افسانہ لکھتے ہوئے مجھ میں محدود زندگی میں زندگی کا حق ادا کرنے کا احساس مزید شدت اختیار کرنے لگا تھا۔ )
افسانہ نمبر:26
عنوان: "ایک چھت کے نیچے"
✍️ افسانہ نگار: علیم طاہر
---
بارش زوروں پر تھی۔ بادلوں کی گرج میں کچھ ایسا تھا گویا آسمان بھی زمین پر گرتے انسانی رشتوں کو سنوارنے کی فریاد کر رہا ہو۔ شہر کے اس پرانے محلے کی گلی میں پانی گھٹنوں تک آ چکا تھا۔ پرانی، جھکی چھتوں والے مکان قطار در قطار کھڑے تھے، جیسے وقت کے تھکے سپاہی، جو اب بھی اپنے اندر زندگی کا چراغ جلائے ہوئے تھے۔
یہ گلی خاص تھی۔ یہاں ایک چھت کے نیچے چار خاندان رہتے تھے —
پنڈت ہری نارائن، امام بشیر الدین، سردار بلونت سنگھ، اور پاسٹر میتھیو۔
چار مذاہب، چار تہذیبیں، مگر ایک دیوار پر ٹنگا کیلنڈر سب کے لیے ایک تھا۔
---
منظر اول:
صبح کے وقت پنڈت ہری نارائن اپنے آنگن میں تلسی پر جل چڑھاتے، اتنے میں امام بشیر کی اذان کی آواز فضاء میں گھلتی۔ سردار بلونت سنگھ اخبار کی گڈی تھامے سب کے دروازے پر باری باری رکھتا، اور پاسٹر میتھیو بچوں کو اسکول چھوڑنے سے پہلے سب کے لیے "خدا کا فضل ہو" کی دعائیہ آواز لگاتا۔
زندگی عام تھی، اور ایک دوسرے کی موجودگی، محض عادت نہیں بلکہ ضرورت بن چکی تھی۔
---
منظر دوم:
اس دن آسمان پر صرف بادل ہی نہیں چھائے تھے، کچھ خبروں کے کالے سائے بھی اتر آئے تھے۔ شہر میں مذہبی اشتعال کی لہر چل نکلی۔ جلوس، نعرے، شکوے، اور افواہوں نے فضا میں زہر گھول دیا۔
محلے کے باہر ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ کسی نے چیخ کر کہا:
"اس گلی میں وہ سب رہتے ہیں، ایک ساتھ؟ انہی کی وجہ سے شہر خراب ہوا ہے!"
خطرے کی بو سب نے محسوس کی۔
---
منظر سوم:
سردار بلونت سنگھ نے سب کو اپنے کمرے میں بلایا۔
"ہمیں اب ثابت کرنا ہے کہ ہمارا ایمان مذہب سے نہیں، انسانیت سے جُڑا ہے۔"
پنڈت ہری نارائن بولے، "اگر ہمارا ساتھ ٹوٹا، تو یہ محلہ نہیں، انسانیت بکھر جائے گی۔"
امام بشیر بول اٹھے، "ہم نے مل کر بچوں کی شادیاں کیں، عید، دیوالی، بیساکھی، اور کرسمس منائے... اب یہ دیوار اگر گرتی ہے تو ہم سب نیچے آئیں گے، یا سب مل کر اسے تھامیں گے؟"
پاسٹر میتھیو نے ہاتھ جوڑ کر کہا،
"ہمیں اب روشنی بننا ہوگا، ورنہ اندھیرے جیت جائیں گے۔"
---
منظر چہارم:
محلے کے باہر ایک مشعل بردار ہجوم آ چکا تھا۔ شور بڑھتا جا رہا تھا۔ مگر اسی وقت اس پرانی چھت کے نیچے سے چاروں بزرگ باہر آئے — ہاتھوں میں مذہبی کتابیں، دل میں محبت۔
انہوں نے ایک ہی جملہ بولا:
"یہ گلی صرف انسانوں کی ہے، نفرت کی نہیں۔ ہم الگ مذہب کے سہی، مگر ایک درد، ایک امید، ایک وطن کے وارث ہیں۔"
ہجوم کا شور کچھ دیر کو رک گیا۔ پھر اچانک کچھ بزرگ، نوجوان، خواتین — سب گھروں سے نکل آئے۔ کسی کے ہاتھ میں گیتا، کسی کے پاس قرآن، کوئی گرنتھ صاحب سنبھالے، تو کوئی بائبل تھامے۔
ایک انسانیت کی قطار بن گئی۔ دیوارِ نفرت اس روشنی سے پگھل گئی۔
--
بارش تھم چکی تھی۔ آنگن میں پانی اب بھی تھا، مگر اب وہ دھوپ کی پہلی کرن سے چمک رہا تھا۔
ایک چھت کے نیچے، چاروں خاندانوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی —
جہاں محبت کا مذہب سب سے بڑا تھا، اور دلوں کا خدا سب سے عظیم۔
---
بارش تو تھم گئی تھی، مگر جو نمی در و دیوار میں بس گئی تھی، وہ راتوں تک سسکیوں کی طرح رستی رہی۔ اس روز کے بعد محلے کی فضا اور بھی پرسکون ہو گئی تھی، جیسے انسانیت نے وقت کو روک کر ایک نیا سانس دیا ہو۔ مگر سکون کا ایک عجب پہلو بھی ہوتا ہے— وہ اکثر کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
صبح کے وقت امام بشیر دروازے پر کھڑے اذان دے رہے تھے، ان کی آواز میں وہی مٹھاس تھی جو کبھی اُن کے مرحوم والد کی آواز میں ہوتی تھی۔ پنڈت ہری نارائن دھیان لگائے بیٹھے تھے، پاسٹر میتھیو اپنی پناہ گاہ میں بچوں کو بائبل کی کہانیاں سناتے ہوئے مسکرا رہے تھے اور سردار بلونت سنگھ سب کے لیے ناشتہ بنا رہے تھے — پراٹھے، ابلے انڈے، اور چائے۔ سب کچھ معمول پر تھا، مگر دلوں میں ایک نئی احتیاط نے جنم لیا تھا۔
اسی دن ایک اجنبی خاندان اس محلے میں کرائے پر آیا۔ میاں بیوی، اور ان کا سات سالہ بیٹا۔ چہرے سے وہ بہت تھکے اور بیزار لگتے تھے۔ ان کے آنے کی خبر سب تک پہنچی، اور سب نے ان کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔
پہلی دستک امام بشیر نے دی۔ دروازہ کھلا تو سامنے کمزور سی عورت اور ایک گھبرایا ہوا بچہ کھڑا تھا۔ پیچھے سے مرد بھی آ گیا، جس نے شکریہ کے بجائے محض سر ہلا دیا۔ کچھ ایسا تھا ان کی آنکھوں میں کہ بشیر صاحب نے صرف دعا دی اور پلٹ آئے۔
شام کو سردار بلونت سنگھ چائے کا تھرمس لے کر پہنچے۔ دروازہ کھلا، اور اس بار مرد نے کچھ نرمی سے بات کی۔ "ہم ابھی بس تھوڑا وقت چاہتے ہیں، سب کچھ بھول جانا ہے…" بلونت سنگھ نے تھرمس تھما کر صرف اتنا کہا، "یہ گلی بھولنے کی نہیں، اپنوں کو پانے کی جگہ ہے۔"
کئی دن گزر گئے۔ وہ خاندان زیادہ باہر نہ نکلتا، نہ کسی سے میل جول کرتا۔ پھر ایک دن ان کا بیٹا اچانک محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ اس کا نام روہن تھا، مگر جب اس نے "اللہ حافظ" کہہ کر امام بشیر کے پوتے سے رخصت لی، تو بہت سے دروازوں پر سوالات کھل گئے۔
اگلے دن وہی بچہ پنڈت ہری نارائن کے ساتھ آرتی میں شامل ہو گیا، اور شام کو پاسٹر میتھیو کی دعا میں "آمین" بھی کہی۔ سردار بلونت سنگھ کے ساتھ اس نے گردوارے کی سیوا میں بھی حصہ لیا۔ یہ منظر اس محلے کے لیے نیا نہ تھا، لیکن اس بچے کے والد کے لیے ضرور تھا، جو اکثر اپنی کھڑکی سے اسے یہ سب کرتے دیکھتا اور کچھ دیر بعد چہرہ پھیر لیتا۔
آخر ایک دن، جب پورے محلے نے مل کر یتیم بچوں کے لیے فنڈ اکٹھا کیا، اس اجنبی شخص نے خود آ کر چندہ دیا۔ سب نے خوش دلی سے استقبال کیا، مگر پاسٹر میتھیو نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اور کہا، "محبت کے دروازے بند نہیں ہوتے، بس کبھی کبھی دل دیر سے کھلتے ہیں۔"
وہ شخص پہلی بار کھل کر مسکرایا۔
اس کے بعد وہ محلے کے سبھی تہواروں میں شریک ہونے لگا۔ عید کے دن امام بشیر کے ساتھ شیر خرما کھایا، دیوالی کی شام پنڈت ہری نارائن کے ساتھ چراغاں کیا، بيساکھی پر سردار بلونت سنگھ کے ساتھ بھنگڑا ڈالا، اور کرسمس کی رات پاسٹر میتھیو کے ساتھ گرجا گھر گیا۔
محلے میں ایک نئی کہانی رقم ہو چکی تھی۔
کہیں مذہب کی پہچان تھی، کہیں انسان کی۔
مگر سب کچھ ایک چھت کے نیچے ہو رہا تھا…
جہاں دیواریں صرف اینٹ کی ہوتی تھیں، دل کی نہیں۔
مذہب الگ ہو سکتے ہیں، انسانیت نہیں۔ اتحاد وہ چراغ ہے، جو ہر اندھیرے میں روشنی کرتا ہے — بس اُسے بجھنے نہ دو۔
_____
وقت تھم نہیں جاتا، چاہے دل چاہے یا نہیں۔
سالوں کا سفر پلک جھپکتے بیت گیا۔ محلے کے بچے جوان ہو چکے تھے۔ امام بشیر کا پوتا زید اب ایک مقامی اسپتال میں ڈاکٹر بن چکا تھا، پنڈت ہری نارائن کی پوتی سمیرا ایک اسکول میں تاریخ پڑھاتی تھی، سردار بلونت سنگھ کا پوتا ارجن اب ایک پولیس آفیسر تھا اور پاسٹر میتھیو کا نواسا ڈینیل بیرونِ ملک سے تعلیم مکمل کر کے واپس آ گیا تھا۔ اور وہ بچہ… روہن… جو کبھی خاموش سا آیا تھا، آج شہر کے سب سے کامیاب سوشل میڈیا چینل کا رپورٹر تھا، جو 'امن کی آواز' کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔
ان سب کی دوستی وقت کے ہر طوفان سے گزری، مگر بکھری نہیں۔
محلہ بھی بدل گیا تھا۔ اب وہاں رنگین دیواروں والے مکان تھے، لیکن دل اب بھی پرانی چھتوں جیسے تھے — کھلے، وسیع، سب کو سایہ دینے والے۔
ایک دن شہر میں مذہبی فساد کی آگ بھڑکی۔ باہر نفرت کے نعرے تھے، اندر خوف کا بسیرا۔ لیکن محلہ "سرسوتی لین" اب بھی اپنی کہانی کا وہی باب دہرا رہا تھا… محبت کا، میل ملاپ کا، انسانیت کا۔
زید زخمیوں کا علاج کر رہا تھا، سمیرا بچوں کو پناہ دے رہی تھی، ارجن فساد روکنے میں مصروف تھا، ڈینیل امن کی دعائیں بانٹ رہا تھا اور روہن ہر منظر کو کیمرے میں قید کر کے دنیا کو دکھا رہا تھا کہ "یہ ہے ہندوستان، جہاں دل مذہب سے نہیں، محبت سے دھڑکتے ہیں۔"
اس دن ان سب نے مل کر میڈیا پر ایک پیغام دیا:
"ہم ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی نہیں… ہم انسان ہیں۔ اور یہ محلہ صرف پتھروں سے نہیں، جذبوں سے بنا ہے۔"
یہ پیغام جنگل کی آگ کی طرح پھیلا۔ پورے شہر میں ان کا محلہ "امن نگر" کے نام سے مشہور ہو گیا۔ وہ علاقہ جسے کبھی فرقہ واریت کے خطرات ڈسنے کو آتے تھے، آج محبت کی مشعل جلانے لگا۔
روہن نے ایک دستاویزی فلم بنائی – "ایک چھت کے نیچے"۔
اس فلم کو ایوارڈز تو ملے ہی، مگر اس سے بڑھ کر…
اس نے بے شمار لوگوں کے دلوں کو بدل دیا۔
کلائمکس میں نہ کوئی المیہ تھا، نہ کوئی قربانی۔
صرف ایک سچ تھا —
“انسانیت جب بولتی ہے، تو مذہب خاموشی سے سر جھکا دیتا ہے۔”
افسانہ ختم نہیں ہوا…
بس ایک چراغ جل گیا…
اور چراغ کہانیاں نہیں لکھتے، وہ راہیں روشن کرتے ہیں۔
افسانہ نگار ✍️: علیم طاہر
_______
(افسانہ پسند آئے تو شیئر کیجئے ۔)
(C):
Afsana
Ek chat ke neeche
By
Aleem Tahir
Email id aleemtahir12@gmail.com.
-----
No comments:
Post a Comment