Tuesday, 3 June 2025

افسانہ :07 _ سگریٹ

 افسانہ: 07


"سگریٹ"


افسانہ نگار: علیم طاہر


بارش تھمی تو کیفی کا کمرہ سگریٹ کے دھویں سے بھر گیا۔

کھڑکی کے باہر نیم کا درخت ٹپک رہا تھا، اور اندر کیفی کا دل۔


وہ بس بیٹھا تھا، ہاتھ میں آدھی جلی سگریٹ،

اور سامنے الماری پر پڑی تھی وہ نیلی ڈائری…

جس پر اس نے آخری بار لکھا تھا:

"میں تمہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں، کیفی… پر تمہیں کبھی چھوڑ نہیں پاؤں گی۔"


کیفی دھیرے سے بولا، جیسے وہ اب بھی سن رہی ہو:

"تمہیں یاد ہے؟ تم سگریٹ سے نفرت کرتی تھیں۔

کہتی تھیں، 'دھوئیں میں جذبے جل جاتے ہیں'…

پر آج… تمہاری یادوں کے بغیر، یہ دھواں ہی تو ہے جو میرے اندر کچھ باقی رکھتا ہے۔"


تبھی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

کیفی نے چونک کر سگریٹ بجھائی، دل نے ایک بار دھڑکنا چھوڑا۔

دروازہ کھولا تو سامنے ماہین کھڑی تھی…

ویسی ہی، جیسی تین سال پہلے گئی تھی…

بس بالوں میں کچھ چاندی سی جھلک، اور آنکھوں میں پرانی محبت کی گرد۔


ماہین (دھیرے سے مسکرا کر):

"اب بھی وہی برانڈ پیتے ہو؟"


کیفی ہنس پڑا:

"ہاں… عادتیں ٹوٹتی نہیں… اور تم بھی تو نہیں ٹوٹیں؟"


ماہین نے اندر آتے ہوئے کہا:

"تمہیں لگتا تھا میں تمہیں چھوڑ گئی؟

میں صرف خود سے بھاگی تھی… تم تو میرے ہر سانس میں تھے…

اور سگریٹ کے ہر دھوئیں میں بھی شاید…"


کیفی (نرم لہجے میں):

"پھر واپس کیوں آئیں؟"


ماہین:

"کیونکہ اب مجھے تم سے جلنے کا ڈر نہیں…

اب میں تمہارے ساتھ جلنا چاہتی ہوں… جیسے سگریٹ، دھیرے دھیرے، مکمل طور پر۔"


خاموشی چھا گئی۔

بارش دوبارہ چھم چھم برسنے لگی تھی۔

کیفی نے جیب سے ایک سگریٹ نکالی…

ماہین نے پکڑ لی، خود اپنے ہونٹوں سے لگائی،

اور کہا:


"ایک بار جلا کر تو دیکھو،

اب کی بار دھواں نہیں ہوگا… صرف محبت ہوگی۔"


کیفی نے ماچس جلائی۔

شعلہ روشن ہوا۔

اور اس لمحے میں، دھوئیں کی جگہ،

ایک محبت بھری سانس نے

برسوں کا فاصلہ سمیٹ لیا۔


---


ماہین نے جب سگریٹ سلگا کر کیفی کی طرف دیکھا، تو لمحہ جیسے ٹھہر گیا۔

ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ، جو کیفی برسوں سے اپنے خوابوں میں تلاش کرتا رہا تھا…

اور آنکھوں میں وہی نمی، جو کسی بے پناہ محبت کا اعتراف بن کر چمک رہی تھی۔


کیفی (آہستگی سے):

"مجھے یقین نہیں آ رہا… تم سامنے ہو، ماہین… تم واقعی واپس آئی ہو…؟"


ماہین نے دھویں کی ایک ہلکی سی لہر باہر چھوڑی، جیسے برسوں کی دوری کو اُڑا رہی ہو۔


ماہین:

"کیفی… سگریٹ کی طرح ہم بھی کچھ دیر سلگے… کچھ دیر جلے…

مگر آخر میں… ہم ایک دوسرے کی انگلیوں میں تھمے رہ گئے۔"


کیفی:

"مگر ہم ختم ہو گئے تھے، ماہین… بالکل اس راکھ کی طرح…"


ماہین (نرمی سے):

"نہیں کیفی… راکھ بھی تو مٹی کا حصہ بنتی ہے…

اور محبت کبھی مٹی نہیں ہوتی، وہ جڑیں بناتی ہے… اندر گہرائی میں…"


تبھی بارش تیز ہونے لگی۔ بجلی چمکی۔ کیفی نے آہستہ سے ماہین کے ہاتھ سے سلگتی سگریٹ لے لی۔


کیفی:

"آؤ، ایک آخری کش ساتھ میں لیتے ہیں…

اور پھر اس سگریٹ کی راکھ کو کسی گملے میں ڈال کر، کوئی نیا پودا اگاتے ہیں…"


ماہین (حیرت سے):

"محبت کا پودا؟"


کیفی (ہنستے ہوئے):

"نہیں… جیون کا۔ جو محبت سے بھی گہرا ہو… جس میں ہم پھر کبھی نہ جلیں، صرف کھِلیں…"


ماہین نے کیفی کا ہاتھ تھام لیا۔

کھڑکی سے بارش کی خوشبو اندر آنے لگی۔

نیم کے درخت کی ٹہنیاں جھومنے لگیں۔

اور کمرے میں دھوئیں کے بجائے،

ایک نیا آغاز سانس لینے لگا۔


افسانے کا اختتام ایک بیج کی طرح ہوا — جو راکھ میں سے پیدا ہو، اور محبت بن کر مہکے۔


---


افسانہ نگار :  علیم طاہر 


---


(C):

Writer 

Aleem Tahir 

Email id aleemtahir12@gmail.com.

____________

No comments:

Post a Comment