افسانہ نمبر :22
: "اندھیرے کی چھت پر روشنی کا خنجر"
(افسانہ نگار: علیم طاہر)
رات کی پیشانی پر ایک سیاہ تل تھا۔
لوگوں نے اسے “تقدیر” کا نشان کہا،
لیکن وہ دراصل ایک پرانی خنجر کا زنگ خوردہ داغ تھا
جو کسی زمانے میں روشنی کے سینے میں گھونپا گیا تھا۔
یہ خنجر اب آسمان کی چھت پر لٹکا تھا۔
جسے ہر وہ انسان دیکھ سکتا تھا
جو اندھیرے سے ڈرتا نہیں تھا۔
٭
زینب ایک نابینا لڑکی تھی
جسے خواب آتے تھے —
ایسے خواب جن میں وہ رنگوں کی خوشبو محسوس کر لیتی،
صوتوں کو چھو لیتی،
اور خامشی کو پڑھ لیتی۔
ایک روز خواب میں وہ سیڑھیاں چڑھتی ہے،
جہاں ایک کالی چھت پر خنجر لٹک رہا ہے۔
خنجر چیخ رہا ہے:
"میں روشنی ہوں!
مجھے ایک زمانے نے اپنی پیٹھ میں چھپایا،
پھر اندھیرے کی پناہ میں مجھے سونت دیا۔
میری چمک سے انہیں وحشت تھی!"
زینب نے پوچھا:
"کیا میں تمہیں چھو سکتی ہوں؟"
خنجر بولا:
"کیا تم سچائی کے لیے اندھیرے میں جلنے کو تیار ہو؟
کیونکہ جو روشنی چھت پر لٹکی ہو،
اسے تھامنے کے لیے نیچے کی زمین کو جلانا پڑتا ہے!"
٭
زینب جاگی۔
آنکھیں اب بھی بند تھیں۔
لیکن دل کی آنکھ میں خنجر کا عکس چھپ گیا۔
اس نے شہر کے ہر اندھیرے کمرے میں چراغ رکھنا شروع کیا —
بغیر آنکھوں کے،
بغیر خوف کے۔
لوگ ہنستے،
کہتے:
"یہ پاگل نابینا لڑکی روشنی ڈھونڈ رہی ہے!"
لیکن ایک دن شہر کی چھت پر لٹکا خنجر خود زمین پر آ گرا —
اور زینب کے قدموں میں آ کر ٹوٹ گیا۔
اس کی نوک سے ایک ننھا سا چراغ بن گیا،
جس نے آسمان تک روشنی کا راستہ بنا دیا۔
٭
کہا جاتا ہے،
اس دن کے بعد اندھیرے نے کبھی زمین کو چھوا نہیں —
کیونکہ زینب کے چراغ کی لو میں
وہ خنجر بھی شامل تھا
جو روشنی کی موت کا گواہ تھا۔
---
اختت
اب بھی اگر کوئی نابینا بچی خواب میں سیڑھیاں چڑھتے دیکھے،
تو جان لو —
کہ خنجر،
روشنی بننے کی نئی کوشش کر رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment