Wednesday, 18 June 2025

ڈرامہ نمبر 05 پردے کے پیچھے

 ڈرامہ نمبر: 05

تمثیلی اسٹیج ڈرامہ: "پردے کے پیچھے"

ڈرامہ نگار: علیم طاہر

منظر: تعلیمی ادارے کی زوال پذیر فضا اور ایک معلم کا وقار

کردار:


1. زبیر سر (مرکزی کردار – معلم)



2. ناظم اسکول (اختیار پسند، ظاہری شخصیت)



3. رشیدہ (صفائی ملازمہ – خالص جذبے والی عورت)



4. عاطف (سابق طالبعلم، اب استاد)



5. طالبعلم، اساتذہ، مہمان، رکشہ ڈرائیور وغیرہ (معاون کردار)





---


پہلا منظر: زبیر سر کی پرانی کلاس


اسٹیج سیٹ:

بوسیدہ سا کلاس روم، کونے میں ایک بوسیدہ تختہ، میز، کرسی، دیوار پر علم کا جملہ۔ رشیدہ جھاڑو لگا رہی ہے۔


رشیدہ (جھاڑو لگاتے ہوئے):

کتنے برس ہوگئے، یہ کلاس روم آپ کے قدموں کی چاپ سے گونجتا تھا… اب تو جیسے خاموشی یہاں کا نصاب بن گئی ہے۔


زبیر سر (آہ بھرتے ہوئے):

رشیدہ… علم کوئی شور نہیں مچاتا… وہ تو بس وقت آنے پر بولتا ہے۔


(روشنی ہلکی ہوتی ہے، زبیر کی آنکھوں میں ماضی کی جھلک)



---


دوسرا منظر: ناظم کی آمد


ناظم (غصے سے داخل ہوتا ہے):

زبیر! تم پھر یہاں؟ اسکول تمہیں فارغ کر چکا ہے! تم اب استاد نہیں!


زبیر:

میں اگر استاد صرف تنخواہ سے ہوتا… تو آج طالبعلم بھی تاجر ہوتے۔

علم کا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا۔


ناظم (طنزیہ ہنسی):

دروازے بند ہو چکے ہیں… اب رستے بھی نہیں بچیں گے!



---


تیسرا منظر: عاطف کی آمد (اسکول کے باہر)


اسٹیج سیٹ:

سڑک، بینچ، درخت، زبیر سر رکشہ لے کر کھڑے ہیں۔


عاطف (حیرت سے):

سر! آپ؟ رکشہ چلا رہے ہیں؟

میرے بچے آج بھی آپ کا نام سن کر ادب سے کھڑے ہوتے ہیں!


زبیر (مسکراتے ہوئے):

بیٹا، جو علم سڑک پر بھی دیا جا سکے… وہی اصل سبق ہوتا ہے۔


(روشنی مدھم ہوتی ہے، عاطف زبیر کا ہاتھ چوم لیتا ہے)



---


چوتھا منظر: تعلیمی سیمینار میں زبیر کی واپسی


اسٹیج سیٹ:

اسٹیج، ڈائس، بینر: "استادِ وقت کانفرنس"

ناظم سٹیج پر ہے، مہمان موجود۔


ناظم:

ہمیں فخر ہے کہ آج ہم ایک ایسے شخص کو مدعو کر رہے ہیں، جنہوں نے علم کو رکشے کی گھنٹی میں بھی زندہ رکھا۔


زبیر (ڈائس پر آکر):

میں پردے کے پیچھے تھا… مگر علم کو کبھی پردہ نہیں دیا۔

(وقفہ)

رشیدہ نے جھاڑو سے میرے خواب بچائے، عاطف نے میری محنت کو زندہ رکھا…

اور میں؟

میں اب بھی استاد ہوں… کیونکہ میرے طالبعلم آج بھی سبق دہرا رہے ہیں۔



---


آخری منظر: رشیدہ کی واپسی


رشیدہ (ہال میں داخل ہو کر):

سر جی… آپ کے لفظوں نے سب کے دل صاف کر دیے…

آج جھاڑو نہیں لائی… آنکھیں لائی ہوں… جو نم ہیں، فخر سے۔


زبیر (مدھم روشنی میں):

رشیدہ… تم نے صفائی نہیں کی تھی… تم نے مجھے مٹنے نہیں دیا تھا۔


(تمام کردار اسٹیج پر آکر جھک جاتے ہیں، زبیر سر مرکز میں)



---


پردہ گرتا ہے


پس پردہ نغمہ (لائیو یا ریکارڈڈ):

"استاد ہے وہ روشنی، جو اندھیروں میں بھی جگمگاتی ہے…

جو تختی نہ ہو، تو بھی درس دیتی جاتی ہے…"

No comments:

Post a Comment