھے ایک جھیل تھی۔ وہ جھیل سرخ تھی — لیکن اس کا پانی جم گیا تھا، جیسے وقت نے بہنا بند کر دیا ہو۔ اس جھیل میں کنول کھلتے تھے — آبنوسی رنگ کے۔ اور ان کنولوں سے پرندے جنم لیتے تھے، جن کے پر شفاف تھے، لیکن اندر سے سیاہ دھواں اٹھتا تھا۔ایک دن وہ عورت دربار سے غائب ہو گئی۔ لوگوں نے کہا، "اسے اس کے اپنے محافظ نے قتل کر دیا۔"محافظ کا بیان تھا: "میں نے اسے پہچان لیا تھا۔ وہ سفید نہ تھی، بلکہ سیاہ جلد کو چمکانے والی ایک لیپ تھی _ جو سچائی کے زخموں کو چھپا رہی تھی۔"عورت کی لاش اسی سرخ جھیل میں کئی دن تیرتی رہی۔ پرندے خاموش ہو گئے، کنول بند ہو گئے، دربار کے غلام دیواروں میں جذب ہو گئے۔ بس ایک بچہ، جو چہرے سے معصوم تھا، تخت کی طرف بڑھا۔ اس کی ناک کھڑی تھی اور رنگ دودھیا۔ لیکن وہ چلا نہیں رہا تھا _ صرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے دیکھنے میں ایک سوال تھا:"کیا میں بھی ایک دن سفید ہو جاؤں گا؟"تب جھیل میں سے آواز آئی:"یہ عہد سفید نہیں، بے چہرہ ہے۔ یہاں سچائی نقاب اوڑھتی ہے، اور خواب زخم بن جاتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment