Friday, 13 June 2025

افسانہ نمبر25 _وقت کی عدالت میں ایک خواب کا مقدمہ

افسانہ نمبر :  22


عنوان: "وقت کی عدالت میں ایک خواب کا مقدمہ"


(افسانہ نگار: علیم طاہر)


دنیا کی سب سے پُرانی عدالت میں ایک خواب کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔


الزام تھا:

"یہ خواب نیند سے باہر نکل آیا تھا!"


وقت، جو اس عدالت کا منصف تھا،

سیاہ لبادہ اوڑھے، کرسی پر نہیں…

بلکہ لمحوں کی کرچیاں بچھا کر بیٹھا تھا۔


خواب کو ہتھکڑی پہنائی گئی تھی —

ایک آنکھ نیلی، ایک آنکھ سیاہ،

جسم شفاف، اور آواز خاموش۔


مدعی ایک فلسفی تھا،

جو سچ کے تعاقب میں پاگل ہو چکا تھا۔


فلسفی نے عدالت میں کہا:


"یہ خواب میرے شعور میں بغاوت برپا کرتا ہے۔

یہ نیند میں آ کر مجھے جاگنے پر مجبور کرتا ہے۔

میں نے جب تاریخ کو دلیل بنایا،

تو اس نے ایک بچے کی ہنسی دکھا دی۔

جب میں نے مذہب کا سہارا لیا،

تو اس نے ایک پرندے کے پروں میں وحی چھپا دی۔

جب میں نے سیاست کے رنگ دکھائے،

تو یہ خواب بےرنگ ہو گیا —

اور کہا، رنگ سب اندھے ہوتے ہیں!"


وقت خاموش رہا۔

عدالت میں موجود لمحے، منٹ اور ساعتیں ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگیں۔


تب ایک بوڑھی عورت اُٹھی۔

اس نے کہا:


"یہ خواب مجھے میری جوانی میں دکھائی دیا تھا —

جب میں نے محبت کی اور پھر وہ مر گئی۔

لیکن خواب نے کہا:

محبت کبھی نہیں مرتی، وہ صرف لباس بدلتی ہے۔

یہ خواب جھوٹا ہے۔

اسے سزا دو۔"


آخرکار، خواب کو بولنے کی اجازت ملی۔


اس نے کچھ نہ کہا،

صرف زمین پر جھک کر مٹی کو چھوا —

اور مٹی سے ایک تصویر بنائی:

ایک لڑکی، ایک چراغ، اور ایک سُنسان گلی۔


وقت چونکا۔

یہ تصویر اسے جانی پہچانی لگی۔


خواب نے پہلی بار لب کھولے:


"یہ گلی وہ ہے جہاں تم، اے وقت، ایک لمحے کے لیے رُک گئے تھے۔

جہاں تم نے ایک عورت کی آنکھ سے گرنے والے آنسو کو تھام لیا تھا۔

میں وہی لمحہ ہوں،

جسے تم نے ہمیشہ کے لیے بھلا دیا تھا!"


وقت نے کرسی سے اٹھ کر خواب کے سامنے سر جھکا دیا۔


فیصلہ سنایا گیا:


"یہ خواب مجرم نہیں…

بلکہ گواہ ہے —

ہمارے زوال کا،

اور اس روشنی کا،

جسے ہم نے خود سورج سمجھ کر مار دیا!"


اس دن سے عدالت بند ہے۔

وقت اب صرف تاریخ میں ملتا ہے —

اور خواب؟

وہ اب بھی گھوم رہا ہے،

ہر اُس دل میں جو بند آنکھوں سے دیکھنے کی ہمت رکھتا ہے۔



---


اختتامیہ:


کہتے ہیں،

اگر کسی رات آپ کو ایک گلی، ایک چراغ، اور ایک سُنسان دروازہ نظر آئے —

تو رک جانا،

کیوںکہ وہیں وقت بھی ٹھہرا تھا…

اور خواب تمہیں پہچان لے گا۔


No comments:

Post a Comment