ناولٹ نمبر 01: ایک جام کی مسافت
ناول نگار:
علیم طاہر
________________________________
پیش لفظ
علیم طاہر
ادب محض الفاظ کی ترتیب نہیں، بلکہ وہ لطیف دھڑکن ہے جو انسان کے باطن سے جنم لیتی ہے۔ کوئی سطر ہو، کوئی مکالمہ، یا محض ایک خاموش منظر—یہ سب وہ پل ہوتے ہیں جہاں قاری اور مصنف کے مابین روحانی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
"ایک جام کی مسافت" ایسا ہی ایک ناولٹ ہے، جو بظاہر ایک دلچسپ واقعے—اٹلی کے ایک فوارے سے بہنے والی شراب—کے گرد گھومتا ہے، مگر اس کی پرتیں دراصل روح، لمس، عقیدہ، اور محبت کی تلاش میں لپٹی ہوئی ہیں۔ یہ کہانی صرف مارکو اور ایلیا کی نہیں، بلکہ ہر اس فرد کی ہے جو زندگی میں کہیں نہ کہیں ایک ایسی منزل کی تلاش میں بھٹکتا رہا ہے جو لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی—بس محسوس کی جا سکتی ہے۔
فلسفہ اور عشق جب ایک ساتھ کسی بیانیے میں ضم ہوں تو وہ ایک خاموش انقلاب کو جنم دیتے ہیں۔ یہ ناولٹ اسی انقلاب کی داستان ہے، جہاں ایک "حرام" شے کے وجود سے پیدا ہونے والی کہانی قاری کو کسی "حلال" سچائی کی طرف لے جاتی ہے—جہاں محبت قربانی سے بڑی، ایمان لمس سے لطیف، اور خاموشی مکالمے سے بلند ہو جاتی ہے۔
ہم اس کہانی میں ثقافتی اختلافات، روحانی سوالات اور انسانی کمزوریوں کو ایک نرم انداز میں پیش کرتے ہیں، تاکہ قاری صرف متوجہ نہ ہو بلکہ اپنے اندر جھانکنے پر مجبور ہو جائے۔
یہ فوارہ محض ایک سیاحتی مقام نہیں، بلکہ اس کہانی میں ایک علامت بن کر ابھرتا ہے:
"کہیں نہ کہیں، ہر مسافر کے لیے ایک قطرہ — محبت، بخشش یا بصیرت کا — ضرور بہہ رہا ہوتا ہے۔"
"ایک جام کی مسافت" دراصل "ایک لمحے" کی تلاش ہے—ایسا لمحہ جو وقت، مذہب، ذات، اور معاشرت سے بلند ہو… اور سیدھا دل کو چھو لے۔
اگر اس کہانی نے آپ کو کچھ دیر کے لیے بھی خاموش کر دیا ہو، تو سمجھ لیجیے، ہمارا پیغام آپ تک پہنچ چکا ہے۔
علیم طاہر
افسانہ نگار
جون، 2025
______________________________
افسانہ نمبر 01
"ایک جام کی مسافت"
افسانہ نگار: علیم طاہر
---
"محبت اور شراب میں ایک عجیب مشابہت ہے— دونوں دھیرے دھیرے دل کو بے خود کرتی ہیں، اور آخرکار سچ کو ننگا کر دیتی ہیں..."
اورتونا (Ortona) کا سورج ڈھل رہا تھا۔ انگور کی بیلوں پر سنہری روشنی کا آخری لمس جیسے کسی شاعر کی نظم کا آخری مصرع ہو، جو مکمل ہونے سے پہلے ہی دل میں کچھ ادھورا سا چھوڑ جائے۔ تنگ راستوں سے گزرتے ہوئے ایلیا کے قدم "کامیونو دی سان تومازو" کے پتھریلے راستے پر ڈگمگا رہے تھے، مگر اس کی آنکھوں میں کچھ اور ہی جھلک رہا تھا—ایک سوال، ایک خواب، یا شاید ایک پرانا گناہ۔
وہ روم سے چلی تھی، اس راستے پر جو صدیاں پہلے زائرین طے کرتے تھے۔ اس کے کاندھے پر ایک سادہ سا بیگ تھا، ہاتھ میں ایک پرانی نوٹ بک، اور دل میں ایک خط—جسے وہ کبھی کسی کو بھیج نہ سکی۔
---
"پیار... ایک واہمہ یا ایک واعدہ؟"
یہ سوال اسے ہمیشہ الجھاتا رہا۔
ایلیا ایک فلسفے کی طالبہ تھی، مگر فلسفہ نے اسے کبھی اس درد کا جواب نہ دیا جو لورنزو کے بچھڑنے کے بعد دل میں ٹھہر گیا تھا۔ وہ ایک مصور تھا، جس کی تصویریں لفظوں سے زیادہ بولتی تھیں، اور جس کی خاموشی ایلیا کے لیے سب سے پرسکون شور تھی۔ وہ دونوں فریارا کی ایک یونیورسٹی میں ملے، اور پھر ایک ایسے خواب میں گم ہو گئے جو کبھی مکمل نہ ہو سکا۔
لورنزو ہمیشہ کہا کرتا تھا:
"جب تم تھک جاؤ، تو میرے ساتھ شراب کا ایک جام پی لینا... وہ دل کے سارے سوال بہا لے جائے گا۔"
مگر ایلیا نے کبھی شراب نہیں پی۔ وہ کہتی تھی:
"محبت میرا نشہ ہے، باقی سب کمزوری ہے۔"
---
اس دن وہ خاص تھا۔
جب ایلیا "ڈورا سارکیزے" کے وائن یارڈ کے پاس پہنچی، تو سامنے "Fonte del Vino" کا سرخ فوارہ بہہ رہا تھا۔ مگر وہاں کوئی شور نہیں تھا، بس ایک پرندے کی آواز، ہوا کا ہلکا لمس، اور سرخ شراب کی نرم روانی۔ وہ رک گئی۔
نل کے قریب ایک بینچ پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا، جس کی آنکھوں میں صدیوں کی تھکن اور لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
"تھک گئی ہو؟"
اس نے پوچھا، جیسے وہ ایلیا کو برسوں سے جانتا ہو۔
ایلیا خاموش رہی۔
"یہاں کا پانی سرخ ہے، مگر صرف رنگ سے فیصلہ مت کرنا... یہ مہمان نوازی ہے، تجارت نہیں۔"
بوڑھا مسکرایا، اور ایک سادہ سا جام بھر کے ایلیا کی طرف بڑھایا۔
ایلیا نے پہلی بار ایک جام کو ہاتھ میں لیا۔
لورنزو کی وہ بات اس کے ذہن میں گونجی۔
"شراب کے ہر قطرے میں وقت کی خوشبو ہوتی ہے۔"
اس نے لب تر کیے۔
یہ کوئی نشہ نہ تھا۔
یہ ایک تسلیم تھا—یادوں کا، محبت کا، اور سفر کی تھکن کا۔
---
رات کو آسمان پر ستارے بکھرے تھے۔
ایلیا نے نوٹ بک کھولی، اور وہ خط نکالا جو اس نے کبھی لورنزو کو نہیں بھیجا تھا:
"پیارے لورنزو،
میں نے تمہیں چھوڑا نہیں، میں تمہارے خواب میں رہ گئی تھی۔ میں نے سوچا شاید تم واپس آؤ، مگر وقت کے ساتھ معلوم ہوا کہ تم کبھی رکے ہی نہیں تھے۔ آج میں اس جگہ پر ہوں جہاں لوگ مسافروں کو شراب نہیں، سکون دیتے ہیں۔ اور میں نے جانا کہ محبت بھی ایک فوارہ ہے—جو بہتا رہتا ہے، چاہے پینے والا موجود ہو یا نہیں۔"
ایلیا نے وہ خط "Fonte del Vino" کے قریب ایک چھوٹے درخت کے نیچے دفن کر دیا۔
پھر وہ چلی گئی... اگلی صبح کی مسافت کی طرف۔
---
اُس دن فوارے سے بہنے والی شراب میں کچھ اور تھا۔
کچھ زائرین نے کہا کہ خوشبو کچھ مختلف تھی، جیسے کسی ادھورے وصال کی۔
کچھ نے کہا وہاں ایک مصور کی تصویر رکھی تھی جس نے محبت کو رنگوں سے سجا دیا تھا۔
اور کچھ نے فقط جام بھرا، پی لیا، اور شکر کیا—کسی انجان مسافر کی طرف سے۔
---
فلسفہ کہتا ہے: "محبت ایک سوال ہے، اور ہر سوال کو وقت ہی جواب دیتا ہے۔"
اور شاید وہ جواب، ایک سرخ فوارے کے کنارے... ایک جام میں چھپا ہوتا ہے۔
---
"ایک جام کی مسافت – حصہ دوم: خط کا جواب"
افسانہ نگار: علیم طاہر
---
"کبھی کبھی ہم وہ باتیں سن لیتے ہیں، جو کہی نہیں گئیں... اور وہ خط پڑھ لیتے ہیں، جو کبھی بھیجے ہی نہیں گئے۔"
اورتونا میں خزاں آ چکی تھی۔
انگوروں کی بیلیں سنہری ہو چکی تھیں، اور "ڈورا سارکیزے" کی وائنری میں سیاحوں کی آمد کم ہو گئی تھی۔ فوارہ اب بھی بہتا تھا — مگر اس کی سرخی میں اب کچھ اور تھا... جیسے اس میں یادوں کا رنگ گھل گیا ہو۔
ایک دن، فوارے کے قریب صفائی کرتے ہوئے مارکو — جو وائنری کا مقامی نوجوان خادم تھا — زمین پر ایک نرم، پرانا کاغذ محسوس ہوا۔ درخت کی جڑوں کے پاس کچھ خاک اکھڑی ہوئی تھی۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ وہ ایک پرانا، نمی زدہ خط تھا... الفاظ اب بھی زندہ تھے۔
"پیارے لورنزو..."
مارکو نے آہستہ سے پڑھا۔ الفاظ کی سادگی اور دل کی صداقت نے اسے جھنجھوڑ دیا۔ وہ اس خط کو اپنی نانی، سینیورا لوریتا کے پاس لے گیا، جو ایک ریٹائرڈ لائبریرین تھیں اور پرانی تحریروں کی عاشق۔
انہوں نے خط کو غور سے پڑھا، اور چند لمحے خاموش رہیں۔
پھر دھیرے سے کہا:
"یہ ایلیا کا خط ہے... اور لورنزو... شاید میرا ہی بھانجا۔"
---
کہانی اب وہاں سے شروع ہوئی جہاں محبت ہمیشہ رک جاتی ہے: خاموشی میں۔
لورنزو... وہ مصور جو برسوں پہلے شہر چھوڑ کر فلورنس چلا گیا تھا، ایک گم شدہ چہرہ، ایک بھولا ہوا نام۔ سینیورا لوریتا نے اپنے خطوط کی پرانی فائل نکالی۔ ایک پرانا لفافہ تھا، جس پر لکھا تھا:
"ایلیا، فریارا یونیورسٹی، روم"
مگر خط کبھی بھیجا نہ گیا تھا۔
اندر ایک سادہ سی تحریر تھی:
"ایلیا، میں تمہیں چھوڑ کر نہیں گیا... میں تمہارے انتظار میں ٹھہر گیا۔ میں نے سوچا، شاید تم مجھے بھلا دو، اس لیے میں نے خود کو وقت کے حوالے کر دیا۔ مگر ہر صبح، میں تمہاری آنکھوں کی یاد میں رنگ گھولتا ہوں۔ اور ہر شام، ایک خالی کینوس پر تمہارا چہرہ بناتا ہوں، جو مکمل ہی نہیں ہوتا۔ اگر کبھی تم میرے پاس لوٹو، تو ایک جام ضرور پی لینا... کیونکہ شاید اس میں تمہیں میرا آخری رنگ ملے..."
---
اب دو خطوط تھے... دو روحیں... اور ایک فاصلہ...
مارکو نے فیصلہ کیا کہ ایلیا کو تلاش کرنا ہوگا۔
اس نے سوشل میڈیا، یونیورسٹی ریکارڈز، پرانی دوستوں کی مدد سے آخرکار ایلیا کو تلاش کر لیا۔ وہ اب بولونیا میں ایک چھوٹا سا آرٹ کیفے چلاتی تھی — جہاں دیواروں پر بےنام تصویریں لٹکی تھیں، اور ہر میز پر ایک چھوٹا سا سرخ گلدان رکھا ہوتا تھا۔
مارکو اس کے پاس پہنچا۔
ایلیا نے جب وہ پرانا خط دیکھا، تو وقت جیسے رک گیا۔ اس کی آنکھوں میں وہی سوال جاگا — جو برسوں پہلے لورنزو کے جانے کے بعد آنکھوں میں جم گیا تھا۔
مارکو نے دھیرے سے کہا:
"وہ اب بھی تمہیں یاد کرتا ہے، ایلیا۔"
---
چند ہفتے بعد...
"ڈورا سارکیزے" کے پاس دوبارہ موسم بہار آیا۔
اور ایک دن، فوارے کے سامنے دو لوگ خاموشی سے بیٹھے تھے۔
ایک نے جام بھرا، دوسرے نے آنکھیں بند کیں۔
اور پھر، بغیر کچھ کہے، دونوں نے ایک گھونٹ لیا۔
وہ ایلیا اور لورنزو تھے۔
وقت نے ان کے درمیان جو خالی کینوس چھوڑا تھا، آج وہ شراب کے ایک گھونٹ سے بھر گیا۔
---
"محبت کبھی نہیں مرتی، صرف روپ بدل لیتی ہے۔
کبھی ایک خط بن جاتی ہے، کبھی ایک تصویر، اور کبھی... ایک سرخ فوارہ۔"
---
"کبھی کبھی محبت، وقت کے پیالے میں برسوں خاموش رہتی ہے — پھر ایک دن وہ چھلک جاتی ہے، بغیر کسی آواز کے..."
اورتونا کے فوارے پر شام ڈھل چکی تھی۔
ہوا میں انگور کی ہلکی سی خوشبو تیر رہی تھی، جیسے خزاں کی کوئی بھولی ہوئی سانس کسی پیڑ کی شاخوں سے نکل کر واپس زمین پر آ رہی ہو۔ فوارہ اب بھی ویسا ہی تھا — سرخ، خاموش، مگر اب اس میں ایک اور رنگ گھل چکا تھا: زندگی کا ذائقہ۔
ایلیا اور لورنزو اب دوبارہ ایک ساتھ تھے۔
نہ جوانی کی شدت باقی تھی، نہ جدائی کی چبھن — اب جو باقی تھا وہ تھا سمجھنے کا ہنر۔ وہ خامشی جو صرف پختہ محبت میں نصیب ہوتی ہے... جیسے دو دریا آخرکار ایک سمندر میں مل گئے ہوں، بغیر شور کیے۔
---
"روشنی کی گیلری"
اورتونا کے فوارے سے کچھ قدم دور، ایک چھوٹا سا آرٹ اسٹوڈیو کھلا۔
اس کا نام تھا:
"روشنی کا ذائقہ – Il Sapore della Luce"
یہاں داخل ہوتے ہی ایک ہلکی روشنی آپ کو گلے لگاتی تھی، اور دیواروں پر جو تصویریں تھیں، وہ عام تصاویر نہیں تھیں۔
ہر تصویر کے نیچے ایک جام رکھا گیا تھا — جام میں نہ شراب تھی، نہ پانی، بلکہ ایک رنگ تھا — کوئی نیلا، کوئی زرد، کوئی گلابی۔
زائرین کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ "جام کو آنکھوں سے چکھیں"۔
پہلی تصویر کے نیچے لکھا تھا:
"یہ وہ لمحہ ہے جب میں نے اسے دوبارہ دیکھا... روشنی جیسے ساکت ہو گئی ہو..."
ایک تصویر میں ایلیا کا چہرہ تھا — مگر آنکھیں بند تھیں۔
دوسری تصویر میں لورنزو تھا — ہاتھ میں کینوس تھامے، مگر خالی۔
اور آخری تصویر — جو صرف ایک سفید کینوس تھا — کے نیچے لکھا تھا:
"یہ وہ لمحہ ہے جو ابھی آیا نہیں... مگر ہم اسے روز جیتے ہیں۔"
---
فلسفہ، فوارہ، اور فانی وجود
لوگ آنے لگے۔ کچھ اپنی محبت کے ساتھ، کچھ تنہا، کچھ سوالوں کے ساتھ، کچھ زخموں کے ساتھ۔
ہر کوئی یہاں ایک جام چکھتا — اور محسوس کرتا کہ شاید زندگی صرف وہی ہے جو محسوس کی جائے، لفظوں سے ماورا۔
مارکو — جو اس قصے کا خاموش راوی تھا — اب اسٹوڈیو میں گائیڈ بن چکا تھا۔ وہ ہر تصویر کی کہانی نہ سناتا، بس ایک جملہ کہتا:
"یہاں ہر جام میں روشنی چھپی ہے، صرف دیکھنے والے کا دل صاف ہونا چاہیے۔"
---
ختم میں صرف ایک تحفہ ہوتا ہے...
ایک دن ایک لڑکی اسٹوڈیو آئی۔ وہ بولونیا کی تھی، اور ایک شاعرہ تھی۔ اس نے سفید کینوس کے سامنے رُک کر آنکھیں بند کر لیں۔
پھر ایک پرچی نکال کر میز پر رکھ دی:
"محبت وہ جام ہے جسے وقت کی چھلنی سے چھان کر پینا پڑتا ہے... تب جا کے روشنی کا ذائقہ آتا ہے۔"
اس کے جانے کے بعد، مارکو نے پرچی اٹھائی، مسکرایا، اور ایک نیا کینوس دیوار پر لگایا۔ نیچے وہی پرچی چپکا دی گئی۔
---
آخری منظر:
ایلیا ایک شام، فوارے کے سامنے بیٹھی تھی۔ لورنزو نے ایک چھوٹا سا خاکہ اس کے ہاتھ میں دیا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی، پھر بولی:
"کیا یہ میں ہوں؟"
لورنزو مسکرایا:
"نہیں... یہ تمہارا عکس ہے... جو میں نے اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے۔"
---
اختتامیہ:
"فوارے سے بہتی شراب، فقط مائع نہیں — وہ ایک دعا ہے، ایک یاد، ایک لمس...
اور شاید ایک دن، جب وقت تھم جائے گا، تو ہم سب کے ہاتھ میں ایک ایسا جام ہوگا... جس میں روشنی کا ذائقہ ہوگا۔"
---
"کچھ کہانیاں اپنے انجام پر ختم نہیں ہوتیں، بلکہ وہاں سے آغاز لیتی ہیں جہاں قاری کو لگے کہ سب ختم ہو چکا ہے..."
---
اورتونا کے اس پُراسرار فوارے پر اب خزاں اتر چکی تھی۔
درختوں کے پتے سُنہری ہو چلے تھے، ہوا میں نمی کی مہک اور سرخ انگوروں کی آخری سانس شامل تھی۔ لیکن ان دنوں کچھ اور بھی تھا... ایک انجان چہرہ، جو بار بار نظر آ رہا تھا، خاموشی سے، بنا کچھ مانگے۔
ایک دن، فوارے کے قریب، ایک بوڑھا درویش بیٹھا ملا — خرقہ پہنے، سادہ، مگر اس کی آنکھوں میں صدیوں کی پیاس تھی۔
نام کسی کو معلوم نہ تھا، مگر بچے اسے "Il Pellegrino Ombra" (سایہ زائر) کہنے لگے۔
---
پہلا سسپینس — اس کا جام خالی تھا!
اس نے ایک جام تھاما، فوارے کے نیچے رکھا — لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ ہر کسی کے جام میں مونٹی پلچیانو کی شراب ٹپکتی تھی، سوائے اس کے۔
نہ شراب، نہ رنگ، نہ خوشبو... جام بالکل خالی تھا۔
لوگوں نے اسے ایک کھیل سمجھا، کچھ نے جادو، کچھ نے تکنیکی خرابی — مگر جب تین دن تک فوارہ صرف اسی کے لیے خاموش رہا، تو ایلیا چونک گئی۔
---
دوسرا سسپینس — وہ خاموشی سے سب کی تصویریں بناتا رہا...
اس "سایہ زائر" نے نہ سوال کیا، نہ شکایت۔
وہ صرف اسٹوڈیو میں آ کر، سفید کینوس پر کسی کو دیکھے بغیر تصویریں بنانے لگ گیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ جو تصویریں بناتا، وہ ان لوگوں کے چہرے تھے جو ابھی وہاں نہیں آئے تھے۔
ایک دن مارکو نے پوچھ ہی لیا:
"یہ تمہیں کیسے معلوم کہ کون آئے گا؟"
بوڑھا مسکرایا:
"میں ان کی تشنگی دیکھتا ہوں، اور تصویر بن جاتی ہے۔"
---
تیسرا سسپینس — آخری کینوس پر صرف ایک حرف تھا: "ھُو"
اس نے ایک دن کینوس پر کچھ بھی نہیں بنایا — صرف ایک حرف:
"ھُو"
ایلیا نے حیرت سے پوچھا:
"یہ کیا ہے؟"
وہ بولا:
"یہ وہ نام ہے جو ہر زبان کے جام میں ترجمہ ہو جاتا ہے، مگر حقیقت کبھی نہیں بنتا۔"
---
کلیمکس: جب فوارہ ایک آخری بار بہا...
اک روز وہ درویش اچانک غائب ہو گیا۔
فوارہ، جو کئی دنوں سے بند تھا، اچانک زوردار شور سے بہنے لگا — لیکن اس بار سرخ شراب نہیں، نہ پانی، بلکہ شفاف روشنی کا سیال اس سے نکل رہا تھا۔ لوگ حیرت سے دیکھتے رہے، کوئی پینے کی ہمت نہ کر سکا۔
مارکو نے جھک کر ایک جام بھرا، آنکھوں سے لگا کر کہا:
"یہ تو خالص روشنی ہے، ذائقہ وہی ہے جو خواب میں آتا ہے..."
اس لمحے فوارے کے پتھر پر ایک تحریر ابھر آئی، جو پہلے کبھی نہ تھی:
> "جو جام خالی رہ جائے، وہی اصل میں مکمل ہوتا ہے۔"
---
ایلیا نے آخری تصویر مکمل کی۔
اس نے بوڑھے درویش کے کینوس پر، اس کا چہرہ نہیں بنایا — بلکہ اس کے ہاتھ کا خاکہ بنایا، جو ایک خالی جام تھامے ہوئے تھا۔ نیچے ایک سطر لکھی:
"محبت، وہ پیاس ہے جو کبھی بجھتی نہیں — کیونکہ وہ پیاس ہی اصل روشنی ہے۔"
---
اختتامیہ:
کہا جاتا ہے، اس دن کے بعد "Fonte del Vino" کا فوارہ ہر اُس شخص کے لیے بہتا ہے جو دل سے پیاسا ہو، نہ کہ صرف جام کا طلبگار۔
اور وہ "سایہ زائر"؟
کچھ کہتے ہیں وہ ایک صوفی تھا۔
کچھ کہتے ہیں وہ "محبت" کا مجسم عکس تھا۔
اور کچھ… اب بھی اس کی تصویر اسٹوڈیو میں دیکھ کر خالی جام تھام لیتے ہیں۔
کیونکہ کبھی کبھی...
"خالی جام ہی مکمل جام ہوتا ہے..."
---
باب پنجم: ایلیا کی آنکھیں
افسانہ نگار: علیم طاہر
اورتونا کی پتھریلی گلیوں میں دن کا رنگ دھندلا ہوتا جا رہا تھا۔ آسمان پر شام کی سیاہی سورج کے آخری ذرے کو آہستہ آہستہ نگل رہی تھی۔ مارکو نے ایلیا کے اسٹوڈیو کی طرف قدم بڑھائے۔ وہ فوارے پر جو ملاقات ہوئی تھی، اس کے بعد ایلیا اس کے دل کے دریچوں میں عجیب سی تھرتھراہٹ چھوڑ گئی تھی — جیسے کسی نے سالوں سے بند ایک خانہ کھول دیا ہو، جس میں خوشبو اور زخم دونوں قید ہوں۔
ایلیا کا اسٹوڈیو ایک چھوٹے سے گرجا گھر کی پرانی عمارت میں تھا۔ پتھروں کی دیواریں، لوہے کی کمانوں جیسے دروازے، اور روشندان سے آتی نارنجی روشنی۔ دروازہ کھلا تھا، لیکن اندر داخل ہوتے ہی خاموشی نے مارکو کا استقبال کیا — اور پھر ایک عجیب سی سرگوشی نے۔
"تم آ گئے؟"
یہ ایلیا کی آواز تھی، جو کینوس پر جھکی ہوئی ایک سائے کی مانند سنائی دی۔
مارکو چند قدم آگے بڑھا۔ "تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں آؤں گا؟"
ایلیا نے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں وہی گہرا سکوت تھا — جیسے وہ وقت کے بہاؤ سے آزاد ہو۔
"کیونکہ کچھ جام وقت سے نہیں، پیاس سے بھرے جاتے ہیں۔"
مارکو نے مسکرا کر ارد گرد دیکھا۔ کینوس پر رنگوں کا ہجوم تھا — پر کوئی چہرہ مکمل نہ تھا۔ آنکھیں تھیں، ہونٹ، ہاتھ... مگر کوئی پورا انسان نہیں۔
"یہ سب کون ہیں؟"
"زائرین۔ جو فوارے سے گزرے، جو ایک گھونٹ لینے آئے اور خود کو پیچھے چھوڑ گئے۔ میں ان کا عکس محفوظ کرتی ہوں، مگر وہ خود کبھی مکمل نہیں ہوتے۔"
مارکو نے ایک کینوس کے پاس رک کر پوچھا، "اور یہ آنکھیں؟"
"یہ میری ہیں..." ایلیا نے سر جھکا لیا۔
"...میں برسوں سے اپنی آنکھوں میں وہ لمحہ تلاش کر رہی ہوں جب میں نے پہلی بار فوارے کا ذائقہ محسوس کیا۔"
"تو تم نے بھی..."
"ہاں۔ مگر میں نے پی نہ تھی، صرف ہاتھ بھگوئے تھے۔ میں چاہتی تھی کہ جام کے بغیر بھی پیاس مٹ جائے۔ مگر پھر احساس ہوا — بعض پیاسیں مقدر نہیں ہوتیں بجھنے کے لیے، بس رہنے کے لیے ہوتی ہیں۔"
مارکو خاموش ہو گیا۔ ایلیا کے لفظوں میں وہی گہری تھکن تھی جو مسافروں کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔
پھر یکایک ایلیا نے ایک چھوٹا کینوس مارکو کے ہاتھ میں تھما دیا۔
"یہ تم ہو۔"
مارکو نے چونک کر تصویر کو دیکھا۔ یہ ایک آنکھ تھی — گہری، پر سکون، اور اس میں فوارے کی ہلکی روشنی جھلک رہی تھی۔
"مگر... تم نے مجھے تو کبھی اس زاویے سے دیکھا بھی نہیں۔"
"پینٹر آنکھوں سے نہیں، دھڑکنوں سے دیکھتے ہیں۔"
دونوں کے بیچ خاموشی کا ایک جام رکھا تھا۔
ایلیا نے آہستہ سے پوچھا، "کیا تم نے کبھی چاہا ہے کہ تمہاری پیاس کوئی اور سمجھ لے؟"
مارکو نے آہستہ سے سر ہلایا۔
"چاہا نہیں... شاید اسی خواہش سے بھاگتا رہا ہوں۔"
ایلیا کی آنکھوں میں ایک نمی سی تیر گئی — وہ نمی جو آنکھ سے نہ بہے تو رنگ بن جاتی ہے، اور اگر بہہ جائے تو دعا۔
"پھر بھی تم آئے ہو۔ شاید ہم دونوں کی پیاس ایک ہی فوارے سے جڑی ہو۔"
دروازے کے باہر ہوا میں مونٹی پلچیانو کی مہک تیر رہی تھی۔
اور اندر، دو پیاسی روحیں رنگوں اور خاموشیوں کے درمیان ایک دوسرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
---
وہ رات، جب ایلیا نے مارکو کو اس کی اپنی آنکھوں میں دکھایا، مارکو کو خواب کی مانند محسوس ہوئی — مگر خواب بھی کبھی کبھی اتنے حقیقی ہوتے ہیں کہ جاگنے پر انسان کو خود سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
مارکو فوارے کے قریب ایک پتھریلی بینچ پر بیٹھا تھا۔ ہوا میں مونٹی پلچیانو کی ہلکی مہک تھی، اور دور سے کسی خانقاہ کے گھنٹے کی مدہم آواز آ رہی تھی۔ وقت جیسے ٹھہر سا گیا ہو — نہ مکمل رات، نہ مکمل دن — بس ایک ایسی گھڑی جب سوال اٹھتے ہیں اور جواب خاموشی میں چھپ جاتے ہیں۔
مارکو کی نگاہ ایک بار پھر "Fonte del Vino" کے فوارے پر جا ٹھہری۔
شراب وہاں بہہ رہی تھی، جیسے وقت، جیسے وعدے، جیسے وہ خط جو کبھی بھیجنے کے لیے لکھے ہی نہیں گئے۔
"میں یہاں کیوں ہوں؟"
اس نے خود سے سوال کیا۔
کیا یہ پیاس محبت کی ہے؟
یا صرف اس جذبے کی جو کسی کو چھو لینے سے پہلے، انسان کو اندر سے ڈرا دیتا ہے؟
"مجھے یقین تھا تم یہاں ہو گے۔"
ایلیا کی آواز اُس لمحے میں شامل ہو گئی — جیسے کسی اندرونی مکالمے کا جواب۔
مارکو نے پلٹ کر دیکھا۔ ایلیا سر پر ہلکی چادر لیے، ننگے پاؤں پتھروں پر چلتی ہوئی آ رہی تھی۔
"تم رات کے اس پہر یہاں کیا کر رہی ہو؟"
"یہاں آنے والے مسافروں کی نیند ہلکی ہوتی ہے۔"
وہ ہنس دی، مگر اس کی آنکھوں میں سنجیدگی تھی۔
"میں سوچ رہا تھا..." مارکو رکا،
"کیا محبت اور ایمان ایک ساتھ رہ سکتے ہیں؟"
ایلیا کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر فوارے کے قریب جا کر ہاتھوں میں بہتی شراب کو تھامنے کی کوشش کی۔
"یہ بہتا پانی دیکھو، مارکو... اگر تم اسے مٹھی میں قید کرو گے، تو نکل جائے گا۔ مگر اگر تم بس اسے محسوس کرو، اس کی خنکی کو، اس کی روانی کو — تو شاید یہ تمہیں بدل دے۔"
"تم کہنا چاہتی ہو کہ محبت کو قید نہیں کرنا چاہیے؟"
"نہیں۔ میں کہنا چاہتی ہوں کہ بعض جذبے — محبت ہو، ایمان ہو — ان کا مقام مٹھی نہیں، دل ہوتا ہے۔ دل میں وسعت ہوتی ہے۔ دل میں دونوں رہ سکتے ہیں۔"
مارکو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک اندھیرے میں لپٹا وجود، فوارے کے سائے سے نکل آیا۔
وہ ایک بوڑھا زائر تھا، جس کی آنکھوں میں ہزار میل کی تھکن، اور چہرے پر ایک انجانی مسکراہٹ تھی۔
"کیا میں بھی یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟"
اس نے مارکو سے پوچھا۔
مارکو نے سر ہلایا۔ وہ شخص خاموشی سے بیٹھ گیا، پھر آہستہ سے بولا:
"یہ فوارہ صرف شراب نہیں بہاتا، بیٹے۔ یہ مسافت بہاتا ہے۔ ہر گھونٹ میں کسی کی دعا، کسی کی محرومی، کسی کی یاد ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھار... وہ سب جمع ہو کر کسی ایک شخص کے دل میں اتر جاتے ہیں۔"
مارکو چونک گیا۔
"آپ کون ہیں؟"
بوڑھا مسافر مسکرایا۔
"بس ایک مسافر۔ جیسے تم۔ اور جیسے وہ..."
اس نے ایلیا کی طرف اشارہ کیا،
"...جو برسوں سے اپنی یاد کے جام میں کسی لمحے کو قید کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔"
ایلیا نے نظریں چرا لیں۔
"لیکن تم، مارکو... تمہاری آنکھوں میں وہ لمحہ اتر چکا ہے۔ اب فیصلہ تمہیں کرنا ہے — اسے پینا ہے یا چھوڑ دینا ہے۔"
مارکو کو ایسا لگا جیسے ہوا رک گئی ہو۔
بوڑھا مسافر اٹھا، فوارے سے ایک قطرہ اپنی انگلی پر لیا، اور چپ چاپ اندھیرے میں گم ہو گیا۔
مارکو نے ایلیا کی طرف دیکھا۔
"اگر میں تمہیں تھام لوں تو کیا میں خود کو کھو دوں گا؟"
ایلیا نے آہستہ سے کہا:
"نہیں مارکو، تم خود کو پاؤ گے۔ بس شرط یہ ہے — تم مجھے پینے کی چیز نہ سمجھو، بلکہ محسوس کرنے کا لمحہ جانو۔"
رات نے اپنا پردہ تان لیا تھا۔
اور ان دونوں کے بیچ ایک جام رکھا تھا — جس میں نہ شراب تھی، نہ پانی...
بلکہ پیاس کا عکس۔
محبت کا لمس۔
اور ایمان کا سکوت۔
---
مارکو واپس روم کی جانب روانہ ہو چکا تھا — مگر راستے کے سنگریزے، ایلیا کی آنکھیں، اور فوارے کی شراب… سب کچھ اس کے دل کی ہتھیلی پر نقش ہو چکا تھا۔
وہ جسمانی طور پر سفر کر رہا تھا، لیکن ذہنی طور پر ایک بند دائرے میں چکر کاٹ رہا تھا —
ایک ایسا دائرہ، جس کے مرکز میں ایک عورت کھڑی تھی، جس نے اسے خود سے ملایا تھا۔
روم کی گلیاں ویسی ہی تھیں، پر اب مارکو بدل گیا تھا۔
اس کے لفظ کم ہو چکے تھے، دعائیں زیادہ۔
وہ گرجا گھر میں جاتا، دیر تک خاموش بیٹھتا، اور ہر بار ایک ہی جملہ کہتا:
"خدا، اگر یہ جذبہ بھی تو نے ہی دیا ہے، تو مجھے اس کا مقصد سمجھا دے۔"
---
ایلیا اورتونا میں ٹھہری رہی۔
فوارہ بہتا رہا — زائر آتے گئے، جاتے گئے۔
لیکن فوارے کا پانی… نہیں، وہ شراب… اُس دن کے بعد کچھ اور بن گئی تھی۔
اب ہر بوند ایلیا کو مارکو کی آنکھوں کی نمی جیسی لگتی تھی —
ایسی نمی جو اندر سے آئی ہو، اور انسان کو باہر سے بھی بدل دے۔
ایلیا نے طے کر لیا تھا کہ اگر مارکو واپس نہ آیا، تو وہ خود اس کے شہر چلی جائے گی۔
"محبت کی معراج وصال نہیں، انتظار ہے۔ اور کبھی کبھی… انتظار خود وصال سے بڑھ کر عبادت بن جاتا ہے۔"
---
مارکو نے خود کو چرچ میں قید کر لیا تھا۔
ایک دن، ایک پادری نے اس سے پوچھا،
"کیا تم توبہ کے متلاشی ہو یا محبت کے؟"
مارکو نے جواب دیا،
"میں دونوں کو ایک سمجھ بیٹھا ہوں۔ لیکن شاید… میں دونوں کو الگ الگ سمجھنا چاہتا ہوں۔"
پادری مسکرایا۔
"پھر تمہیں کسی دن وہ روشنی ملے گی… جو تمہیں سچائی کے لیے اندھا کر دے گی۔ اور اندھوں کے دل زیادہ دیکھتے ہیں۔"
---
چند دن بعد، مارکو نے ایلیا کو خط لکھا۔
لیکن اسے پوسٹ نہ کر سکا۔
اسے لگا، اگر وہ لفظوں میں اپنی محبت قید کرے گا، تو شاید وہ جذبہ مٹھی میں آ کر پانی کی طرح نکل جائے گا۔
لیکن ایک صبح… ایک عجیب سا خواب دیکھ کر وہ چونک کر جاگا۔
خواب میں وہ اور ایلیا، فوارے کے قریب تھے — لیکن فوارے سے اب نہ شراب نکل رہی تھی، نہ پانی… بلکہ روشنائی۔
ایلیا اس روشنائی کو ایک سفید کاغذ پر انڈیل رہی تھی…
اور لکھتی جا رہی تھی:
"محبت ایک دعا ہے، اگر سچی ہو — تو خود بخود عرش تک پہنچ جاتی ہے۔"
مارکو نے اسی لمحے فیصلہ کیا۔
وہ واپس اورتونا جائے گا…
نہ اپنی نیت صاف کرنے،
نہ اپنی محبت جتانے…
بلکہ صرف اعتراف کرنے —
کہ وہ کسی لمحے کی جستجو میں تھا، جو ایک عورت کی آنکھوں میں قید تھا۔
---
مارکو نے جب فوارے کے پاس قدم رکھا، ایلیا پہلے ہی وہاں کھڑی تھی —
نہ حیرت، نہ خوشی… بس ایک خاموش قبولیت، جیسے دل کی آواز وقت سے پہلے سن لی گئی ہو۔
"میں آیا ہوں…"
مارکو کی آواز رکی ہوئی تھی،
"نہ معافی مانگنے، نہ وضاحت دینے… بلکہ صرف یہ کہنے، کہ وہ لمحہ… جو تمہارے ساتھ بیتا، وہی میری عبادت بن گیا ہے۔"
ایلیا نے فوارے سے ایک جام بھر کر مارکو کو دیا۔
"یہ لے لو… یہ شراب نہیں، ہمارا لمس ہے۔ اسے پی لو… اگر تم اب بھی اس لمس کو پانا چاہتے ہو۔"
مارکو نے وہ جام لبوں سے لگایا…
اور پینے سے پہلے، آہستہ سے کہا:
"میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں… قید نہیں۔"
---
اسی لمحے فوارے کے پیچھے کی دیوار پر سورج کی پہلی کرن پڑی —
اور اس روشنی میں دونوں کے سائے ایک دوسرے میں گھل گئے۔
یہ لمحہ تھا… وصال کا،
یہ لمحہ تھا… عبادت کا،
اور یہ لمحہ تھا… اعتراف کا آفتاب۔
---
صبح کی سرد روشنی میں فوارے کے آس پاس خاموشی کا راج تھا۔ پرندے اڑ تو رہے تھے مگر آوازیں جیسے کسی اور ہی دنیا میں رہ گئی ہوں۔ ایلیا اور مارکو ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے، لیکن ان کے بیچ کئی خاموش لمحے حائل تھے—جو کبھی شک تھے، کبھی سوال، اور اب محض لمس۔
"ایلیا… تم جانتی ہو؟"
مارکو کی آواز میں رُک رُک کر بہتا یقین تھا،
"میں نے زندگی میں پہلی بار کسی جذبے کو اتنا سچا محسوس کیا ہے کہ وہ خدا کی موجودگی جیسا لگا…"
ایلیا نے آنکھیں بند کیں، جیسے کسی راز کو جذب کر رہی ہو۔
"محبت اور خدا، دونوں کو صرف دل سے پایا جا سکتا ہے، مارکو۔ اور جب دونوں ایک لمحے میں سمٹ آئیں… تو وہ لمحہ لافانی ہو جاتا ہے۔"
وہ لمحہ تھا—جب فوارے سے ایک نرم دھار بہی… نہ شراب، نہ پانی… بلکہ ایسی شفاف روشنی، جو صرف محسوس کی جا سکتی تھی۔
مارکو نے ایلیا کا ہاتھ تھاما۔
نہ کوئی عہد، نہ وعدہ۔
بس ایک "ہاں" — جو لفظوں سے بلند ہوتی ہے۔
---
"کبھی کبھی انسان سفر پر نکلتا ہے کہ کسی منزل تک پہنچے… لیکن اصل میں وہ کسی لمحے کی تلاش میں ہوتا ہے — ایک ایسا لمحہ جو اس کی روح کو چھو لے، بغیر کسی شرط، بغیر کسی خوف، بغیر کسی نام کے۔"
ایلیا نے اپنے پیروں کے نیچے کی مٹی کو چھوا،
"یہیں کہیں میرے خواب دفن تھے۔ تم نے انہیں جگا دیا… پر وہ اب تمہارے نہیں، میرے خدا کے پاس ہیں۔"
مارکو مسکرایا۔
"تو کیا ہم دونوں جدا ہو رہے ہیں؟"
ایلیا کی مسکراہٹ میں اداسی نہیں، تکمیل تھی۔
"محبت کبھی جدا نہیں ہوتی مارکو… صرف اپنی صورت بدلتی ہے۔"
---
اگلے دن مارکو واپس روم چلا گیا۔
نہ کوئی چیخ، نہ کوئی اختتام —
محض ایک لمس، جو وقت سے ماورا تھا۔
ایلیا فوارے کے قریب بیٹھی، ایک نیا جام بھرتی ہے…
اور ہر زائر کو پیش کرتے ہوئے کہتی ہے:
"یہ صرف شراب نہیں…
یہ ایک لمس ہے،
ایک دعا ہے،
ایک یاد ہے…
جو کبھی کسی نے صرف ایک نگاہ میں مجھے دے دی تھی… اور میں آج تک اس لمس کی مسافت طے کر رہی ہوں۔"
_________
(C): Novelet
Ek jaam ki Musaafat
Aleem Tahir
Email id aleemtahir12@gmail.com
_______
No comments:
Post a Comment