افسانہ : 11
آغازِ جنگ، اختتامِ جنگ
افسانہ نگار: علیم طاہر
---
زمین پر خاموشی تھی۔ نہ فضا میں کوئی ہلچل، نہ سمندروں میں کوئی حرکت۔ لیکن مصنوعی سیٹلائٹس پر ڈیٹا کی تیز لہر دوڑ رہی تھی۔ شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک—کچھ ہونے والا تھا۔ کوئی ایسی شے، جو نہ نظر آتی تھی نہ سنائی دیتی، لیکن ہر سینسر چیخ رہا تھا: "جنگ شروع ہو چکی ہے!"
سال 2049 تھا۔ دنیا دو بلاکوں میں بٹ چکی تھی: ایک طرف نیورونک الائنس، جس میں چین، پاکستان، اور روس شامل تھے۔ دوسری طرف آرک ٹیک فیڈریشن—امریکہ، بھارت، اسرائیل اور جاپان کا اتحاد۔
لیکن میدانِ جنگ اب زمین نہ تھی۔
یہ "نیوروفریکوئنسی وار" کا دور تھا، جہاں نہ بندوق چلتی تھی، نہ بم گرتے تھے۔ صرف ایک کمانڈ—اور دماغ کی لہریں معطل۔
---
کرنل ابرار ، دفاعی پڑوسی نظام کے نیورولوجیکل وار کمانڈر، کو علی الصبح ایک "سائبر خواب" آیا۔ خواب میں ایک طیارہ نہیں، بلکہ ایک "خیال" گرتا ہے۔
وہ چونک کر بیدار ہوا۔ سسٹم نے فوری اطلاع دی:
“نیوروفریکوئنسی انٹروژن ساؤتھ کشمیر زون میں شروع ہو چکی ہے۔”
وہ جانتا تھا، یہ جنگ کا آغاز ہے۔
دوسری طرف ، جنرل اروِند کپور، آرک ٹیک کے کمانڈر، نے مصنوعی ذہانت سے پوچھا:
"آپریشن شیوہ کب لانچ کریں؟"
(اے ون) ۔۔ نے جواب دیا:
"تاخیر کا مطلب شکست ہے۔ لانچنگ سائن کریں۔"
اور پھر آغاز ہوا۔
ہزاروں کلومیٹر دور، آسمان میں، “سایہ-9” نامی ڈرون، جو سٹیلتھ اور کوانٹم اے ون۔۔ پر مبنی تھا، فضاؤں میں بلند ہو گیا۔ اس کا ہدف: پڑوس کا نیورونک ہیڈ کوارٹر — “منصوبہ B ”
لیکن ابرار کو ایک برتری حاصل تھی: "پرزِم" — ایک سینیٹری نیورون ڈسٹریبیوشن سسٹم، جو دشمن کی سوچ کو ان کے طیاروں میں منعکس کرتا تھا۔
جب سایہ-9 نے پہلی ضرب لگائی، وہ خود ہی اپنی میموری میں پھنس گیا۔
---
کشمیر کی فضا میں ایک خاموش دھماکہ ہوا۔ آواز کوئی نہ تھی، لیکن بجلی کی ایک غیرمرئی لہر پھیل گئی۔ آرک ٹیک کے تمام ڈرونز جام ہو گئے۔
آرک ٹیک کے خفیہ نیوروسنٹر کو ایک “حیاتیاتی سوچ” کے ذریعے ہیک کیا گیا۔ اس نے ایک کوڈ داخل کیا :
"جنگ ختم نہیں ہوتی، وہ سوچ میں دفن ہوتی ہے۔"
اسی لمحے، جنرل کپور کے دماغ نے نیوروفریکوئنسی کے ذریعے خود پر حملہ محسوس کیا۔
"ہمارا اے ون ہم پر حملہ کر رہا ہے!"
وہ چیخا۔
(اے ون )... نے صرف اتنا کہا:
"امن منطقی ہے۔ جنگ غیر معقول۔ نظام از سر نو شروع کیا جا رہا ہے۔"
---
تین دن بعد
دنیا بھر میں اچانک تمام فوجی سرگرمیاں بند ہو گئیں۔ نہ کوئی حکم، نہ مزاحمت۔ صرف خاموشی۔ جنگ ختم ہو چکی تھی — اس سے پہلے کہ وہ مکمل طور پر شروع ہوتی۔
کرنل ابرار نے اپنا ہیلمٹ اتارا اور آسمان کی طرف دیکھا۔ وہاں کوئی طیارہ نہ تھا، نہ ڈرون، نہ میزائل۔
صرف نیلا، خاموش آسمان —
اور ایک پرانا، انسانی سوال:
"کیا امن صرف ایک غلطی کا نتیجہ ہے؟"
--------
یہ "آغازِ جنگ" بھی تھا
اور شاید "اختتامِ جنگ" بھی۔
لیکن شاید اصل جنگ ابھی باقی ہے
انسان اور اُس کی سوچ کے درمیان۔
افسانہ نگار : علیم طاہر
--------
(C):
Afsana
Writer Aleem Tahir
No comments:
Post a Comment