Tuesday, 3 June 2025

افسانہ- 08۔ پرانا ریڈیو

 افسانہ: 08

’’پرانا ریڈیو‘‘

افسانہ نگار: علیم طاہر


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


        وہ ریڈیو عرصہ دراز سے بند پڑا تھا۔

دیوار پر ایک خالی کیل سے ٹنگا، جیسے وقت کا کوئی گمشدہ پرزہ ہو۔


صفیہ کو ریڈیو سے نفرت تھی۔

"یہ چیز تمھاری تنہائی میں شریک ہے، میں نہیں۔"

یہ جملہ اس نے کتنی بار دہرایا تھا، اور ہر بار انور نے خاموشی سے ریڈیو کی آواز کم کر دی تھی۔


اب صفیہ مر چکی تھی، پچھلے سال… یا شاید اس سے پچھلے۔ وقت کی پرتوں پر زنگ لگ چکا تھا، جیسے ریڈیو کے نوب پر۔


آج انور نے الماری کے نیچے سے نکال کر اسے دھویا، کپڑے سے صاف کیا، اور بیٹریوں کا ڈبہ کھولا۔ حیرت انگیز طور پر سب کچھ ٹھیک تھا۔


ریڈیو چل پڑا — جیسے وقت نے پلٹ کر کہا ہو: "میں رکا نہیں ہوں، تم تھے۔"


پہلا چینل کچھ عجیب سا تھا — کوئی شور، کوئی پرانی دھن — پھر ایک مانوس آواز ابھری:


"یہ آل انڈیا ریڈیو ہے… وقت ہو چلا ہے رات کے بارہ بجے کا۔"


انور چونک گیا۔ یہ آواز صفیہ کی تھی۔


صفیہ ریڈیو پر نیوز پڑھتی تھی، شادی سے پہلے۔

شادی کے بعد سب کچھ بدل گیا — آواز بھی، وقت بھی، خواب بھی۔


ریڈیو پر ایک سنّاٹا چھایا، پھر صفیہ کی آواز ابھری، مگر اب وہ خبروں والی نہیں تھی:


"انور، تم نے مجھے وقت نہیں دیا۔ تم نے مجھے ریڈیو سے جلا دیا، لیکن میں تمھارے خاموش لمحوں میں قید ہو گئی۔"


انور نے ریڈیو بند کرنا چاہا، مگر نوب گھومتا نہ تھا۔ آواز اب صاف ہونے لگی:


"تم روز مجھے سنا کرتے تھے، پھر مجھے بیوی بنا کر چپ کروا دیا۔ اب میں واپس آئی ہوں… بطور صدا۔"


کمرے کی دیواروں سے صفیہ کی آواز گونجنے لگی۔ انور کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ وہ چیخنا چاہتا تھا، بھاگنا چاہتا تھا، لیکن بدن سن ہو چکا تھا۔


ریڈیو پر آخری جملہ آیا:


"محبت کو قید مت کرو، انور… وہ ایک دن صدا بن جاتی ہے — جسے پھر عمر بھر بند نہیں کیا جا سکتا۔"


اگلی صبح محلے والوں نے انور کو صوفے پر مردہ پایا —

چہرے پر عجب سکون تھا، جیسے کوئی آخری نشریات سن چکا ہو۔


ریڈیو بند پڑا تھا۔

مگر جب کوئی قریب جاتا…

اس میں سے اب بھی صفیہ کی آواز آتی تھی۔

------


(C):

Afsana 

Purana Radio 

By 

Aleem Tahir 

Email id aleemtahir12@gmail.com 

Mobile no.9623327923.

-----

No comments:

Post a Comment