Tuesday, 24 June 2025

تعارف علیم طاہر

 🌟 تعارفِ علیم طاہر – ایک ہمہ جہت فلمی،علمی،ادبی شخصیت 🌟

(فلمی مصنف، گیت کار، اداکار، ہدایت کار، اسکرپٹ رائٹر)


🎬 "فلم صرف روشنی، کیمرے اور ایکشن کا کھیل نہیں، احساس، زبان، تہذیب اور تخیل کا کارخانہ ہے۔ اور میں… اسی کارخانے کا ایک محنتی مزدور ہوں!"


میرا نام علیم طاہر ہے۔

میں مالیگاؤں (مہاراشٹر) سے تعلق رکھنے والا ایک تجربہ کار، تخلیقی اور جذبہ سے بھرپور فلمی شخص ہوں، جس نے گزشتہ 30 برس ادب، تھیٹر اور فلمی دنیا میں گزارے ہیں۔


---


🎥 فلمی سفر کی جھلکیاں 


"Super Boys of Malegaon" 

میں ڈائلیکٹ کنسلٹنٹ کی حیثیت سے آن اسکرین کریڈٹ۔


"مالیگاؤں کے شعلے" میں دھرمیندر (ویرو ) کا کردار نبھایا۔


مالیگاؤں ٹو دبئی، (پروڈیوسر اور اداکار)

 عورت، (شارٹ فلم )

چھوٹو سنجیو، (اداکار)

پھکری فیملی،( نیگیٹیو لیڈ کامیڈی ویلن ،اداکار)

 چھوٹو سنگھم تھری (لیڈ کریکٹر)

 جیسی فلموں اور شارٹ فلموں میں اداکاری۔


فلم پروڈیوسر کے طور پر کئی فلمیں بنائیں۔


🎼 نغمہ نگاری:


فلم: آج کا لاوارث – چھ گیتوں کے نغمہ نگار۔


فلم "ابھی تو رات ہے" – (مشہور نغمہ: "دیوانہ ہوا دیوانہ ہوا" اور اداکاری)


انوپ جلوٹا کا گایا ہوا بھجن: "توجو کرے آج وہی کل ہے جیون" بھی میرے قلم کی دین ہے۔


کئی مشہور البمز جیسے: آئی آئی دیوالی، "ان پہ سب اعتبار کرتے ہیں" البم میں نغمہ نگاری۔

مشہور "موسم" البم میں گیت نگاری ۔


🖋️ ادبی خدمات:


(20+ کتابیں شائع، جن میں شامل ہیں:)


01) عورت کچے کان کی (ناول)

02) علیم طاہر کے چھ ناولٹس (ناولٹس)


03) بلیک ہول (ناول)


04دستکوں کا موسم ( دستک سیریز پر پچاس افسانوں کا مجموعہ)


05) دنیا مسافر راستے (غزلیں/نظمیں/قطعات)


06) سر سنگم سنگیت (300 گیتوں کا مجموعہ)

07) شاعری موسیقی نغمگی ( کئی اصناف میں 300 گیتوں کا مجموعہ)

08) منظر پس منظر (مضامین)

09) میں سستا ہوں (غزلیں)

10) سوچ کینواس (غزلیں)

11) عشق رنگ موسم ( ہائیکو،ثلاثیاں)


12) خوابوں کی گاڑی (بچوں کا ادب)


13) صبح نکلتا وہ سورج (بچوں کی نظمیں)


14) انشائیوں کا ذائقہ (ادبی انشائیے)


📚 میری کئی کتابیں Rekhta.org پر بھی دستیاب ہیں۔


---


📖 شخصیت پر تحقیقی کتب:


15) . گیتوں کا شہزادہ: علیم طاہر _ از ڈاکٹر سیفی سرونجی


16) . علیم طاہر کے گیت کا نیا منظرنامہ _ از _  ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی


17) دستک پہ دستک (افسانوں کا مجموعہ)


18) نئے افسانے ( مشہور افسانہ نگاروں کا  افسانوی انتخاب)


19) نئے افسانچے (مشہور افسانچہ نگاروں کا  انتخاب )


20) خاموش چیخیں ( 300/افسانچوں کا مجموعہ)


🎓 تعلیم:


ٹریپل ایم اے (تاریخ،/ اردو،/ ہسٹری /تعلیم)


بی ایڈ، ایم ایڈ


جرنلزم ڈپلومہ


پی ایچ ڈی زیر تکمیل


🗣️ زبانیں: اردو، ہندی، انگریزی، مراٹھی, گجراتی ، فارسی ، عربی ۔


---


📣 اب میری خواہش ہے کہ میں ممبئی فلم انڈسٹری (بالی ووڈ) میں بطور اسکرپٹ رائٹر، نغمہ نگار یا اداکار اپنی خدمات پیش کروں۔

اگر آپ کسی فلمی پروجیکٹ، البم، ویب سیریز یا ڈرامہ کے لیے اصل اور دل کو چھو لینے والے مکالمے، گیت یا کہانی چاہتے ہیں، تو مجھے ضرور یاد کیجیے۔


📞 رابطہ: 9623327923

📧 ای میل: aleemtahir12@gmail.com

📍 مالیگاؤں، مہاراشٹر

🎬 دستیاب برائے: فلم، ٹی وی، او ٹی ٹی، اشتہار، ویب سیریز، نغمہ نگاری، ڈبنگ، اسکرپٹ


---


🌟 اپنے الفاظ میں کہوں تو:

"میں صرف لکھتا نہیں، ہر لفظ کو جیتا ہوں… اور کرداروں کو نبھاتا نہیں، ان کی روح میں اُتر جاتا ہوں!"

                      #علیم #طاہر# 


---


📌 


#AleemTahir #BollywoodWriter #SongLyricist #ScreenplayWriter

#UrduPoet #IndianCinema #MalegaonFilms #StoryTeller #LyricistOfIndia

#BollywoodOpportunity #MumbaiFilmIndustry #ScriptWriterIndia

#DirectorActorWriter #HindiCinemaTalent #CreativeArtistIndia

#OriginalScreenplay #OTTWriter #ContentCreatorIndia

#UrduWriterInBollywood #AalimTahirInMumbai #SuperBoysOfMalegaon

#RekhtaAuthor #FilmIndustryTalent #NewBollywoodVoice


https://www.facebook.com/share/v/1AkrdRoXTA/


---

#(#C)#:

#AleemTahir 

#Emailid: #aleemtahir12@gmail.com 

#Mobileno.#9623327923#.

________________________

Thursday, 19 June 2025

تخلیقاتِ علیم طاہر اور ادبِ ارشد مینا نگری

📚 تخلیقاتِ علیم طاہر

✍️ جدید اردو ادب کے نمائندہ شاعر، گیت کار، افسانہ نگار اور محقق


🔸 ریختہ پر دستیاب کتابیں:

  1. دنیا مسافر راستے (2004) – ریختہ پر پڑھیں
  2. منظر پس منظر (2011) – ریختہ پر پڑھیں
  3. سر سنگم سنگیت (2012) – ریختہ پر پڑھیں
  4. شاعری، موسیقی، نغمگی (2021) – ریختہ پر پڑھیں

📘 ادبِ ارشد مینا نگری

✍️ ہمہ جہت شاعر، اصنافِ سخن کے استاد، موضوعاتی شاعری کے علمبردار


🔸 ریختہ پر دستیاب شعری مجموعے:

  1. احساس (1999) — ریختہ پر پڑھیں
  2. عید (2010) — ریختہ پر پڑھیں
  3. ماں (2012) — ریختہ پر پڑھیں
  4. ابرِ نیسان (2014) — ریختہ پر پڑھیں
  5. نئے اُجالے – گیت و نظمیں (1999) — ریختہ پر پڑھیں
  6. دھرتی کے تارےریختہ پر پڑھیں
  7. سہروں کے چہرے (2011) — ریختہ پر پڑھیں

🔸 تحقیقی کتب / تنقیدی جائزے:


🔸 رسائل و جرائد میں گوشے:

--- t

Wednesday, 18 June 2025

بلیک ہول _علیم طاہر

 <h2 style="text-align: right;">📘 ناول: بلیک ہول</h2>

<h3 style="text-align: right;">✍️ ناول نگار: علیم طاہر</h3>


<p style="text-align: right;">

<img src="https://i.imgur.com/jGQHi7F.png" alt="Black Hole Cover" width="300" />

</p>


<p style="text-align: right; font-size: 16px;">

<strong>تعارف:</strong><br>

بلیک ہول ایک سائنسی، فلسفیانہ اور فکری ناول ہے جو قاری کو کائنات کے اسرار، وقت کے سفر، اور انسانی ذہن کے گہرے سوالات میں جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ناول صرف فلکیاتی سچائیوں کا بیان نہیں بلکہ انسان کی داخلی کائنات کا عکاس بھی ہے۔

</p>


<p style="text-align: right;">

📥 <a href="https://drive.google.com/file/d/1EoC3VD8sm0W1x7UNm5QL4fjXBX7rA0cd/view?usp=sharing" target="_blank"><strong>مکمل ناول ڈاؤنلوڈ کریں (PDF)</strong></a>

</p>


<hr>


<p style="text-align: center;">تمام حقوق علیم طاہر کے نام محفوظ ہیں ©</p>

ڈرامہ نمبر 02 آخری سکہ

ڈرامہ نمبر 02


اسٹیج ڈرامہ: آخری سکہ


تحریر (رائٹر): علیم طاہر


کردار:


رفیق – مرکزی کردار، عام سا نوجوان جس کے دل میں ہمدردی کی چنگاری ہے


بوڑھا فقیر – کمزور، بیمار، لیکن خوددار


ماں – رفیق کی پیار کرنے والی مگر فکرمند ماں


دوست / ساجد – رفیق کا بھائی یا دوست، حقیقت پسند


راوی – اسٹیج کے ایک کنارے موجود، گاہے بگاہے کہانی بیان کرتا ہے (علامتی کردار)


---


منظر اول: (گھر کا کمرہ، رات کا وقت)


(روشنی رفیق اور ماں پر پڑتی ہے۔ کمرہ سادہ سا ہے۔ ایک چارپائی، ایک لالٹین، اور ایک صندوق رکھا ہوا ہے۔ ماں سل رہی ہے، رفیق چپ بیٹھا کچھ سوچ رہا ہے۔)


ماں: (نرمی سے) بیٹا! تم نے ساری کمائی دوا پر لگا دی… اب کل کے خرچے کا کیا ہوگا؟


رفیق: (آہستہ سے) امّی… اگر کسی کا آخری سکہ اُس کی دوا بن سکتا ہے، تو اللہ ہمارا رزق کہیں اور سے لکھ دے گا۔


(روشنی مدھم ہو جاتی ہے)


---


منظر دوم: (گلی کا کونا، سرد رات، ہلکی روشنی)


(اسٹیج کے ایک طرف بوڑھا فقیر بیٹھا کھانس رہا ہے۔ دوسری طرف سے رفیق آتا ہے، ہاتھ میں ایک سکہ پکڑا ہے۔)


راوی (بیچ میں): یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے اندر کے سکے کو پہچانتا ہے…

نہ سونا، نہ چاندی…

صرف انسانی سکہ… محبت اور قربانی کا۔


رفیق: (آگے بڑھ کر) بابا… دوا لی آپ نے؟


فقیر: (کھانستے ہوئے) بیٹا… بھیک نہیں مانگتا، بس بیٹھا ہوں… بس سانس باقی ہے۔


رفیق: (سکہ آگے بڑھاتے ہوئے) یہ لے لیں… دوا خرید لیجیے… یہ صدقہ نہیں ہے… قرض ہے، انسانیت کا۔


(فقیر کی آنکھوں میں آنسو۔ رفیق خاموشی سے چلا جاتا ہے۔ روشنی مدھم ہوتی ہے۔)


---


منظر سوم: (کئی سال بعد، ایک اسکول کا ہال، بچے بیٹھے ہیں)


(اسٹیج پر رفیق اب بوڑھا ہو چکا ہے۔ بچوں کے سامنے کھڑا ہے۔ دیوار پر ایک بینر ہے: "انسانی سکہ فاؤنڈیشن")


رفیق: بچوں، زندگی میں جب تمہارے پاس کچھ نہ ہو… تو یاد رکھنا، تمہارے پاس کردار ضرور ہونا چاہیے۔


بچی: انکل… آپ نے کبھی سکہ بچایا؟


رفیق: (مسکرا کر) بچایا تھا… لیکن ایک دن خرچ کر دیا… کسی کی زندگی کے لیے…

اور وہی میرا اصل خزانہ بن گیا۔


---


آخری منظر: (روشنی اسٹیج کے بیچ میں، فقیر کا سایہ، رفیق کا سکہ چمکتا ہوا)


راوی (آخری جملہ):

"کبھی کبھی ایک سکہ… صرف سکہ نہیں ہوتا۔

وہ کسی کی امید، کسی کا کل، اور کسی کا بچا ہوا خواب بن جاتا ہے۔"


(پردہ گرتا ہے، ہلکی موسیقی – دل کو چھو لینے والی طرز)


---


ہدایت کار کے لیے نوٹ:


اسٹیج کی روشنی اور سادگی جذبات کو ابھارنے کے لیے کلیدی کردار ادا کریں گے۔


پس منظر میں ہلکی موسیقی، جیسے سیتار یا بانسری کا استعمال، مناظر کو روحانی اور خاموشی سے بھر دے گا۔


راوی کا کردار علامتی رکھا گیا ہے، جو اسٹیج پر چلتے وقت کبھی کبھار "ضمیر" کی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔


________________________________


ڈائریکشن پلان برائے اسٹیج ڈرامہ: آخری سکہ


تحریر: علیم طاہر


کل دورانیہ:


20-25 منٹ


منظر کی تقسیم:


1. منظر اوّل – گھر کا کمرہ


2. منظر دوم – گلی کا کونا


3. منظر سوم – اسکول / ہال


4. آخری منظر – علامتی اختتام


---


1. کاسٹنگ گائیڈ


---


2. اسٹیج سیٹ اپ


منظر اوّل (گھر کا کمرہ):


لکڑی کی چارپائی


ایک لالٹین


مٹی کا گھڑا


سلائی کرتی ماں


بائیں طرف رفیق کی نشست


منظر دوم (گلی کا کونا):


پس منظر میں دیوار کا حصہ (بوڑھے فقیر کے پیچھے)


زمین پر بوری یا چادر


سردی کا اثر دکھانے کے لیے لائٹنگ اور کوٹ


ہلکی نیلی روشنی (رات کی علامت)


منظر سوم (اسکول ہال):


بینر: "انسانی سکہ فاؤنڈیشن"


چند کرسیاں


بچے سامعین کی طرح اسٹیج پر بیٹھے


لکڑی کا اسٹینڈ یا مائیک


آخری منظر (علامتی):


فقیر اور رفیق کا سایہ پردے پر


سکہ روشنی میں چمکتا ہوا دکھایا جائے (بیک لائٹ یا پروجیکشن سے)


---


3. لائٹنگ پلان


---


4. موسیقی اور ساؤنڈ ایفیکٹس


منظر بدلنے پر: بانسری یا سیتار کا ہلکا میوزک


سکہ دینے کے وقت: نرم دھیمی طرز (مثلاً رباب یا پیانو کا ایک نوٹ)


اختتام پر: دھیما روحانی ساز، جیسے 'سرود' یا 'بانسری'، جو جذبات کو ابھارے


---


5. کاسٹیومز


رفیق: سادہ کُرتا پاجامہ، بعد میں ایک پرانا شال یا مفلر (بوڑھے رفیق کے لیے)


ماں: کاٹن کی ساڑھی یا چادر، سادگی نمایاں ہو


فقیر: مٹیالے کپڑے، چادر یا لحاف، پاؤں ننگے یا پرانے جوتے


راوی: مکمل سیاہ لباس یا گاؤن، سنجیدہ چہرہ


---


6. اسٹیج ٹیکنیکل ٹیم کے لیے ہدایات


Props بروقت تبدیل کریں


Sound operator راوی کے مکالموں کے ساتھ نرم پس منظر موسیقی شامل کرے


Light controller ہر منظر میں جذباتی تناؤ کے مطابق لائٹنگ بدلے


Stage manager تمام منتقلیاں (سیٹ، کاسٹ، پروپس) بغیر وقفے کے انجام دے


---


7. اختتامی ہدایت


ڈرامہ کے آخر میں تمام اداکار سٹیج پر آ کر جھک کر تعظیم پیش کریں


راوی آخری جملہ مکمل کرے تو سکہ کی چمک اور ہلکی روشنی میں پردہ گرے


ناظرین کی خاموشی چند لمحوں تک برقرار رکھنا… اس ڈرامے کے اثر کو گہرا کرتا ہے.


_____________________


ڈائریکشن پلان برائے اسٹیج ڈرامہ: آخری سکہ


تحریر: علیم طاہر


کل دورانیہ:


20-25 منٹ


منظر کی تقسیم:


1. منظر اوّل – گھر کا کمرہ


2. منظر دوم – گلی کا کونا


3. منظر سوم – اسکول / ہال


4. آخری منظر – علامتی اختتام


---


1. کاسٹنگ گائیڈ


---


2. اسٹیج سیٹ اپ


منظر اوّل (گھر کا کمرہ):


لکڑی کی چارپائی


ایک لالٹین


مٹی کا گھڑا


سلائی کرتی ماں


بائیں طرف رفیق کی نشست


منظر دوم (گلی کا کونا):


پس منظر میں دیوار کا حصہ (بوڑھے فقیر کے پیچھے)


زمین پر بوری یا چادر


سردی کا اثر دکھانے کے لیے لائٹنگ اور کوٹ


ہلکی نیلی روشنی (رات کی علامت)


منظر سوم (اسکول ہال):


بینر: "انسانی سکہ فاؤنڈیشن"


چند کرسیاں


بچے سامعین کی طرح اسٹیج پر بیٹھے


لکڑی کا اسٹینڈ یا مائیک


آخری منظر (علامتی):


فقیر اور رفیق کا سایہ پردے پر


سکہ روشنی میں چمکتا ہوا دکھایا جائے (بیک لائٹ یا پروجیکشن سے)


---


3. لائٹنگ پلان


---


4. موسیقی اور ساؤنڈ ایفیکٹس


منظر بدلنے پر: بانسری یا سیتار کا ہلکا میوزک


سکہ دینے کے وقت: نرم دھیمی طرز (مثلاً رباب یا پیانو کا ایک نوٹ)


اختتام پر: دھیما روحانی ساز، جیسے 'سرود' یا 'بانسری'، جو جذبات کو ابھارے


---


5. کاسٹیومز


رفیق: سادہ کُرتا پاجامہ، بعد میں ایک پرانا شال یا مفلر (بوڑھے رفیق کے لیے)


ماں: کاٹن کی ساڑھی یا چادر، سادگی نمایاں ہو


فقیر: مٹیالے کپڑے، چادر یا لحاف، پاؤں ننگے یا پرانے جوتے


راوی: مکمل سیاہ لباس یا گاؤن، سنجیدہ چہرہ


---


6. اسٹیج ٹیکنیکل ٹیم کے لیے ہدایات


Props بروقت تبدیل کریں


Sound operator راوی کے مکالموں کے ساتھ نرم پس منظر موسیقی شامل کرے


Light controller ہر منظر میں جذباتی تناؤ کے مطابق لائٹنگ بدلے


Stage manager تمام منتقلیاں (سیٹ، کاسٹ، پروپس) بغیر وقفے کے انجام دے


---


7. اختتامی ہدایت


ڈرامہ کے آخر میں تمام اداکار سٹیج پر آ کر جھک کر تعظیم پیش کریں


راوی آخری جملہ مکمل کرے تو سکہ کی چمک اور ہلکی روشنی میں پردہ گرے


ناظرین کی خاموشی چند لمحوں تک برقرار رکھنا… اس ڈرامے کے اثر کو گہرا کرتا ہے


____________


نوٹ:--( ڈرامہ اسٹیج کرنے والے ڈائریکٹرس اور فنکار رابطہ کر کے ڈرامہ اسٹیج پر پیش کر سکتے ہیں ۔)


(C):

Writer 

Aleem Tahir 

Email id aleemtahir12@gmail.com 

Mobile no.9623327923.

----------

ڈرامہ نمبر 05 پردے کے پیچھے

 ڈرامہ نمبر: 05

تمثیلی اسٹیج ڈرامہ: "پردے کے پیچھے"

ڈرامہ نگار: علیم طاہر

منظر: تعلیمی ادارے کی زوال پذیر فضا اور ایک معلم کا وقار

کردار:


1. زبیر سر (مرکزی کردار – معلم)



2. ناظم اسکول (اختیار پسند، ظاہری شخصیت)



3. رشیدہ (صفائی ملازمہ – خالص جذبے والی عورت)



4. عاطف (سابق طالبعلم، اب استاد)



5. طالبعلم، اساتذہ، مہمان، رکشہ ڈرائیور وغیرہ (معاون کردار)





---


پہلا منظر: زبیر سر کی پرانی کلاس


اسٹیج سیٹ:

بوسیدہ سا کلاس روم، کونے میں ایک بوسیدہ تختہ، میز، کرسی، دیوار پر علم کا جملہ۔ رشیدہ جھاڑو لگا رہی ہے۔


رشیدہ (جھاڑو لگاتے ہوئے):

کتنے برس ہوگئے، یہ کلاس روم آپ کے قدموں کی چاپ سے گونجتا تھا… اب تو جیسے خاموشی یہاں کا نصاب بن گئی ہے۔


زبیر سر (آہ بھرتے ہوئے):

رشیدہ… علم کوئی شور نہیں مچاتا… وہ تو بس وقت آنے پر بولتا ہے۔


(روشنی ہلکی ہوتی ہے، زبیر کی آنکھوں میں ماضی کی جھلک)



---


دوسرا منظر: ناظم کی آمد


ناظم (غصے سے داخل ہوتا ہے):

زبیر! تم پھر یہاں؟ اسکول تمہیں فارغ کر چکا ہے! تم اب استاد نہیں!


زبیر:

میں اگر استاد صرف تنخواہ سے ہوتا… تو آج طالبعلم بھی تاجر ہوتے۔

علم کا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا۔


ناظم (طنزیہ ہنسی):

دروازے بند ہو چکے ہیں… اب رستے بھی نہیں بچیں گے!



---


تیسرا منظر: عاطف کی آمد (اسکول کے باہر)


اسٹیج سیٹ:

سڑک، بینچ، درخت، زبیر سر رکشہ لے کر کھڑے ہیں۔


عاطف (حیرت سے):

سر! آپ؟ رکشہ چلا رہے ہیں؟

میرے بچے آج بھی آپ کا نام سن کر ادب سے کھڑے ہوتے ہیں!


زبیر (مسکراتے ہوئے):

بیٹا، جو علم سڑک پر بھی دیا جا سکے… وہی اصل سبق ہوتا ہے۔


(روشنی مدھم ہوتی ہے، عاطف زبیر کا ہاتھ چوم لیتا ہے)



---


چوتھا منظر: تعلیمی سیمینار میں زبیر کی واپسی


اسٹیج سیٹ:

اسٹیج، ڈائس، بینر: "استادِ وقت کانفرنس"

ناظم سٹیج پر ہے، مہمان موجود۔


ناظم:

ہمیں فخر ہے کہ آج ہم ایک ایسے شخص کو مدعو کر رہے ہیں، جنہوں نے علم کو رکشے کی گھنٹی میں بھی زندہ رکھا۔


زبیر (ڈائس پر آکر):

میں پردے کے پیچھے تھا… مگر علم کو کبھی پردہ نہیں دیا۔

(وقفہ)

رشیدہ نے جھاڑو سے میرے خواب بچائے، عاطف نے میری محنت کو زندہ رکھا…

اور میں؟

میں اب بھی استاد ہوں… کیونکہ میرے طالبعلم آج بھی سبق دہرا رہے ہیں۔



---


آخری منظر: رشیدہ کی واپسی


رشیدہ (ہال میں داخل ہو کر):

سر جی… آپ کے لفظوں نے سب کے دل صاف کر دیے…

آج جھاڑو نہیں لائی… آنکھیں لائی ہوں… جو نم ہیں، فخر سے۔


زبیر (مدھم روشنی میں):

رشیدہ… تم نے صفائی نہیں کی تھی… تم نے مجھے مٹنے نہیں دیا تھا۔


(تمام کردار اسٹیج پر آکر جھک جاتے ہیں، زبیر سر مرکز میں)



---


پردہ گرتا ہے


پس پردہ نغمہ (لائیو یا ریکارڈڈ):

"استاد ہے وہ روشنی، جو اندھیروں میں بھی جگمگاتی ہے…

جو تختی نہ ہو، تو بھی درس دیتی جاتی ہے…"

ڈرامہ نمبر04بارش کی خوشبو

 ڈرامہ نمبر:04:

اسٹیج ڈرامہ:" بارش کی خوشبو"


تحریر: علیم طاہر

اقسام: یک بابی اسٹیج ڈرامہ

دورانیہ: تقریباً 45 سے 60 منٹ


---


کردار (Cast):


حنین – مرکزی نسوانی کردار، حساس اور جذباتی


آریش – مرکزی مرد کردار، فنکار مزاج اور رومانوی


نسرین – حنین کی سہیلی


ابّو – حنین کے والد (صرف ایک منظر میں)


کافی ہاؤس کا ویٹر – پس منظر میں


بچپن کی حنین (خاموش کردار) – ایک منظر میں


بچپن کا آریش (خاموش کردار) – ایک منظر میں


---


منظر 01: [اسٹیج کی تقسیم: بائیں جانب حنین کا صحن، دائیں جانب کافی ہاؤس کا سیٹ]


(روشنی مدھم، پس منظر میں بارش کی آواز اور پرانی ساز کی ہلکی دھن۔ اسٹیج کے بائیں جانب ایک پرانا صندوق، ایک کھڑکی اور کونے میں جھومتا سا پودا۔ دائیں جانب ایک کافی ہاؤس کی میز اور دو کرسیوں کا سیٹ۔)


حنین (صحن میں بیٹھی، بارش کو تکتی ہوئی):

(نرّاٹیو انداز میں)

"بارش کی بوندیں جب زمین سے ٹکراتی ہیں تو بس خوشبو نہیں آتی… کچھ یادیں بھی جاگ جاتی ہیں… جیسے کوئی پرانا خواب دروازہ کھٹکھٹاتا ہے…"


(روشنی دائیں جانب جاتی ہے — کافی ہاؤس پر)


آریش (کرسی پر بیٹھا، کافی کے مگ سے بھاپ اٹھتی ہے):

"فن، محبت سے جنم لیتا ہے… اور اگر محبت بچھڑ جائے تو فن، ایک آہ بن جاتا ہے…"


(پس منظر میں موسیقی مدھم ہو جاتی ہے۔ روشنی کم، منظر ختم ہوتا ہے)


---


منظر 02: [فلیش بیک - بچپن کی یادیں]


(اسٹیج پر دھند کی روشنی، بیک اسکرین پر سلائیڈ شو یا پردے پر بارش اور پرانے گھر کا منظر۔ بچپن کی حنین اور آریش جھولے پر بیٹھے ہیں)


بچپن کی حنین:

"بارش میں کھیلنا اچھا لگتا ہے، نا؟"


بچپن کا آریش:

"ہاں… لیکن اگر بھیگ گئے تو ماں ڈانٹیں گی…"


(دھند چھا جاتی ہے، روشنی بجھتی ہے، حنین کی آواز پسِ پردہ گونجتی ہے)


حنین (پس منظر):

"اور پھر… ہم بڑے ہو گئے… خواب چھوٹے پڑ گئے…"


---


منظر 03: [کافی ہاؤس – موجودہ وقت]


حنین اور آریش آمنے سامنے بیٹھے ہیں، دونوں خاموش

(تھوڑی دیر تک صرف کافی کی آواز، چمچ کی کھنک)


آریش:

"بارش میں تم کچھ زیادہ خوبصورت لگتی ہو۔"


حنین:

"بارش ہر چیز دھو دیتی ہے… شاید پرانی ناراضیاں بھی۔"


آریش:

"کیا ہم… وہ پرانی محبت پھر سے لکھ سکتے ہیں؟"


حنین:

"تم لکھتے رہنا… میں پڑھتی رہوں گی۔"


---


منظر 04: [حنین کا صحن – اختتامی منظر]


(بارش ہو رہی ہے، آریش ہاتھ میں پرانا صندوق لیے داخل ہوتا ہے، بھیگا ہوا)


آریش:

"تم نے کہا تھا، خوشبو لوٹ آئے تو شاید میں بھی…"


(وہ صندوق کھولتا ہے، اندر سے ایک انگوٹھی نکالتا ہے)


آریش (گھٹنوں پر):

"حنین… کیا تم بارش کی خوشبو بن کر میری زندگی میں ہمیشہ بھیگتی رہو گی؟"


حنین (نم آنکھوں سے):

"اگر یہ خواب ہے… تو مجھے کبھی نہ جگانا…"


(پسِ پردہ گیت بجتا ہے: "بارش کی خوشبو میں تم ہو…")


پردہ گرتا ہے


اسٹیج ڈائریکشنز: بارش کی خوشبو


تحریر: علیم طاہر


---


منظر 01: حنین کا صحن اور کافی ہاؤس (دہرا اسٹیج)


اسٹیج سیٹنگ:


اسٹیج کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے:

بائیں طرف: حنین کا گھر، خاص طور پر صحن

دائیں طرف: جدید کافی ہاؤس کا ماحول


حنین کا صحن:


پرانی کھڑکی، لٹکتا ہوا پرانا پودا، لکڑی کا جھولا، مٹی کے گملے


ایک طرف پرانا صندوق، جس پر حنین اکثر بیٹھی ہوتی ہے


جھومتے درخت کی پروجیکشن (بیک ڈراپ)


کافی ہاؤس:


دو کرسیوں والی میز، ایک ویٹر کے لیے داخلی راستہ


بیک ڈراپ پر کافی شاپ کا بورڈ، خالی میزیں، ایک روشنی کا پینڈنٹ لیمپ


روشنی (Lighting):


بارش کا اثر دینے کے لیے نیلے اور سفید مدھم روشنی


جب کوئی کردار یادوں میں جائے، تو فلٹرڈ اسپاٹ لائٹ


کافی ہاؤس میں گرم، ہلکی نارنجی روشنی


آوازیں (Sound):


بارش کی ہلکی مگر مسلسل آواز


کافی کپ کی کھنک، برتنوں کی ہلکی آواز


فلیش بیک میں پرندوں کی آواز، جھولے کی چرچراہٹ


حرکات و سکنات:


حنین کبھی جھولے پر بیٹھتی ہے، کبھی کھڑکی سے بارش دیکھتی ہے


آریش کافی کا مگ تھامے، ٹکٹکی باندھے حنین کو دیکھتا ہے


دونوں کرداروں کے درمیان خامشیوں کو اداکاری سے بھرنا ضروری ہے: آنکھیں، ہاتھ، بدن کی جنبش


---


منظر 02: بچپن کی یادیں (فلیش بیک)


اسٹیج سیٹنگ:


دھند/اسموک مشین سے دھندلا منظر


پس منظر میں پروجیکشن کے ذریعے پرانے گھر کا صحن


لکڑی کا جھولا، سائیکل یا پانی سے بھری بالٹی رکھ دی جائے


روشنی:


سفید نیلی روشنی، مدھم اور خوابناک


دونوں بچوں پر الگ الگ اسپاٹ لائٹ


آواز:


پرندوں کی چہچہاہٹ


بارش کے قطروں کی آواز، مٹی کی خوشبو کا احساس


بچوں کی ہنسی پس منظر میں


حرکات و سکنات:


بچپن کی حنین اور آریش جھولے پر بیٹھے کھیل رہے ہیں


کبھی پانی اچھالتے ہیں، کبھی جھومتے ہیں


جب روشنی مدھم ہو، بچے آہستہ آہستہ اسٹیج سے غائب ہو جائیں


---


منظر 03: کافی ہاؤس (حال کا وقت)


روشنی:


دونوں کرداروں پر اسپاٹ لائٹ


باقی اسٹیج اندھیرے میں


صرف میز پر لیمپ کی مدھم روشنی


آواز:


برتنوں کی ہلکی آواز، کاؤنٹر پر کافی بنانے کی آوازیں


کچھ دیر مکمل خاموشی


بیک گراؤنڈ میں مدھم پیانو کی دھن


حرکات:


دونوں کرسیوں پر نیم جُھکے انداز میں


چمچ کافی میں گھمانا، تھوڑا سا کپ سے بھاپ لینا


ہاتھوں کی جنبش، نظریں ملنا اور بچانا


---


منظر 04: اختتامیہ – بارش میں وصال


اسٹیج سیٹنگ:


اسٹیج پر صرف حنین کا صحن


بارش کے قطروں کا پروجیکشن


کچے راستے کا خاکہ، دروازے پر دستک کی آواز


روشنی:


آریش کے داخل ہوتے وقت اوپر سے سفید روشنی


جب وہ جھک کر انگوٹھی نکالتا ہے، تو ہلکی طلائی روشنی


اختتام پر دونوں پر ایک ہی اسپاٹ لائٹ جو رفتہ رفتہ مدھم ہو جائے


آواز:


بارش کے ساتھ ساتھ ہلکی رومانی موسیقی


پس پردہ آواز: "بارش کی خوشبو میں تم ہو…" (بطور نظم یا گیت)


حرکات و جذبات:


آریش کا جھکنا، انگوٹھی پیش کرنا


حنین کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنا


دونوں کا ہاتھ تھامنا


پردہ گرنے سے قبل ایک معانقہ یا خاموش وصال


---


(C): 

Writer 

Aleem Tahir 

Email id aleemtahir12@gmail.com 

Mobile no.9623327923.

----

افسانہ نمبر 26 ایک چھت کے نیچے

  افسانہ لکھتے ہوئے مجھ میں محدود زندگی میں زندگی کا حق ادا کرنے کا احساس مزید شدت اختیار کرنے لگا تھا۔ )


افسانہ نمبر:26 

عنوان: "ایک چھت کے نیچے"

✍️ افسانہ نگار: علیم طاہر


---


           بارش زوروں پر تھی۔ بادلوں کی گرج میں کچھ ایسا تھا گویا آسمان بھی زمین پر گرتے انسانی رشتوں کو سنوارنے کی فریاد کر رہا ہو۔ شہر کے اس پرانے محلے کی گلی میں پانی گھٹنوں تک آ چکا تھا۔ پرانی، جھکی چھتوں والے مکان قطار در قطار کھڑے تھے، جیسے وقت کے تھکے سپاہی، جو اب بھی اپنے اندر زندگی کا چراغ جلائے ہوئے تھے۔


یہ گلی خاص تھی۔ یہاں ایک چھت کے نیچے چار خاندان رہتے تھے —

پنڈت ہری نارائن، امام بشیر الدین، سردار بلونت سنگھ، اور پاسٹر میتھیو۔

چار مذاہب، چار تہذیبیں، مگر ایک دیوار پر ٹنگا کیلنڈر سب کے لیے ایک تھا۔


---


منظر اول: 


صبح کے وقت پنڈت ہری نارائن اپنے آنگن میں تلسی پر جل چڑھاتے، اتنے میں امام بشیر کی اذان کی آواز فضاء میں گھلتی۔ سردار بلونت سنگھ اخبار کی گڈی تھامے سب کے دروازے پر باری باری رکھتا، اور پاسٹر میتھیو بچوں کو اسکول چھوڑنے سے پہلے سب کے لیے "خدا کا فضل ہو" کی دعائیہ آواز لگاتا۔


زندگی عام تھی، اور ایک دوسرے کی موجودگی، محض عادت نہیں بلکہ ضرورت بن چکی تھی۔


---


منظر دوم: 


         اس دن آسمان پر صرف بادل ہی نہیں چھائے تھے، کچھ خبروں کے کالے سائے بھی اتر آئے تھے۔ شہر میں مذہبی اشتعال کی لہر چل نکلی۔ جلوس، نعرے، شکوے، اور افواہوں نے فضا میں زہر گھول دیا۔


محلے کے باہر ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ کسی نے چیخ کر کہا:

"اس گلی میں وہ سب رہتے ہیں، ایک ساتھ؟ انہی کی وجہ سے شہر خراب ہوا ہے!"


خطرے کی بو سب نے محسوس کی۔


---


منظر سوم:


          سردار بلونت سنگھ نے سب کو اپنے کمرے میں بلایا۔

"ہمیں اب ثابت کرنا ہے کہ ہمارا ایمان مذہب سے نہیں، انسانیت سے جُڑا ہے۔"


پنڈت ہری نارائن بولے، "اگر ہمارا ساتھ ٹوٹا، تو یہ محلہ نہیں، انسانیت بکھر جائے گی۔"


امام بشیر بول اٹھے، "ہم نے مل کر بچوں کی شادیاں کیں، عید، دیوالی، بیساکھی، اور کرسمس منائے... اب یہ دیوار اگر گرتی ہے تو ہم سب نیچے آئیں گے، یا سب مل کر اسے تھامیں گے؟"


پاسٹر میتھیو نے ہاتھ جوڑ کر کہا،

"ہمیں اب روشنی بننا ہوگا، ورنہ اندھیرے جیت جائیں گے۔"


---


منظر چہارم:


          محلے کے باہر ایک مشعل بردار ہجوم آ چکا تھا۔ شور بڑھتا جا رہا تھا۔ مگر اسی وقت اس پرانی چھت کے نیچے سے چاروں بزرگ باہر آئے — ہاتھوں میں مذہبی کتابیں، دل میں محبت۔


انہوں نے ایک ہی جملہ بولا:


"یہ گلی صرف انسانوں کی ہے، نفرت کی نہیں۔ ہم الگ مذہب کے سہی، مگر ایک درد، ایک امید، ایک وطن کے وارث ہیں۔"


ہجوم کا شور کچھ دیر کو رک گیا۔ پھر اچانک کچھ بزرگ، نوجوان، خواتین — سب گھروں سے نکل آئے۔ کسی کے ہاتھ میں گیتا، کسی کے پاس قرآن، کوئی گرنتھ صاحب سنبھالے، تو کوئی بائبل تھامے۔

ایک انسانیت کی قطار بن گئی۔ دیوارِ نفرت اس روشنی سے پگھل گئی۔


--


بارش تھم چکی تھی۔ آنگن میں پانی اب بھی تھا، مگر اب وہ دھوپ کی پہلی کرن سے چمک رہا تھا۔


ایک چھت کے نیچے، چاروں خاندانوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی —

جہاں محبت کا مذہب سب سے بڑا تھا، اور دلوں کا خدا سب سے عظیم۔


---


بارش تو تھم گئی تھی، مگر جو نمی در و دیوار میں بس گئی تھی، وہ راتوں تک سسکیوں کی طرح رستی رہی۔ اس روز کے بعد محلے کی فضا اور بھی پرسکون ہو گئی تھی، جیسے انسانیت نے وقت کو روک کر ایک نیا سانس دیا ہو۔ مگر سکون کا ایک عجب پہلو بھی ہوتا ہے— وہ اکثر کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔


صبح کے وقت امام بشیر دروازے پر کھڑے اذان دے رہے تھے، ان کی آواز میں وہی مٹھاس تھی جو کبھی اُن کے مرحوم والد کی آواز میں ہوتی تھی۔ پنڈت ہری نارائن دھیان لگائے بیٹھے تھے، پاسٹر میتھیو اپنی پناہ گاہ میں بچوں کو بائبل کی کہانیاں سناتے ہوئے مسکرا رہے تھے اور سردار بلونت سنگھ سب کے لیے ناشتہ بنا رہے تھے — پراٹھے، ابلے انڈے، اور چائے۔ سب کچھ معمول پر تھا، مگر دلوں میں ایک نئی احتیاط نے جنم لیا تھا۔


اسی دن ایک اجنبی خاندان اس محلے میں کرائے پر آیا۔ میاں بیوی، اور ان کا سات سالہ بیٹا۔ چہرے سے وہ بہت تھکے اور بیزار لگتے تھے۔ ان کے آنے کی خبر سب تک پہنچی، اور سب نے ان کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔


پہلی دستک امام بشیر نے دی۔ دروازہ کھلا تو سامنے کمزور سی عورت اور ایک گھبرایا ہوا بچہ کھڑا تھا۔ پیچھے سے مرد بھی آ گیا، جس نے شکریہ کے بجائے محض سر ہلا دیا۔ کچھ ایسا تھا ان کی آنکھوں میں کہ بشیر صاحب نے صرف دعا دی اور پلٹ آئے۔


شام کو سردار بلونت سنگھ چائے کا تھرمس لے کر پہنچے۔ دروازہ کھلا، اور اس بار مرد نے کچھ نرمی سے بات کی۔ "ہم ابھی بس تھوڑا وقت چاہتے ہیں، سب کچھ بھول جانا ہے…" بلونت سنگھ نے تھرمس تھما کر صرف اتنا کہا، "یہ گلی بھولنے کی نہیں، اپنوں کو پانے کی جگہ ہے۔"


کئی دن گزر گئے۔ وہ خاندان زیادہ باہر نہ نکلتا، نہ کسی سے میل جول کرتا۔ پھر ایک دن ان کا بیٹا اچانک محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ اس کا نام روہن تھا، مگر جب اس نے "اللہ حافظ" کہہ کر امام بشیر کے پوتے سے رخصت لی، تو بہت سے دروازوں پر سوالات کھل گئے۔


اگلے دن وہی بچہ پنڈت ہری نارائن کے ساتھ آرتی میں شامل ہو گیا، اور شام کو پاسٹر میتھیو کی دعا میں "آمین" بھی کہی۔ سردار بلونت سنگھ کے ساتھ اس نے گردوارے کی سیوا میں بھی حصہ لیا۔ یہ منظر اس محلے کے لیے نیا نہ تھا، لیکن اس بچے کے والد کے لیے ضرور تھا، جو اکثر اپنی کھڑکی سے اسے یہ سب کرتے دیکھتا اور کچھ دیر بعد چہرہ پھیر لیتا۔


آخر ایک دن، جب پورے محلے نے مل کر یتیم بچوں کے لیے فنڈ اکٹھا کیا، اس اجنبی شخص نے خود آ کر چندہ دیا۔ سب نے خوش دلی سے استقبال کیا، مگر پاسٹر میتھیو نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اور کہا، "محبت کے دروازے بند نہیں ہوتے، بس کبھی کبھی دل دیر سے کھلتے ہیں۔"


وہ شخص پہلی بار کھل کر مسکرایا۔


اس کے بعد وہ محلے کے سبھی تہواروں میں شریک ہونے لگا۔ عید کے دن امام بشیر کے ساتھ شیر خرما کھایا، دیوالی کی شام پنڈت ہری نارائن کے ساتھ چراغاں کیا، بيساکھی پر سردار بلونت سنگھ کے ساتھ بھنگڑا ڈالا، اور کرسمس کی رات پاسٹر میتھیو کے ساتھ گرجا گھر گیا۔


محلے میں ایک نئی کہانی رقم ہو چکی تھی۔

کہیں مذہب کی پہچان تھی، کہیں انسان کی۔

مگر سب کچھ ایک چھت کے نیچے ہو رہا تھا…

جہاں دیواریں صرف اینٹ کی ہوتی تھیں، دل کی نہیں۔


     مذہب الگ ہو سکتے ہیں، انسانیت نہیں۔ اتحاد وہ چراغ ہے، جو ہر اندھیرے میں روشنی کرتا ہے — بس اُسے بجھنے نہ دو۔


_____


                   وقت تھم نہیں جاتا، چاہے دل چاہے یا نہیں۔


سالوں کا سفر پلک جھپکتے بیت گیا۔ محلے کے بچے جوان ہو چکے تھے۔ امام بشیر کا پوتا زید اب ایک مقامی اسپتال میں ڈاکٹر بن چکا تھا، پنڈت ہری نارائن کی پوتی سمیرا ایک اسکول میں تاریخ پڑھاتی تھی، سردار بلونت سنگھ کا پوتا ارجن اب ایک پولیس آفیسر تھا اور پاسٹر میتھیو کا نواسا ڈینیل بیرونِ ملک سے تعلیم مکمل کر کے واپس آ گیا تھا۔ اور وہ بچہ… روہن… جو کبھی خاموش سا آیا تھا، آج شہر کے سب سے کامیاب سوشل میڈیا چینل کا رپورٹر تھا، جو 'امن کی آواز' کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔


ان سب کی دوستی وقت کے ہر طوفان سے گزری، مگر بکھری نہیں۔


محلہ بھی بدل گیا تھا۔ اب وہاں رنگین دیواروں والے مکان تھے، لیکن دل اب بھی پرانی چھتوں جیسے تھے — کھلے، وسیع، سب کو سایہ دینے والے۔


ایک دن شہر میں مذہبی فساد کی آگ بھڑکی۔ باہر نفرت کے نعرے تھے، اندر خوف کا بسیرا۔ لیکن محلہ "سرسوتی لین" اب بھی اپنی کہانی کا وہی باب دہرا رہا تھا… محبت کا، میل ملاپ کا، انسانیت کا۔


زید زخمیوں کا علاج کر رہا تھا، سمیرا بچوں کو پناہ دے رہی تھی، ارجن فساد روکنے میں مصروف تھا، ڈینیل امن کی دعائیں بانٹ رہا تھا اور روہن ہر منظر کو کیمرے میں قید کر کے دنیا کو دکھا رہا تھا کہ "یہ ہے ہندوستان، جہاں دل مذہب سے نہیں، محبت سے دھڑکتے ہیں۔"


اس دن ان سب نے مل کر میڈیا پر ایک پیغام دیا:

"ہم ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی نہیں… ہم انسان ہیں۔ اور یہ محلہ صرف پتھروں سے نہیں، جذبوں سے بنا ہے۔"


یہ پیغام جنگل کی آگ کی طرح پھیلا۔ پورے شہر میں ان کا محلہ "امن نگر" کے نام سے مشہور ہو گیا۔ وہ علاقہ جسے کبھی فرقہ واریت کے خطرات ڈسنے کو آتے تھے، آج محبت کی مشعل جلانے لگا۔


روہن نے ایک دستاویزی فلم بنائی – "ایک چھت کے نیچے"۔

اس فلم کو ایوارڈز تو ملے ہی، مگر اس سے بڑھ کر…

اس نے بے شمار لوگوں کے دلوں کو بدل دیا۔


کلائمکس میں نہ کوئی المیہ تھا، نہ کوئی قربانی۔

صرف ایک سچ تھا —

“انسانیت جب بولتی ہے، تو مذہب خاموشی سے سر جھکا دیتا ہے۔”


افسانہ ختم نہیں ہوا…

بس ایک چراغ جل گیا…

اور چراغ کہانیاں نہیں لکھتے، وہ راہیں روشن کرتے ہیں۔


افسانہ نگار ✍️: علیم طاہر

_______

(افسانہ پسند آئے تو شیئر کیجئے ۔)


(C):

Afsana 

Ek chat  ke neeche 

By 

Aleem Tahir 

Email id aleemtahir12@gmail.com.

-----

ڈرامہ نمبر 03 ریڈیو ڈراما اسکرپٹ اسٹرگلرس اڈا

 

ڈرامہ نمبر: 03


ریڈیو ڈراما اسکرپٹ


عنوان: اسٹرگلرس اڈا


افسانہ نگار: علیم طاہر


ریڈیو اسکرپٹ رائٹر: علیم طاہر 


---------------


         [اوپننگ میوزک – نرم سا بولی ووڈ طرز کا انسٹرومنٹل، جو خوابوں کے شہر کی جھلک دے]


نیریٹر (آہستہ اور پراثر لہجہ):

ممبئی… ایک ایسا شہر جہاں خواب بُنتے ہیں… اور بکھرتے بھی۔ ہر چہرہ… ایک کہانی، ہر نظر… ایک امید۔

اسی شہر کے دل میں واقع ہے — شانتی نگر کا ایک ہوٹل، جسے سب جانتے ہیں اسٹرگلرس اڈا کے نام سے۔


[پس منظر میں ہوٹل کا ہلکا سا شور، برتنوں کی آوازیں، ہنسی کے قہقہے، ہلکی موسیقی]


نیریٹر:

یہ صرف ایک ہوٹل نہیں… ایک امید کا مرکز ہے۔

جہاں نوجوان فنکار آتے ہیں… اور اپنے خوابوں کو سانس دیتے ہیں۔

یہاں ہر چائے کے کپ کے ساتھ ایک کہانی، ہر سگریٹ کے کش کے ساتھ ایک فسانہ۔


[کمرے کی آواز، کرسی کھسکنے کی ہلکی آواز، گفتگو کی دھیمی گونج]


شلپا (سگریٹ کا کش لیتے ہوئے):

یہ وہی ہے نا؟ جس نے "گمنام سوسائٹی" میں چائے والے کا رول کیا تھا؟


آکاش (ہنستے ہوئے):

ہاں چرکٹ ماسٹر! بڑا مشہور ہوا تھا وہ سین۔


شلپا:

چاہو تو ابھی بلا لیتی ہوں۔


[قدموں کی آواز، چرکٹ ماسٹر کی آمد]


چرکٹ ماسٹر (خوش دلی سے):

نمستے بھائی لوگ!

شلپا جی نے بتایا، آکاش جی آپ فلم بنا رہے ہیں؟


آکاش:

جی، ایک نئی فلم پر کام شروع کرنے والا ہوں۔ رہنمائی کی تلاش میں ہوں۔


چرکٹ ماسٹر:

رہنمائی بھی ملے گی، اور شاید کوئی راستہ بھی نکل آئے۔


[کسی ٹیبل پر ہنسی کی آواز، ویٹر کی آواز میں آرڈر]


ویٹر:

دو پنیر پراٹھے، ایک پانی کی بوتل… اور سگریٹ کا پیکٹ۔


[ہوٹل میں ہلکی موسیقی – جاز طرز کی، خاموشی میں ایک وقفہ]


نیریٹر:

وہیں ایک کونے میں بیٹھے ہیں… وجو بھائی…

اصل نام وجے چوہان…

ایک بزنس مین، جو یہاں آ کر خوابوں کے ساتھ جیتے ہیں۔

سادگی میں چھپی بصیرت… اور آنکھوں میں چمکتی امید۔


آکاش (دھیرے سے):

شلپا، یہ بزرگ کون ہیں؟


شلپا:

بس، یہاں کے سب سے زیادہ پرانے "گاہک"… فلمی نہیں، لیکن دل سے ہم سب کے ساتھ۔


[ایک تھکی ہاری لڑکی کی آواز، پس منظر میں آہستہ ہنسی اور باتیں جاری]


لڑکی:

یہ کاسٹنگ ڈائریکٹرز بس خواب دکھاتے ہیں… موقع کوئی نہیں دیتا۔


توصیف:

ہم بھی یہی سوچتے تھے، پر اب عادت ہو گئی ہے۔


جابر:

ارے، وقت سب کا آتا ہے۔ ہمت نہ ہارو!


[اوور ہیڈ اسپیکر کی آواز: اسٹینڈ اپ کامیڈی شو کا اعلان]


اعلان:

پندرہ منٹ بعد، اوپری منزل پر اسٹینڈ اپ کامیڈی شو — جادھو جی کے ساتھ!

سب کے لیے مفت داخلہ!


[لوگوں کی چہل پہل، قدموں کی آواز، سیڑھیوں کی کھڑکھڑاہٹ]


نیریٹر:

سب اوپر جاتے ہیں…

ہنسی کی کچھ قسطیں، اور مایوسی کے کچھ لمحے، ایک ساتھ بانٹے جاتے ہیں۔


آکانشا (اداسی سے):

لگتا ہے… مرنے کے بعد ہی کچھ ہوگا…


شلپا (پیار سے):

ایسا نہ کہو… وقت سب کا آتا ہے۔


[خاموشی… اور پھر ایک مضبوط، مگر نرم آواز]


وجو بھائی (کھڑے ہو کر):

میں صرف وجو بھائی نہیں…

میں وجے چوہان ہوں — ایک بزنس مین۔

میں نے آپ سب کی آنکھوں میں وہ روشنی دیکھی ہے…

جس سے ایک فلم بن سکتی ہے۔

اور وہ فلم ہم سب مل کر بنائیں گے۔ بغیر باس، صرف شریک۔


[پَر امید موسیقی، جذباتی لمحہ، لوگوں کی سانسیں رکی ہوئی سی]


نیریٹر:

سب حیران…

پھر ماریا آتی ہے… نیلی ساڑھی، لیپ ٹاپ تھامے۔


ماریا:

یہ رہا پروجیکٹ… آپ سب اس کے شریک ہوں گے۔


[موسیقی کی شدت، گوگل سرچ کی ٹِک ٹِک، پھر ایک شور کی سی خوشی]


نیریٹر:

اور لیپ ٹاپ پر ابھرتا ہے وہ جملہ…

جو ان سب کی زندگیوں میں روشنی بن کر اُترتا ہے۔


ماریا (پڑھتی ہے):

"سب سَمے کا کھیل ہے…

سَمے پر یقین رکھو…

سَمے سب کا آتا ہے…"


[میوزک آہستہ ہوتا ہے، نیریٹر کی آخری آواز]


نیریٹر:

یہ تھا… اسٹرگلرس اڈا۔

ایک ایسی جگہ… جہاں امید زندہ ہے…

اور خواب… کبھی نہیں مرتے۔


[اختتامی میوزک – مدھم، خوابناک اور پُر امید دُھن]


________________________________


وائس اوور کاسٹ اور ہدایات


1. نیریٹر (Narrator):

آواز: مرد یا خاتون، نرم، جذباتی، شاعرانہ لہجہ

انداز: اداس، امید بھرا، وقفوں کے ساتھ گفتگو

مثال: نصیر الدین شاہ، یا رتی اگنی ہوتری جیسی آواز


---


2. شلپا (Struggler Actress):

آواز: نوجوان لڑکی، خواب دیکھنے والی، تھوڑا تھکی ہوئی مگر مضبوط

انداز: سگریٹ پینے والی، تجربہ کار مگر حساس


---


3. آکاش (نوجوان ہدایتکار):

آواز: نوجوان مرد، امید سے بھرپور، تھوڑا نروس مگر کریٹیو

انداز: درمیانی رفتار، گفتگو میں الجھن اور جستجو


---


4. چرکٹ ماسٹر (چھوٹے موٹے رول والا ایکٹر):

آواز: دلچسپ، نچلی طبقے کی زبان، گرمجوش لہجہ

انداز: ملنسار، فنی، بولی وڈ نقالی کے انداز میں


---


5. ویٹر:

آواز: معمولی اسٹاف، جلد باز، آسانی سے ایڈجسٹ ہو جانے والا

انداز: ہلکا مزاح، ایکسپریس ڈیلیوری


---


6. وجو بھائی (وجے چوہان):

آواز: سنجیدہ بزرگ، گہری، پراثر

انداز: وقار بھرا، سادگی میں گہرائی، آخر میں جذباتی جوش


---


7. آکانشا (مایوس اداکارہ):

آواز: حساس، اداس، نوجوان

انداز: دل شکستہ، شاعرانہ ٹون


---


8. توصیف / جابر (پس منظر کے جدوجہد کرنے والے):

آواز: ممبئی کے لہجے والے نوجوان، تھوڑے طنزیہ، مگر ساتھ دینے والے

انداز: فنی، مزاحیہ، حقیقت پسند


---


9. ماریا (پروجیکٹ مینجر):

آواز: پروفیشنل، پُراعتماد، جذباتی خاتون

انداز: تیز، مستعد، گرمجوش انداز


---


10. اسپیکر وائس / اعلان:

آواز: روبوٹک یا ڈیجیٹل انداز میں مردانہ

انداز: ایونٹ ایناؤنسمنٹ جیسا، جیسے کسی شو یا اسٹینڈ اپ کی اطلاع


---


آڈیو ساؤنڈ ایفیکٹس (SFX) & میوزک گائیڈ


---


ریکارڈنگ کے لیے مشورہ:


ہر کردار اپنی لائن ریکارڈ کرے اور وقفہ (pause) دے تاکہ ایڈیٹر آسانی سے جگہ بدل سکے۔


نیریٹر کی آواز میں "خاموشیاں" اور "جملوں کے بیچ تھوڑی دیر" لازمی رکھیں تاکہ جذبات ابھر سکیں۔


وجو بھائی کے "خطاب والے سین" میں بیک گراؤنڈ میوزک بہت مدھم بجائیں تاکہ آواز غالب رہے۔


اسٹوڈیو میں تین مائک استعمال کریں — ایک نیریٹر کے لیے، ایک مکالماتی کرداروں کے لیے، ایک ساؤنڈ ایفیکٹس کے لیے۔


________________________________


ریڈیو اسکرپٹ: اسٹرگلرس اڈا


مصنف: علیم طاہر

فارمیٹ: وائس ریکارڈنگ / ریڈیو ڈرامہ

دورانیہ: تقریباً 20-25 منٹ


---


[اوپننگ سین]


[SFX: ہلکی ہلکی بولی وڈ طرز کی انسٹرومنٹل میوزک، بیک گراؤنڈ میں ہلکی گفتگو اور چائے کی چسکیاں]


نیریٹر (نرم آواز میں):

یہ ممبئی ہے... خوابوں کی شہزادی... جہاں ہر گلی، ہر دیوار، ہر کھڑکی کسی نہ کسی جدوجوہد کی گواہ ہے۔

یہاں ایک ہوٹل ہے... کچھ پرانے اسٹول، کچھ دھندلے شیشے، اور کچھ تھکے ہوئے خواب...

اس ہوٹل کا نام کوئی نہیں جانتا... مگر ہر اسٹروگلر اسے "اسٹرگلرس اڈا" کہہ کر پکارتا ہے۔


---


[سین 2 – ہوٹل کے اندر]


[SFX: دروازے کی چرچراہٹ، قدموں کی آہٹ، چائے کی پیالی رکھے جانے کی آواز]


ویٹر:

شلپا جی، آپ کا اسپیشل چائے۔ بغیر شکر کے۔


شلپا (سگریٹ کا کش لیتے ہوئے):

تھینک یو راجو… تمھیں بھی یاد ہے میری چائے کی عادت؟


ویٹر (مسکرا کر):

یہاں سب کو یاد ہے… اسٹروگلرز کا ذائقہ چائے سے زیادہ خوابوں میں ہوتا ہے۔


---


[سین 3 – نوجوان ہدایتکار کا داخلہ]


[SFX: تیز قدموں کی آواز، کرسی گھسیٹنے کی آواز]


آکاش:

مجھے ایک نئی لڑکی چاہیے... چہرے پر وہ کرب ہو جو اسکرین سے باہر نکل آئے...


شلپا (سگریٹ کا کش لیتے ہوئے):

کرب صرف چہرے پر نہیں ہوتا... کبھی اندر بھی محسوس کر کے دیکھو...


---


[سین 4 – چرکٹ ماسٹر کا انٹری]


[SFX: ہلکی ہنسی، دروازے کی کھڑکھڑاہٹ]


چرکٹ ماسٹر:

سنو سنو... آج بھی آڈیشن میں "پولس والا" بن کے آیا تھا...

مگر لائن تھی صرف ایک: "چلو تھانے!"


توصیف (ہنستے ہوئے):

بس! اور دیالو ڈیریکٹر نے وہ بھی کاٹ دی ہوگی؟


چرکٹ ماسٹر:

نہیں بھائی... وہ تو بولے "ابھے تو ریئل لگتا ہے، تھانے میں ہی جا!"


---


[سین 5 – آکانشا کا منظر]


[SFX: ہوا کے جھونکے، دروازہ کھلنے کی آواز]


آکانشا (اداسی سے):

مجھے اپنا پتہ نہیں معلوم... میں شاید کسی ریجیکشن کی گلی میں رہتی ہوں...


شلپا (نرمی سے):

یہاں سب کی رہائش عارضی ہے... کوئی خواب میں رہتا ہے، کوئی ڈائلاگ میں...


---


[سین 6 – وجو بھائی کی آمد]


[SFX: اسٹک کی ٹک ٹک، خاموشی کا وقفہ، ہلکی بیک گراؤنڈ میوزک]


نیریٹر:

یہ وجو بھائی ہیں... اصل نام وجے چوہان۔ کبھی سائڈ رول کے بادشاہ تھے۔ اب... اسٹروگلرز کے استاد۔


وجو بھائی:

ہاں بچو... سنیما صرف کیمرے کی آنکھ نہیں دیکھتی...

اسے دل کا ویژن چاہیے... ورنہ ہر اسٹروگل صرف شکست ہے۔


---


[سین 7 – ان سب کی کہی ان کہی آوازیں]


[SFX: سب کردار ہلکے ہلکے بولتے ہیں، جیسے دھیما شور ہو]


شلپا (خود سے):

کیا کبھی کوئی رول... میرے نام کا بھی ہوگا؟


آکاش (نوٹس بک بند کرتے ہوئے):

کہانی میں درد کم ہے… چلو کسی اور اسٹروگلر سے ملتا ہوں۔


آکانشا (آنسو پونچھتے ہوئے):

ریجیکشن اب عادت بن چکی ہے…


---


[کلائمکس – وجو بھائی کا خطاب]


[SFX: خاموشی، میوزک تھوڑا بڑھتا ہے، وجو بھائی کی آواز گونجتی ہے]


وجو بھائی:

بچو... ایک دن، یہی ہوٹل کسی کی بائیوپک کا پہلا سین بنے گا۔

یہ اسٹروگلرس اڈا نہیں... یہ سنیما کا جنم استھان ہے!


---


[اختتامی منظر]


نیریٹر (پُرجوش مگر نرم انداز میں):

تو یاد رکھنا... اگر تم بھی کبھی ممبئی آؤ... اور ایک چائے، ایک خواب، اور ایک ڈائلاگ تمھارے پاس ہو...

تو "اسٹرگلرس اڈا" تمھارا ہے۔


[SFX: دھیرے دھیرے میوزک بلند ہوتا ہے اور fade out]


رابطہ مصنف : - علیم طاہر 

موبائل: 9623327923

________________________________


(C) Ragisterd:

Writer:

Aleem Tahir 

Email id aleemtahir12@gmail.com 

Mobile no. 9623327923.

-----------

Introduction of Aleem Tahir

 --

🌟 Introducing Aleem Tahir – A Versatile Film, Literary & Artistic Personality 🌟

(Film Writer, Lyricist, Actor, Director, Scriptwriter)


🎬 "Cinema is not merely about lights, cameras, and action. It is a factory of emotions, language, culture, and imagination. And I… am a humble laborer in that creative factory."


My name is Aleem Tahir,

I hail from Malegaon, Maharashtra, and I am a passionate, experienced, and creative film professional who has dedicated over 30 years of my life to the world of literature, theatre, and cinema.


---


🎥 Highlights of My Cinematic Journey:


"Super Boys of Malegaon" – On-screen credit as Dialect Consultant.


Played the iconic Veeru (Dharmendra) in "Malegaon Ke Sholay".


"Malegaon to Dubai" – Producer & Actor.


Acted in various films and short films including:


Aurat (Short Film)


Chhotu Sanjeev


Phakri Family (Negative Lead Comedy Villain)


Chhotu Singham 3 (Lead Character)


Produced multiple films independently.


---


🎼 As a Lyricist:


Wrote six songs for the film "Aaj Ka Lawaris"


Penned the famous song “Deewana Hua Deewana Hua” and also acted in the film “Abhi To Raat Hai”


Spiritual song “To Jo Kare Aaj Wahi Kal Hai Jeevan” sung by Anup Jalota is one of my creations


Albums: “Aayi Aayi Diwali”, “Un Pe Sab Aitbaar Karte Hain”, and “Mausam” (renowned song collections)


---


📚 Literary Contributions: (20+ Published Books)


1. Aurat Kachay Kaan Ki (Novel)


2. Six Novellettes by Aleem Tahir


3. Black Hole (Novel)


4. Dastakon Ka Mausam (50 stories in Dastak Series)


5. Duniya Musafir Raaste (Poems & Ghazals)


6. Sur Sangam Sangeet (300 song collection)


7. Shayari, Music, Melody (300 songs in various forms)


8. Manzar Pas Manzar (Essays)


9. Main Sasta Hoon (Ghazals)


10. Soch Canvas (Ghazals)


11. Ishq Rang Mausam (Haiku & Tercets)


12. Khawabon Ki Gaadi (Children’s Literature)


13. Subah Nikalta Woh Suraj (Children’s Poems)


14. Inshaiyon Ka Zaiqa (Humorous Essays)


Many of my books are also available on Rekhta.org.


---


📖 Books Written About Me:


15. Geeton Ka Shehzada: Aleem Tahir – by Dr. Saifi Sarwanji


16. A New Vision of Aleem Tahir’s Lyrics – by Dr. Manazir Aashiq Harganvi


17. Dastak Pe Dastak (Story Collection)


18. Naye Afsane (A selection of famous contemporary short stories)


19. Naye Afsanche (A collection of modern flash fiction)


20. Khamosh Cheekhein (300 flash fiction stories)


---


🎓 Education:


Triple M.A. – History, Urdu, Education


B.Ed., M.Ed.


Diploma in Journalism


Ph.D. in progress


🗣️ Languages Known:

Urdu, Hindi, English, Marathi, Gujarati, Persian, Arabic


---


📣 Now seeking opportunities in Mumbai Film Industry (Bollywood)

As a Scriptwriter, Lyricist, or Actor, I aim to contribute original, emotionally rich, and thought-provoking content.


If you are looking for authentic scripts, soulful songs, impactful dialogues, or creative direction for your film, album, web series, or drama, feel free to reach out.


📞 Contact: +91 9623327923

📧 Email: aleemtahir12@gmail.com

📍 Location: Malegaon, Maharashtra

🎬 Available for: Films, TV, OTT, Ads, Web Series, Lyrics, Dubbing, Scriptwriting


---


🌟 In my own words:

"I don't just write words—I live them. I don’t merely act—I dive into the soul of each character."


#AleemTahir #BollywoodWriter #SongLyricist #ScreenplayWriter

#UrduPoet #IndianCinema #MalegaonFilms #StoryTeller #LyricistOfIndia

#BollywoodOpportunity #MumbaiFilmIndustry #ScriptWriterIndia

#DirectorActorWriter #HindiCinemaTalent #CreativeArtistIndia

#OriginalScreenplay #OTTWriter #ContentCreatorIndia

#UrduWriterInBollywood #AalimTahirInMumbai #SuperBoysOfMalegaon

#RekhtaAuthor #FilmIndustryTalent #NewBollywoodVoice


🔗

ڈرامہ نمبر 01آخری سیٹی(ایک

 

ڈرامہ نمبر 01

آخری سیٹی

(ایک علامتی و تمثیلی ڈراما:  تین حصّوں پر مشتمل)


ڈرامہ نگار: علیم طاہر


تعارف:

جب زندگی کی ریل گاڑی پٹری سے اترنے لگے، تو کہیں نہ کہیں کوئی ایک سیٹی ایسی ضرور بجتی ہے جو ہمارے اندر کی خاموشی کو چونکا دیتی ہے۔

"آخری سیٹی" صرف ایک ڈراما نہیں، بلکہ ضمیر، بصیرت اور بدلتے سماجی اقدار کا مکالمہ ہے۔

یہ کہانی ہے وقت کے ایک ایسے پلیٹ فارم کی، جہاں ہم سب کبھی نہ کبھی اترتے ہیں، رکتے ہیں، سوچتے ہیں…

اور پھر… شاید… دوبارہ نہیں چلتے۔


اقتباس:


 "خاموشی کی آواز بہت گہری ہوتی ہے… بعض اوقات وہ ایک سیٹی بن کر سنائی دیتی ہے، جو وقت کا آخری اشارہ ہوتی ہے…"

-------


کیپشن:

زندگی کی ریل پر کبھی سوار ہو کر دیکھو، ہر اسٹیشن پر تمہارا کوئی نہ کوئی سایہ انتظار کرتا ہے…

پیش ہے ایک علامتی، فکری، اور جذباتی رنگوں سے سجا نیا ڈراما — آخری سیٹی

تحریر: علیم طاہر


ہیش ٹیگز:

#آخری_سیٹی #علیم_طاہر #اردوڈراما #علامتی_ادب #اردوادب #سوشیلسچ #تمثیلیڈرامہ #فکریادب #ڈراما_سیریز #ادبی_پوسٹ


------------


ڈرامے کا عنوان: آخری سیٹی


ڈراما نگار: علیم طاہر


کردار:


بابا جان (ریٹائرڈ ریلوے گارڈ، 75 سالہ)


سلمان (بابا جان کا پوتا، 20 سالہ طالب علم)


آمنہ (سلمان کی ماں، بابا جان کی بہو)


انور (محلے کا پرانا دوست، 80 سالہ)


ہانیہ (پڑوس کی بچی، 10 سالہ)


---


پَردہ اُٹھتا ہے۔


منظر: ایک پرانا سا گھر۔ صحن میں دھوپ اور بابا جان لکڑی کی کرسی پر ریلوے کی پرانی ٹوپی پہنے بیٹھے ہیں۔ ہاتھ میں سیٹی تھامی ہے۔ دیوار پر لٹکی ہوئی پرانی گھڑی مسلسل ٹک ٹک کر رہی ہے۔


بابا جان (خودکلامی میں)

"سیٹی بجی نہیں... اور گاڑی نکل گئی... زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے... مسافر رہ گئے، پلیٹ فارم خالی ہو گیا۔"


سلمان (داخل ہوتے ہوئے)

دادا جان! آپ پھر سے اُسی سیٹی کو لے کر بیٹھ گئے؟ اب وہ وقت گزر گیا۔ اب نہ وہ اسٹیشن، نہ وہ گارڈ، نہ وہ گاڑیاں۔


بابا جان (ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ)

"وقت تو پلیٹ فارم نمبر ایک سے چھوٹ گیا بیٹا... لیکن یادیں ابھی تک ویٹنگ روم میں بیٹھی ہیں۔"


آمنہ (کچن سے آواز دیتی ہے)

بابا جان! چائے تیار ہے، آج ہانیہ آئی ہے آپ سے ریلوے کے قصے سننے۔


ہانیہ (دوڑتی ہوئی آتی ہے)

بابا نانا! آپ نے ٹرین کبھی لیٹ کی تھی؟


بابا جان (ہنستے ہوئے)

"ارے نہیں بیٹی! میں وقت کا بڑا پابند گارڈ تھا۔ میرے ہاتھ کی سیٹی وقت پر بجتی تھی۔"


سلمان (طنزیہ انداز میں)

"بس سیٹی ہی بجتی تھی، زندگی تو لیٹ ہو گئی... دادا جان، آپ نے زندگی میں کچھ اور بھی سوچا تھا کبھی؟"


بابا جان (خاموشی سے سیٹی کو دیکھتے ہوئے)

"زندگی بھی ایک پلیٹ فارم ہے سلمان... ہر کوئی کسی نہ کسی گاڑی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے... کوئی ملازمت والی گاڑی، کوئی محبت والی، کوئی منزل والی... اور کبھی کبھی صرف آخری گاڑی۔"


انور (آہستہ آتے ہوئے)

"سیٹی بجی بابا جان؟ یا اب بھی ویٹنگ لسٹ میں ہو؟"


بابا جان (مسکرا کر)

"تمہاری دوستی والی گاڑی تو روز ہی آ جاتی ہے، انور بھائی۔"


انور

"پر منزل کا اسٹیشن ابھی آیا نہیں..."


سب خاموش ہو جاتے ہیں۔


آمنہ (چائے دیتے ہوئے)

بابا جان! آج اتنے خاموش کیوں ہیں؟


بابا جان (آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے)

"آج ریلوے نے ایک خط بھیجا ہے۔ ریٹائرمنٹ کا آخری پنشن... اور ساتھ لکھا ہے: آپ کی خدمات کا شکریہ۔"


سلمان (نرمی سے)

اور ہم آپ کو شکریہ کہنا بھول گئے دادا جان۔


ہانیہ

بابا نانا، آپ کی سیٹی مجھے دے دیں؟


بابا جان (نرمی سے سیٹی دیتے ہوئے)

"پکڑ لو بیٹی! جب کبھی وقت کی گاڑی چھوٹنے لگے، یہ سیٹی بجا دینا... شاید کوئی پلٹ آئے۔"


گھڑی کی سوئیاں بارہ پر آتی ہیں، ایک ہلکی سیٹی کی آواز، اور روشنی دھیرے دھیرے مدھم ہو جاتی ہے۔


---


پَردہ گرتا ہے۔


------


آخری سیٹی — حصہ دوم


ڈراما نگار: علیم طاہر


منظر:


دو مہینے بعد۔ بابا جان کا کمرہ ویران سا ہے۔ در و دیوار پر خاموشی کی تہیں چڑھی ہوئی ہیں۔ دیوار پر وہی گھڑی اب بند ہے۔ صحن میں ہانیہ خاموشی سے بیٹھ کر بابا جان کی دی ہوئی سیٹی کو دیکھ رہی ہے۔


---


سلمان (دھیرے سے داخل ہوتا ہے)

ہانیہ... تم یہاں اکیلی بیٹھی ہو؟


ہانیہ (نم آنکھوں سے)

سلمان بھائی... بابا نانا نے کہا تھا وقت کی گاڑی چھوٹنے لگے تو سیٹی بجا دینا۔ پر جب اُن کی زندگی کی گاڑی چھوٹی... میں کچھ نہ کر سکی۔


سلمان (اداس مسکراہٹ کے ساتھ)

بابا جان وقت کے پابند تھے، لیکن وقت نے اُنہیں مہلت نہ دی۔ پچھلے ہفتے جو خط آیا تھا... وہ ریلوے میوزیم والوں کی طرف سے تھا، اُنہوں نے بابا جان کی وردی، گھڑی، اور سیٹی مانگی ہے نمائش کے لیے۔


آمنہ (اندر سے آتی ہوئی)

پر میں نے سیٹی دینے سے انکار کر دیا۔


سلمان (حیرت سے)

کیوں ماں؟


آمنہ

کیونکہ وہ صرف دھات کی ایک سیٹی نہیں تھی... وہ بابا جان کی زندگی کا آخری جملہ تھی۔


---


منظر تبدیل ہوتا ہے۔

رات کا وقت۔ صحن میں بابا جان کی کرسی اب خالی ہے۔ ہانیہ، سیٹی لے کر کرسی پر بیٹھتی ہے۔


ہانیہ (خود سے)

بابا نانا... میں آپ کے قصے یاد رکھوں گی۔ آپ کا وقت، آپ کی گاڑیاں، آپ کی سیٹیاں، سب سنبھال کے رکھوں گی۔


اچانک صحن کے ایک کونے سے پرانا دوست انور آتا ہے۔ ہاتھ میں بابا جان کی ایک ڈائری ہے۔


انور

یہ لو بچی، یہ تمہارے بابا نانا کی ڈائری ہے۔ ہر صفحے پر ایک قسط، ایک قصہ، ایک سبق... یہ اُس شخص کی آخری ٹرین کی ٹکٹ ہے، جس نے زندگی بھر دوسروں کو وقت پر پہنچایا، مگر خود ہمیشہ آخری ویگن میں رہا۔


---


سلمان (ڈائری لیتے ہوئے)

ہم سب نے انہیں صرف ایک ریلوے گارڈ سمجھا... پر وہ زندگی کے فلسفی تھے، وقت کے محافظ۔


آمنہ (نرمی سے)

اور اب ہم سب اُن کے مسافر ہیں... جو اُن کی یاد کی پٹری پر سفر کر رہے ہیں۔


---


آخر میں

ہانیہ سیٹی بجاتی ہے۔ روشنی مدھم ہوتی ہے۔ پس منظر میں بابا جان کی آواز گونجتی ہے جیسے کسی خواب سے:


بابا جان (آواز میں)

"یاد رکھنا بچو... وقت کبھی لیٹ نہیں ہوتا، صرف ہم چھوٹ جاتے ہیں۔"


---


پَردہ گرتا ہے۔


________


آخری سیٹی — حصہ سوم (آخری باب)


ڈراما نگار: علیم طاہر


---


منظر:

بابا جان کا پرانا کمرہ۔ آمنہ، سلمان اور ہانیہ ایک چراغ کی روشنی میں بیٹھے ہیں۔ انور ایک پرانی جلد بند ڈائری کھول کر پڑھنے لگتا ہے۔


---


انور (پہلا ورق کھولتے ہوئے)

"17 مارچ، 1984 — آج ایک مسافر میرے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ اس کا بیٹا شہر کی کسی گاڑی میں چھوٹ گیا تھا۔ میں نے اپنا وقت روک دیا... اور اس کے لیے گاڑی رکوائی۔ زندگی میں پہلی بار اصول توڑا، لیکن دل کی آواز پر عمل کیا۔ اُس دن جانا... وقت کبھی صرف گھڑی کا پابند نہیں ہوتا، دل کا بھی ہوتا ہے۔"


آمنہ (نم آنکھوں سے)

یہ تو اُن دنوں کی بات ہے جب وہ صرف ایک کلرک تھے...


ہانیہ (دھیرے سے)

تو بابا نانا ہر دن اپنے دل کی ڈائری میں لکھتے رہے...


---


سلمان (دوسرا صفحہ پڑھتے ہوئے)

"5 اپریل، 1992 — میری بیٹی نے آج پہلی بار 'گاڑی' کا مطلب پوچھا۔ میں نے کہا، گاڑی وہی ہے جو تمہیں وقت پر تمہارے خوابوں تک پہنچا دے۔ اور میں... میں صرف ایک گارڈ نہیں ہوں، میں خوابوں کا نگراں ہوں۔"


آمنہ (مسکرا کر)

یہ صفحہ میرے لیے ہے۔


---


ہانیہ (ایک اور صفحہ کھول کر پڑھتی ہے)

"12 اگست، 2008 — میری پوتی ہانیہ نے پہلی بار سیٹی بجائی۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ میں نے اُس لمحے سوچا، یہ بچی میرے بعد بھی میری آواز بنے گی۔"


ہانیہ (روتے ہوئے)

بابا نانا... میں واقعی آپ کی سیٹی بنوں گی۔


---


انور (آخری ورق کھولتے ہوئے)

"میری ریٹائرمنٹ کا دن — میں نے زندگی کی آخری گاڑی کو الوداع کہا۔ پر میری اصل ٹرین تو ابھی چلی نہیں... میری یادیں، میری باتیں، میری گھڑی، میری سیٹی... سب میرے بعد بھی سفر کریں گی۔ اگر کوئی ان کو سن لے، سمجھ لے، تو میں مر کر بھی زندہ رہوں گا۔"


---


منظر بدلتا ہے —

ایک چھوٹا مقامی ریلوے میوزیم۔ دیوار پر بابا جان کی تصویر آویزاں ہے۔ نیچے اُن کی وردی، گھڑی اور سیٹی شیشے کے شوکیس میں رکھی ہے۔


ہانیہ (وزیٹرز کے سامنے خطاب کرتی ہے)

"میرے نانا جی وقت کے غلام نہیں، وقت کے استاد تھے۔ اُن کی زندگی نے ہمیں یہ سکھایا کہ وقت کو صرف ناپا نہیں جاتا... محسوس بھی کیا جاتا ہے۔ آج ان کی سیٹی، ان کی گھڑی، ان کا وقت... ہم سب کی امانت ہے۔"


---


آخری منظر:

شام ڈھل رہی ہے۔ ریلوے پٹری کے ساتھ ہانیہ کھڑی ہے۔ ایک چھوٹی بچی ہاتھ میں سیٹی لیے اُس کی طرف دیکھ رہی ہے۔


بچی:

"آپ نے یہ سیٹی بجائی تھی نا؟"


ہانیہ (نرمی سے ہنستے ہوئے)

"نہیں بیٹا... یہ سیٹی دراصل کسی اور کی ہے، جو اب بھی ہمیں وقت پر جگاتا ہے۔"


وہ سیٹی بچی کو تھما دیتی ہے۔

بچی سیٹی بجاتی ہے۔ دور کہیں سے ریل گاڑی کی آواز آتی ہے۔


---


بابا جان کی آواز (آخری بار پس منظر میں):

"سیٹی بجاؤ... وقت آ گیا ہے۔"


---


پَردہ گرتا ہے۔


-------


(C):

Writer 

Aleem Tahir 

Email id aleemtahir12@gmail.com 

Mobile no.9623327923.

------

افسانہ نمبر 29 خاموش پتنگ



افسانہ نمبر : 29 _ خاموش پتنگ


افسانہ نگار: علیم طاہر


         


            "پتنگ اگر ہار جائے، تو سمجھ لینا ہوا نہیں، یقین کمزور تھا۔"

یہ جملہ زریاب نے اُس وقت پہلی بار سنا تھا جب وہ صرف سات سال کی تھی، اور اُس کے دادا کی انگلی پکڑ کر چھت پر آسمان کو دیکھا کرتی تھی۔


دادا کی انگلی میں لرزش تھی، مگر ڈور مضبوط تھی۔

وہ بوڑھے ہاتھ ایک کاغذی پتنگ کو یوں تھامے ہوتے جیسے کسی خواب کی لگام ہو۔

دادا کہا کرتے،


 "پتنگ صرف کاغذ نہیں ہوتی... یہ وہ خواب ہے جو ہوا سے لڑنا سیکھتے ہیں۔"


زریاب کو تب یہ صرف ایک کھیل لگتا تھا۔

مگر زندگی، کھیل نہیں نکلی۔


---


          دادا کے انتقال کے بعد، زریاب کی دنیا میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔

چھت پر اب صرف خاموشی رہتی — وہی چھت، جہاں ہر اتوار کو رنگ برنگی پتنگیں دادا کے ہاتھوں آسمان چھوتی تھیں۔


ایک دن، دادا کی پرانی صندوقچی کھولتے ہوئے زریاب کو ایک کٹی ہوئی پتنگ ملی۔

پتنگ کا رنگ ماند پڑ چکا تھا، مگر اس پر ایک دھندلا سا جملہ لکھا تھا:


 "ہر پتنگ ایک وارث مانگتی ہے۔"


زریاب چونکی۔

کیا یہ جملہ اُس کے لیے تھا؟


اُس رات اُس نے پہلی بار ڈور کو چھوا۔

زخم لگے، انگلیاں کٹیں، لیکن اُس نے سیکھا —

پتنگ کیسے جیتتی ہے؟

ڈور سے نہیں، دل سے۔


---


            مہینوں کی مشق کے بعد، زریاب نے دادا کی پرانی مانجھی ہوئی ڈور سے ایک نئی پتنگ بنائی —

سفید، مگر اس پر رنگ برنگے خواب۔

پھیکی، مگر اُمید سے بھری۔


چھت پر آج بھی لوگ حیرت سے اسے دیکھتے تھے۔

"یہ وہی لڑکی ہے؟ دادا والی؟"

"کیا یہ اڑا پائے گی؟"


زریاب کی پتنگ اُڑنے لگی — آسمان میں ایک کچی امید کی طرح۔

ہوا مخالف تھی۔

راہمیر کی ٹیم "ہواباز" پوری قوت سے چھتوں پر چھائی ہوئی تھی۔


راہمیر، جو پتنگ بازی کو جنگ سمجھتا تھا، اور زریاب کو ایک مذاق۔


"یہ بچی؟ دادا کی وارث؟ ہاہ!"


زریاب نے بس دادا کی آواز سنی...


 "وقار سے اڑنے والا کبھی گرتا نہیں، زریاب۔"


---


         مقابلے کے دن آسمان رنگوں سے بھر گیا۔

زریاب کی پتنگ مخالف سمتوں سے گھری ہوئی تھی۔


تب اسے احساس ہوا —

ڈور میں چبھن ہے۔

ہاتھ زخمی ہو گئے۔

خون بہہ نکلا۔


کسی نے اُس کی پتنگ کی ڈور میں زہر ملایا تھا...

یہ صرف مقابلہ نہیں تھا، سازش تھی۔


راہمیر چلاّیا:

"یہی ہوتا ہے جب خواب عورتوں کے ہاتھوں میں آ جائیں!"


زریاب کا دل لرزا، مگر اُس کی روح میں دادا کی پکار تھی:


> "زریاب! اگر ہوا دشمن ہو جائے، تو پرواز میں ہچکچاہٹ نہیں، ہنر دکھاؤ!"


---


         زریاب نے دونوں ہاتھوں سے زخمی ڈور تھامی۔

چیخوں کے درمیان، خاموشی کی لکیروں سے گزرتی، اُس نے ایک آخری جھٹکا دیا...


راہمیر کی پتنگ قلابازی کھا کر نیچے گر گئی۔


سناٹا چھا گیا۔


زریاب کی پتنگ... آسمان پر اکیلی رہ گئی۔

خاموش، مگر فتح مند۔


-----


    شام کے وقت، زریاب نے وہی صندوقچی کھولی۔

اب وہ صرف دادا کی یاد نہیں تھی،

بلکہ خود ایک داستان بن چکی تھی۔


پرانی پرچی کے نیچے ایک خفیہ نوٹ تھا، شاید دادا نے کبھی مکمل نہیں کیا تھا:


 "زریاب، اگر یہ پڑھے... تو جان لے کہ ہر پتنگ ہار سکتی ہے، مگر وارث اگر ہار مانے، تو پورا آسمان خالی ہو جاتا ہے۔"


زریاب نے نیچے اپنی تحریر میں لکھا:


"دادا... اب آسمان کبھی خالی نہیں رہے گا۔"


افسانہ نگار :  علیم طاہر 


---

(C):Afsana 

Khamosh patang 

Afsana Nigar:

 Aleem Tahir 

Email id: 

aleemtahir12@gmail.com

______________________

مضمون نمبر 02 ادب ۔۔۔۔

 "ادب تبھی زندہ رہتا ہے جب وہ ضمیر کی آواز، سچ کی گواہی اور سماج کے خلاف ایک خاموش بغاوت بن جائے۔

یہ مضمون صرف پڑھنے کے لیے نہیں — سوچنے اور جاگنے کے لیے ہے!"

✒️ از: علیم طاہر

📖 مکمل مضمون پڑھیں، محسوس کریں اور شیئر کریں… کیونکہ ادب کی خاموشی، سماج کی موت ہے۔ 


#ادب_کا_ضمیر  

#آزادی_اور_ادب  

#قلم_کی_آواز  

#سچ_کا_ادب  

#علیم_طاہر  

#ادبی_سوچ  

#خاموش_بغاوت  

#تخلیقی_تحریک  

#ادب_زندہ_ہے  

#سچ_لکھو  

#اردو_ادب  

#ادبی_مکالمہ  

#ادب_برائے_سماج


مضمون نمبر: 02


عنوان: ادب اور ضمیر کی آواز: قلم کی صداقت کا بحران


مضمون نگار: علیم طاہر


ادب کا بنیادی فریضہ سماج کی نبض پر ہاتھ رکھنا، سچائی کی گواہی دینا اور مظلوم کی صدائے احتجاج کو لفظوں کا قالب دینا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب ادیب خود مصلحت کی دبیز چادر اوڑھ لے، جب قلم نفع و نقصان کے ترازو میں تولا جانے لگے، اور جب تحریر "مناسب وقت" کی تاک میں دم سادھے بیٹھ جائے، تب کیا ادب، ادب رہتا ہے یا محض کاغذ پر لکیریں؟


ادب دراصل ضمیر کی وہ آواز ہے جو وقت، اقتدار اور خوف سے ماورا ہو کر گونجتی ہے۔ جس ادب میں ضمیر کی گواہی نہ ہو، وہ کتنا ہی فصیح کیوں نہ ہو، فقط ایک رسمی اظہار ہے، کوئی داخلی تڑپ یا سچائی کا آہنگ نہیں رکھتا۔ آج کا ادیب دو دنیاؤں کے بیچ جھول رہا ہے: ایک طرف آزادیِ اظہار کے عالمی دعوے، دوسری طرف داخلی و خارجی دباؤ۔ ایسے میں سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ قلم اپنی راہ کیسے چُنے؟


آزادیِ اظہار محض ایک قانونی اصطلاح نہیں، بلکہ یہ ادب کی سانس ہے۔ تخلیق کا دم اسی وقت گھٹتا ہے جب سچ لکھنے والا خود کو تنہا محسوس کرے۔ اور یہ المیہ کم و بیش ہر عہد میں دہرایا جاتا رہا ہے۔ وہ ادیب جو وقت کی سفاکیوں کو لفظوں میں ڈھالنے کی جرأت رکھتا ہے، وہی اصل معنوں میں خالق کہلانے کے لائق ہوتا ہے۔ مگر معاشرے کو ایسے تخلیق کاروں سے ہمیشہ خوف رہا ہے — شاید اس لیے کہ وہ بے نقاب کرتے ہیں، خوشامد نہیں۔


معاشرتی نظام میں ہر وہ آواز جو سوال اٹھاتی ہے، مشکوک قرار دی جاتی ہے۔ ایسے میں ادیب کے لیے سچ لکھنا آسان نہیں رہتا۔ مگر یہی تو اصل تخلیق کی آزمائش ہے۔ یہ آزمائش صرف قلم سے نہیں، ضمیر سے ہوتی ہے۔ جس لمحے ادیب مصلحت کے آگے سر جھکا لے، وہ لمحہ ادب کے جنازے کا پہلا اعلان بن جاتا ہے۔


نئے زمانے کے ادیبوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ادب ضمیر کی آواز نہیں بنے گا تو وہ فقط بازار کا مضمون ہوگا۔ ہم ادب کو بازار سے نکال کر سچ کی راہوں پر واپس لا سکتے ہیں، مگر اس کے لیے بے خوفی، فکری ایمانداری اور سچائی سے بے پناہ عشق درکار ہے۔ ایسے میں شاید ہمارا ادب وہ آئینہ بن جائے، جس میں صرف چہرے ہی نہیں، کردار بھی دکھائی دیں۔


قلم کبھی بھی غیر جانب دار نہیں ہوتا۔ وہ یا تو سچ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا خاموشی کے جرم میں شریک ہو جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ادب آنے والی نسلوں کے ضمیر کو بیدار کرے، تو ہمیں آج ہی اپنے قلم کو ضمیر سے جوڑنا ہوگا، کسی مفاد سے نہیں۔


---


جب قلم سچ لکھنے سے گھبرانے لگے، جب ادیب لفظوں کو کانٹوں کی طرح چنے، اور جب ہر جملہ کاغذ پر اترنے سے پہلے مصلحت کی چھلنی سے گزرے، تب تخلیق کی اصل روح دم توڑنے لگتی ہے۔ ادب کوئی ہنر یا تفریح کا ذریعہ نہیں، یہ روح کی آگہی ہے، وہ آئینہ ہے جو چمکتا تبھی ہے جب سچ کی روشنی اس پر پڑے۔


لیکن آج کے دور میں، سچ کی روشنی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ہر طرف دھواں ہے — مصلحت کا، مصلحت اندیشی کا، اور چپ رہنے کی تربیت کا۔ ادیب کو سکھایا جا رہا ہے کہ خاموشی بھی ایک فن ہے، مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ فن اصل میں بزدلی ہے۔ ایک ایسا خول، جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔


ادب اگر صرف "قابلِ اشاعت" ہونے کے اصول پر چلے گا، تو پھر یہ صرف طباعت زدہ صفحے ہوں گے، زندہ الفاظ نہیں۔

ادب اگر کسی ایوارڈ یا داد کے حصول کے لیے لکھا جائے، تو وہ تحریر صرف تقریری خوشامد بنے گی، احتجاجی صدا نہیں۔

ادب اگر حق گوئی سے ہچکچائے، تو وہ صرف دل بہلانے کا سامان رہ جائے گا، ضمیر جگانے کا نہیں۔


ہر وہ ادب جو اپنے عہد کی سچائی سے نظریں چراتا ہے، وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا مجرم ہوتا ہے۔ کیونکہ ادب صرف جمالیاتی تجربہ نہیں ہوتا، یہ اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ ادب کو اگر آج کے ظلم، استحصال، اور ناانصافی پر خاموشی طاری ہے، تو وہ صرف کمزور نہیں، خائن بھی ہے۔


یاد رکھیے، بڑے ادیب وہی ہوئے جنہوں نے اپنے قلم کو زمانے کے جبر کے سامنے جھکنے نہ دیا۔

منٹو کو "فحش" کہا گیا، مگر وہ "سچ کا سپاہی" تھا۔

فراز کو "باغی" کہا گیا، مگر وہ "محبت کا سچ بولنے والا" تھا۔

فیض کو قید کیا گیا، مگر ان کا شعر قید سے آزاد ہو کر قلوب پر راج کرتا رہا۔


کیا آج کے ادیب کو یہ ورثہ یاد ہے؟ کیا ہم نے قلم کو خوف کی گرفت میں دے دیا ہے؟ کیا ضمیر کی گواہی اب اشاعت سے مشروط ہو گئی ہے؟


یہ وہ سوال ہیں جن پر ہر سنجیدہ ادیب کو خود سے مکالمہ کرنا ہوگا۔

کیونکہ اگر ادب آئینہ ہے، تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم نے اس آئینے پر سہولتوں کا پردہ تو نہیں ڈال دیا؟


---


تحریر محض لفظوں کا کھیل نہیں، یہ ایک روحانی کشمکش ہے — ایک مسلسل بغاوت، ایک ناگزیر جنگ۔ وہ جنگ جو تخلیق کار کا اپنے ضمیر سے ہوتی ہے، زمانے سے نہیں۔


ادب وہی ہوتا ہے جو وقت کے رخ پر سوال کی کھرچ چھوڑ دے، جو اقتدار کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہے:

"میں لفظ ہوں، میں سچ ہوں، میں ہوں وہ آگ جس سے تمہارے قلعے خاک ہو سکتے ہیں۔"


ادیب کا اصل امتحان تب شروع ہوتا ہے جب وہ مقبولیت اور صداقت کے بیچ کھڑا ہو — اور وہ راستہ چنے جو کٹھن ہو، مگر سچا ہو۔ آج بھی اگر کوئی تخلیق کار صرف اس لیے لکھ رہا ہے کہ وہ داد پائے، اشاعت ہو، پذیرائی ہو — تو وہ حرفوں کے تاجر ہیں، روح کے خالق نہیں۔


اصل ادب وہ ہوتا ہے جو:


ظلم پر خاموشی کو بے نقاب کرے


محبت کو رسموں سے آزاد کرے


انسان کو انسان سے جوڑنے والا پل بنے


اور سب سے بڑھ کر — انسان کو اس کے آپ سے ملوائے


یاد رکھیے، کوئی بھی معاشرہ اس وقت مرنے لگتا ہے جب اس کے ادیب خاموش ہو جائیں۔ کیونکہ جب حرف چپ ہو، تو سچ دفن ہو جاتا ہے۔

لیکن خوش نصیبی یہ ہے کہ ہر عہد میں کوئی نہ کوئی قلم ایسا ہوتا ہے جو صدیوں کی خاموشی کو توڑتا ہے۔


یہی قلم "ادب" کہلاتا ہے۔


اور ادب کبھی نہیں مرتا۔


ادب صرف کتابوں میں نہیں ہوتا، وہ دلوں میں جاگتا ہے، آنکھوں سے بولتا ہے، ضمیروں کو جھنجھوڑتا ہے، اور وقت کو فتح کرتا ہے۔


ادب وہ آہٹ ہے جو سماج کی کچلی ہوئی روح میں زندگی کی آواز بن کر گونجتی ہے۔

ادب وہ آنسو ہے جو بے حس چہروں پر احساس کی نمی لا دیتا ہے۔

ادب وہ احتجاج ہے جو خامشی سے بلند ہوتا ہے، اور زمانے کی دیواروں پر سوال کی طرح لکھا جاتا ہے۔


اگر آپ کے لفظ کسی کو چونکا نہ سکیں، جگا نہ سکیں، تو پھر وہ صرف روشنائی ہیں — روشنی نہیں۔

ادب وہی ہے جو سوال بن جائے، جو خواب دکھائے، جو زخم گنے نہیں بلکہ مرہم بن جائے۔


---




اے اہلِ قلم!

اگر تمہیں نیند آنے لگے، تو یاد رکھنا، تمہارے لفظوں کو جاگتے رہنا ہوگا۔

اگر تم خاموش ہو جاؤ، تو یاد رکھنا، کسی بے گناہ کی چیخ سنائی دینا بند ہو جائے گی۔

اور اگر تم نے سچ نہ لکھا — تو یاد رکھو، تم نے آنے والی نسلوں کے ضمیر پر جھوٹ کا قرض چڑھا دیا ہے۔


پس، ادب لکھو — مگر وہ جو زندہ ہو۔

جو لہو میں دھڑکے، جو آنکھوں میں چمکے، جو ضمیر کو جگائے۔


اور اگر تم ایسا ادب لکھ سکتے ہو —

تو تم سچے ادیب ہو۔


---

(C):

Mazmoon 

Adab aur Zameer Ki Awaaz 

Qalam ki sadaqat ka bohraan 

Mazmoon:

 Nigar Aleem Tahir 

Email id: aleemtahir12@gmail.com 

_________________________

Monday, 16 June 2025

افسانہ نمبر 27 رفوگر

 کیپشن:


("رفوگر" — ایک ایسا افسانہ جو زخموں کو سلائی سے نہیں، احساس سے رفو کرتا ہے۔

کیا کبھی کوئی انسان خود رفوگر بن جاتا ہے؟

کیا پیوند صرف کپڑوں پر لگتے ہیں یا دلوں پر بھی؟

پڑھیے ایک منفرد اور دل کو چھو لینے والی کہانی _جو آپ کو تھوڑی دیر کے لیے خاموش اور بہت دیر کے لیے پُراثر بنا دے گی۔)


👇 مکمل افسانہ یہاں پڑھیے اور رائے ضرور دیجیے:


#افسانہ #رفوگر

#اردوادب #افسانہ_نگاری

#احساس #ادب #دل_کی_بات

#کہانی #قلم_کی_طاقت

#Afsana #UrduFiction #Rafugar

#AleemTahir #ادبی_جہان

#FacebookWriters #ViralStory

#StoryThatTouchesHeart #RefugeInWords

#MustRead #ادبی_تحریک #رفو_کہانی


_____________________


افسانہ نمبر۔ 27

رفوگر 


افسانہ نگار: علیم طاہر


---


       گرد آلود شیشوں کے پیچھے چھوٹا سا بورڈ لٹک رہا تھا:

"رفوگر: پرانے پردوں، لباسوں، اور پرانی یادوں کی مرمت کی جاتی ہے۔"


یہ دکان محض ایک کونے میں سمٹی ہوئی جگہ نہیں تھی، بلکہ وقت کی گزری ہوئی پرتوں میں چھپی ایک کہانی تھی۔ اس چھوٹی سی دکان میں بیٹھا شخص _ جسے محلے والے بس "رفوگر" کہتے تھے _ ایک ایسی زندگی گزار رہا تھا جو اکثر آنکھوں سے اوجھل مگر دلوں میں بسا کرتی ہے۔


اس کی عمر کا اندازہ لگانا آسان نہ تھا۔ نہ وہ جوان تھا، نہ بوڑھا۔ چہرے پر جھریاں تھیں، مگر ان جھریوں میں وقت کے تھپیڑوں سے زیادہ وقار جھلکتا تھا۔ آواز دھیمی، پر لہجہ ایسا جیسے سلوٹوں سے کہانی نکالتا ہو۔


         ہر صبح وہ دکان کھولتا، کپڑوں کو غور سے دیکھتا، ان میں موجود چاکوں کو انگلیوں سے محسوس کرتا، اور پھر سوئی میں دھاگا ڈال کر اُس مقام پر ایسے رفو کرتا جیسے کسی کے ماضی کے زخم کو آہستہ سے سہلا رہا ہو۔


رفو اس کا ہنر تھا، مگر درحقیقت وہ معاشرتی شکست و ریخت کی مرمت کا کاریگر تھا۔


کوئی خاتون اپنے شوہر کے چھوڑے کپڑے لے آتی۔

کوئی بیوہ اپنے بیٹے کے پرانے یونیفارم کے دامن۔

کوئی لڑکا اپنی پہلی نوکری کے کوٹ میں چھپی امیدیں۔

اور رفوگر ہر ریشے کو ایسے جوڑتا جیسے زندگی کو ازسرِ نو سِل رہا ہو۔


---


            ایک روز ایک نوجوان لڑکی آئی۔ آنکھوں میں نمی، ہاتھوں میں ایک پھٹا ہوا دوپٹہ۔

"یہ میری ماں کا ہے۔ بس... کہیں رکھ دیا تھا۔ اب لگا جیسے اسے رفو کروا دوں۔"


رفوگر نے دھاگا نکالا، سلیقے سے کونے پر سوئی رکھی، اور کہا:


"یادیں کبھی مکمل نہیں ہوتیں، بیٹی۔ ہم بس انھیں اتنا جوڑ دیتے ہیں کہ آنکھیں نم نہ ہوں، اور دل سے بہہ نہ جائیں۔"


لڑکی خاموش رہی، جیسے کسی نے اس کے دکھ کو لفظوں کا پیوند دے دیا ہو۔


---


         دن ہفتوں میں بدلے، اور رفوگر کی دکان پرانی ہوتی گئی۔ شہر میں بڑے بڑے شاپنگ مال بن گئے۔ سلائی مشینیں جدید ہو گئیں۔ مگر رفوگر کی انگلیاں ویسی ہی رہیں_پُرسکون، ماہر، دھیمے انداز سے کپڑوں کے زخم سینے والی۔


پھر ایک دن وہ دکان بند ملی۔


شیشے پر بس اتنا لکھا تھا:


"اب رفو کی ضرورت شاید کسی کو نہیں رہی۔ لوگ چیزیں نہیں، رشتے، تعلقات، خواب پھینک دیتے ہیں۔ رفوگروں کا زمانہ بیت گیا۔"


مگر وہ نوجوان لڑکی ایک کاغذ چھوڑ گئی تھی، جو ہوا سے شیشے کے ساتھ چپک گیا تھا:


"آپ نے صرف کپڑے نہیں جوڑے، ہمارے بکھرے وجود کو سیا تھا۔ آپ گئے نہیں، ہر جوڑ میں زندہ ہیں۔"


---


          رفوگر کی دکان تو بند ہو چکی تھی، لیکن اس کی خوشبو، اس کی خاموشیاں، اس کی سوئیاں — سب کچھ جیسے ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ پرانی گلی میں اب بھی کبھی کبھی ایک ہلکی سی سُرسراہٹ سنائی دیتی تھی، جیسے دھاگے کی آواز ہو جو اب بھی کسی پیوند کی تلاش میں ہو۔


      وہی لڑکی، جو ماں کے دوپٹے کے ساتھ آئی تھی، اب ہفتے میں ایک بار وہاں آتی۔ دکان کے بند شٹر کے آگے خاموش کھڑی رہتی۔ کبھی شیشے کو ہاتھ لگاتی، کبھی زمین پر بیٹھ کر سامنے کی دیوار کو دیکھتی جس پر اب بھی ایک دھندلا سا نشان باقی تھا—شاید اس بورڈ کا، جس پر لکھا تھا:

"رفوگر: پرانی یادوں کی مرمت کی جاتی ہے"


       اس روز جب وہ آئی، تو اس کے ہاتھ میں ایک پرانا کوٹ تھا، جس کے اندرونی حصے میں سلوٹیں تھیں، اور وقت کا ایک چاک صاف دکھائی دیتا تھا۔ وہ بیٹھ گئی۔ اس نے کوٹ کو اپنے زانو پر پھیلایا اور جیسے رفوگر کی یادوں سے بات کرنے لگی:


"تم تو کہتے تھے کہ ہر چیز رفو ہو سکتی ہے، لیکن کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جن پر دھاگا پھسلتا رہتا ہے... سوئی چبھتی ہے، پر زخم بند نہیں ہوتا۔"


        اس کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹپکا، اور کپڑے پر گر کر جذب ہو گیا — جیسے وقت بھی کچھ دھاگوں کو رفو کرتے کرتے تھک جاتا ہو۔


اسی لمحے، ایک مدھم سی آہٹ سنائی دی۔ جیسے کسی نے اندر سے شٹر کی درز سے دھاگے کا سرا باہر نکال دیا ہو۔ وہ چونکی، مگر درز میں کچھ نہ تھا۔ ہاں، زمین پر ایک چھوٹا سا لفافہ رکھا تھا، جس پر صرف ایک سطر لکھی تھی:


"رفوگر کبھی جاتا نہیں، وہ بس دھاگے کے دوسرے سرے پر چلا جاتا ہے۔"


لڑکی نے وہ لفافہ اٹھایا۔ اندر سے ایک پرانی سی سوئی نکلی — وہی سوئی، جو شاید کبھی اس کے ماں کے دوپٹے میں استعمال ہوئی تھی۔ ساتھ ہی ایک کاغذ تھا، جس پر ایک نقشہ سا بنا تھا۔

ایک نئی گلی، ایک نیا کمرہ، اور ایک نیا نام:


"سلسلہ: دھاگے اور پیوند کا نیا باب۔"


---


       چند روز بعد، شہر کے دوسرے کونے میں ایک نئی دکان کھلی:

"سلسلہ"

اور اس کے نیچے چھوٹا سا بورڈ تھا:

"اب صرف کپڑے نہیں، کہانیاں بھی رفو کی جاتی ہیں"


لڑکی اب وہاں بیٹھی تھی۔ اس کی انگلیوں میں وہی سوئی تھی، وہی دھاگا -

لیکن اب وہ صرف کپڑے نہیں سیتی تھی، وہ لوگوں کے دل بھی رفو کرتی تھی۔


پہلا گاہک ایک نوجوان لڑکا تھا، جس کے پاس ایک پھٹی ہوئی جیب تھی اور خالی خواب۔


"کیا یہ جیب رفو ہو سکتی ہے؟" اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔


لڑکی نے مسکرا کر کہا:

"ہاں، اگر تمھارے پاس دھاگے کا دوسرا سرا ہے تو…"


---


         بارش اُس روز وقفے وقفے سے ہو رہی تھی۔

گلی کے نکڑ پر "سلسلہ" کی دکان نیم وا تھی۔ اندر مدھم پیلا بلب جل رہا تھا، جس کی روشنی میں لڑکی ایک خالی کاغذ پر کچھ سلائی کے نقش بنا رہی تھی—

پیوند کی طرح الجھے ہوئے، مگر کسی رمز کی طرح ترتیب یافتہ۔


دفعتاً دروازے پر ہلکی سی کھنک سنائی دی۔

ایک بوڑھا شخص، سفید داڑھی، میلی چادر، اور کانپتے ہاتھوں سے اندر داخل ہوا۔

اس کی آنکھوں میں تھکن نہیں تھی، کوئی اور شے تھی — شناخت کا بوجھ؟

یا گمشدہ لمحوں کی بازگشت؟


لڑکی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، اور وہ ایک لمحے کو رُک گئی…

سوئی اس کے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر جاگری۔


"تم؟"

اس کے لبوں سے صرف یہی نکلا۔


بوڑھے شخص نے مسکرا کر آہستہ سے کہا:

"رفوگر کبھی جاتا نہیں… وہ بس دھاگے کے دوسرے سرے پر چلا جاتا ہے۔"


لڑکی لرز گئی۔

"پر تم تو… تم تو…"


"ہاں، میں وہی ہوں جس نے تمھاری ماں کے دوپٹے کا زخم سیا تھا۔ جس نے تمھاری آنکھوں میں پہلی بار سلائی کی لکیریں اتاری تھیں۔"

"مگر میں صرف رفوگر نہیں ہوں… میں رشتہ ہوں — جو وقت کے ہاتھوں ادھورا رہ گیا تھا۔"


اس نے جیب سے ایک پیلا سا کاغذ نکالا، جس پر وہی پرانا بورڈ چھپا تھا:

"رفوگر: پرانی یادوں کی مرمت کی جاتی ہے"


"یہ کاغذ؟"

لڑکی نے کانپتے ہاتھوں سے اسے لیا۔

"یہ میری ماں کے صندوق میں تھا… برسوں سے…"


بوڑھا ہلکے قدموں سے دکان کے کونے میں بیٹھ گیا، جہاں وہی پرانی سلائی مشین رکھی تھی— جسے اس نے برسوں پہلے چھوڑ دیا تھا۔

اس نے آنکھیں بند کیں، اور آہستہ سے بولا:

"یہ مشین اب تمھاری ہے۔ رفو کا فن مکمل ہو چکا ہے، اب تمھارے ہاتھوں میں ہے پیوند کا اختیار…"


بارش تیز ہو گئی۔ بجلی کی ایک چمک میں وہ بوڑھا شخص ایک لمحے کو واضح ہوا — اور دوسرے لمحے جیسے بادلوں میں تحلیل ہو گیا۔

کونے میں صرف ایک پرانا چمڑے کا تھیلا بچا تھا، جس میں ایک سرخ رنگ کی سوئی، سونے کے دھاگے کی ایک کٹیا، اور ایک خالی رجسٹر تھا۔


لڑکی نے تھیلا اٹھایا۔

رجسٹر کا پہلا صفحہ کھولا۔

اوپر سنہری روشنائی میں لکھا تھا:


"رفوگر: اب تم ہو۔

جس کا پیوند مکمل ہو، وہی اگلا رفوگر بنتا ہے۔"


---


       رفوگر چلا گیا، لیکن اس کے پیچھے وہ علم چھوڑ گیا، جو صرف ہاتھ سے نہیں، دل سے سکھایا جاتا ہے۔

"اب دکان پر بورڈ کچھ یوں تھا-

 


"سلسلہ _ رفوگر کا آخری پیوند"

"ہم زخم نہیں پوچھتے، بس سلائی کا راستہ جانتے ہیں۔"


بارش رک گئی تھی۔

اور گلی میں کسی نے آہستہ سے کہا:

"رفوگر زندہ ہے… ہر اس دل میں جو پیوند مانگتا ہے۔"


افسانہ نگار :  علیم طاہر

______________


(C):

Afsana 

Rafugar

Afsana Nigar 

Aleem Tahir 

Email id: aleemtahir12@gmail.com 

_________________

Friday, 13 June 2025

افسانہ نمبر25 _وقت کی عدالت میں ایک خواب کا مقدمہ

افسانہ نمبر :  22


عنوان: "وقت کی عدالت میں ایک خواب کا مقدمہ"


(افسانہ نگار: علیم طاہر)


دنیا کی سب سے پُرانی عدالت میں ایک خواب کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔


الزام تھا:

"یہ خواب نیند سے باہر نکل آیا تھا!"


وقت، جو اس عدالت کا منصف تھا،

سیاہ لبادہ اوڑھے، کرسی پر نہیں…

بلکہ لمحوں کی کرچیاں بچھا کر بیٹھا تھا۔


خواب کو ہتھکڑی پہنائی گئی تھی —

ایک آنکھ نیلی، ایک آنکھ سیاہ،

جسم شفاف، اور آواز خاموش۔


مدعی ایک فلسفی تھا،

جو سچ کے تعاقب میں پاگل ہو چکا تھا۔


فلسفی نے عدالت میں کہا:


"یہ خواب میرے شعور میں بغاوت برپا کرتا ہے۔

یہ نیند میں آ کر مجھے جاگنے پر مجبور کرتا ہے۔

میں نے جب تاریخ کو دلیل بنایا،

تو اس نے ایک بچے کی ہنسی دکھا دی۔

جب میں نے مذہب کا سہارا لیا،

تو اس نے ایک پرندے کے پروں میں وحی چھپا دی۔

جب میں نے سیاست کے رنگ دکھائے،

تو یہ خواب بےرنگ ہو گیا —

اور کہا، رنگ سب اندھے ہوتے ہیں!"


وقت خاموش رہا۔

عدالت میں موجود لمحے، منٹ اور ساعتیں ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگیں۔


تب ایک بوڑھی عورت اُٹھی۔

اس نے کہا:


"یہ خواب مجھے میری جوانی میں دکھائی دیا تھا —

جب میں نے محبت کی اور پھر وہ مر گئی۔

لیکن خواب نے کہا:

محبت کبھی نہیں مرتی، وہ صرف لباس بدلتی ہے۔

یہ خواب جھوٹا ہے۔

اسے سزا دو۔"


آخرکار، خواب کو بولنے کی اجازت ملی۔


اس نے کچھ نہ کہا،

صرف زمین پر جھک کر مٹی کو چھوا —

اور مٹی سے ایک تصویر بنائی:

ایک لڑکی، ایک چراغ، اور ایک سُنسان گلی۔


وقت چونکا۔

یہ تصویر اسے جانی پہچانی لگی۔


خواب نے پہلی بار لب کھولے:


"یہ گلی وہ ہے جہاں تم، اے وقت، ایک لمحے کے لیے رُک گئے تھے۔

جہاں تم نے ایک عورت کی آنکھ سے گرنے والے آنسو کو تھام لیا تھا۔

میں وہی لمحہ ہوں،

جسے تم نے ہمیشہ کے لیے بھلا دیا تھا!"


وقت نے کرسی سے اٹھ کر خواب کے سامنے سر جھکا دیا۔


فیصلہ سنایا گیا:


"یہ خواب مجرم نہیں…

بلکہ گواہ ہے —

ہمارے زوال کا،

اور اس روشنی کا،

جسے ہم نے خود سورج سمجھ کر مار دیا!"


اس دن سے عدالت بند ہے۔

وقت اب صرف تاریخ میں ملتا ہے —

اور خواب؟

وہ اب بھی گھوم رہا ہے،

ہر اُس دل میں جو بند آنکھوں سے دیکھنے کی ہمت رکھتا ہے۔



---


اختتامیہ:


کہتے ہیں،

اگر کسی رات آپ کو ایک گلی، ایک چراغ، اور ایک سُنسان دروازہ نظر آئے —

تو رک جانا،

کیوںکہ وہیں وقت بھی ٹھہرا تھا…

اور خواب تمہیں پہچان لے گا۔


ناولٹ نمبر-02: فلائٹ 242 آخری نشست

  ناولٹ لکھتے وقت میری انگلیاں کانپ رہی تھیں


ناولٹ:--نمبر 01

فلائٹ 242 آخری نشست 

ناول نگار: علیم طاہر

___


 پیش لفظ:


از: علیم طاہر


زندگی کیا ہے؟

ایک پرواز؟

یا ایک ایسی نشست… جس کا نمبر ہمیں معلوم نہیں، لیکن روانگی طے شدہ ہے؟


ناولٹ "فلائٹ 242 — آخری نشست" کا بیج ایک سادہ سی خبر نے بویا:

"ایک طیارہ جو روانہ ہوا… کبھی اپنی منزل پر نہ پہنچا۔"


مگر اس خبر کے سائے میں جو انسانی کہانیاں تھیں — وہ کہانیاں جن میں محبتیں تھیں، دعائیں تھیں، وعدے اور خواب تھے — وہ کبھی سرخیوں کا حصہ نہ بن سکیں۔


یہ ناولٹ صرف ایک ہوائی حادثے کی داستان نہیں،

بلکہ اُن 242 زندگیوں کی خاموش چیخ ہے،

جنھوں نے ایک مسافر طیارے میں بیٹھ کر سوچا نہ تھا

کہ ان کی اگلی منزل "زمین" نہیں… ازل ہے۔


یہ افسانہ انسان اور اس کی روح کے درمیان ایک مکالمہ ہے۔

یہ کہانی ان لوگوں کی ہے جو چلے گئے،

اور ان کی بھی جو بچ گئے… لیکن زندگی سے ہار گئے۔


یہاں آپ کو ہارر بھی ملے گا،

ایسا ہارر جو آپ کی روح کو جھنجھوڑ دے گا —

لیکن چیخوں یا خون میں نہیں،

بلکہ یادوں، پچھتاووں اور ادھورے خوابوں کی خامشی میں۔


یہ کہانی ایک ایسی نشست "13F" کی بھی ہے،

جو نہ صرف ایک مسافر کی، بلکہ ہم سب کی شناخت بن سکتی ہے —

اگر ہم نے وقت سے پہلے زندگی کی سمت نہ بدلی۔


یہ ناولٹ تھرلر ہے، عبرت ہے،

ایک روحانی آئینہ ہے —

جس میں جھانکنے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔


اگر آپ نے یہ کہانی دل سے پڑھی…

تو شاید آپ بھی ایک لمحے کو اپنی زندگی کی پرواز کو روک کر

خود سے یہ سوال کریں گے:


> "میں کس طرف جا رہا ہوں؟

اور کیا میری نشست — میری زندگی —

ابھی باقی ہے… یا ختم ہو چکی ہے؟"


علیم طاہر

(ناول نگار)

جون، 2025

-----------


 ناولٹ نمبر:01

عنوان: ’’فلائٹ 242: آخری نشست‘‘

ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر:01


---


           جہاز نے اڑان بھری، سوا تین بجے کی گھڑی نے جیسے آسمان پر بھی سناٹا تان دیا۔ عملے کی ہلکی سی مسکراہٹیں، مسافروں کی دعائیں، اور جہاز کا پر سکون شور—سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔


لیکن معمول ہمیشہ دھوکہ ہوتا ہے۔


سیٹ 33B پر بیٹھا حارث علوی اپنی بیٹی نایاب کی تصویر ہاتھ میں لیے مسلسل پڑھ رہا تھا:

"پاپا پلیز جلدی واپس آنا، آپ کے بغیر گھر میں اندھیرا سا لگتا ہے۔"


ایک بوڑھی عورت، جس کی آنکھیں دھندلا چکی تھیں، 33A پر بیٹھی تھیں۔ انھوں نے اچانک کہا:

"بیٹا، تمھیں معلوم ہے، کبھی کبھی زمین تمہیں بلاتی ہے… اور آسمان اجازت دے دیتا ہے۔"


حارث چونکا، لیکن جواب دینے سے پہلے ہی ایک زوردار جھٹکا لگا۔ جہاز ایک لمحے کو ہچکولے کھا کر سنبھلا، پھر اچانک روشنی بجھ گئی۔


چند سیکنڈ۔ بس چند سیکنڈ۔


پھر کچھ بھی باقی نہ رہا۔


---


"ان بیچ لمحوں کی دنیا"


حارث کی آنکھ کھلی۔ نہ جہاز تھا، نہ شور، نہ دھواں، نہ چیخیں۔ بس ایک پراسرار خاموشی۔


وہ ایک سرنگ جیسی راہداری میں کھڑا تھا، جہاں دیواریں شفاف تھیں اور ہر طرف سفید روشنی پھیلی تھی۔


سامنے ایک بورڈ چمک رہا تھا:


> "فلائٹ 242 – ٹرمینل آف بیٹوین"

"زندگی اور موت کے بیچ کا اسٹاپ"


وہاں لوگ تھے—جن کے جسم نہیں، صرف احساسات تھے۔ وہ بولتے نہیں، مگر ان کی سوچیں گونجتی تھیں۔

کوئی رو رہا تھا، کوئی ہنس رہا تھا، اور کوئی خاموشی سے اپنے "گناہوں کی اسکرین" دیکھ رہا تھا۔


حارث نے دیوار پر اپنا چہرہ دیکھا—مگر وہ خود کو پہچان نہ پایا۔

تبھی ایک آواز آئی:

"یہ وہ لمحہ ہے جو زندگی کے بعد نہیں، بلکہ زندگی سے پہلے چھینا جاتا ہے۔"


"یہاں کیا ہو رہا ہے؟" حارث نے چیخ کر پوچھا۔

ایک سایہ نمودار ہوا، جس کا چہرہ نہ تھا، آواز تھی:

"تم سب کو موت نہیں آئی... ابھی نہیں۔ تمھیں واپس جانا ہے، ایک سچائی لے کر…"


---


"کون ہے سچا مسافر؟"


سایہ حارث کو ایک طویل راہداری میں لے گیا جہاں مختلف افراد کھڑے تھے۔

ایک بزنس مین اپنی دولت کے نوٹ گن رہا تھا، لیکن اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

ایک نوجوان لڑکی جس نے خودکشی کی تھی، وہ اس سفر میں شامل ہو چکی تھی تاکہ اپنا "فیصلہ" واپس لے سکے۔

ایک معذور بچہ وہاں کھڑا تھا اور بار بار کہتا:

"مجھے دوبارہ ماں کی گود چاہیے۔"


ہر ایک کے پاس ایک "ٹکٹ" تھا، لیکن واپسی کا نہیں… "معافی" کا۔


---


"تبدیلی کا انتخاب"


سایہ بولا:

"تمھیں ایک موقع دیا جا رہا ہے، واپس جا کر کچھ ایسا کر جاؤ، جو تمھاری موت کے بعد زندہ رہے۔"


"کیا سب کو یہ موقع ملتا ہے؟" حارث نے سوال کیا۔

"نہیں، صرف اسے... جو زندگی میں دوسروں کے لئے جیتا ہے، مرنے کے بعد بھی۔"


اسی لمحے، راہداری لرزنے لگی۔ سب کچھ دھند میں تبدیل ہوا۔


---


"واپسی… مگر کیوں؟"


حارث کی آنکھ اسپتال میں کھلی۔ اس کا جسم جھلسا ہوا تھا۔ وہ فلائٹ کا واحد زندہ بچنے والا تھا۔

پہلا جملہ جو اس نے بولا:

"مجھے اپنی بیٹی کو گلے لگانا ہے… اور اس بوڑھی عورت کو تلاش کرنا ہے جس نے مجھ سے کہا تھا… 'زمین بلاتی ہے'۔"


میڈیا، دنیا، عدالت، کمپنیاں، سب اس سے انٹرویو چاہتے تھے، لیکن وہ خاموش رہا۔


بس ایک دن اس نے ایک چھوٹی سی لائبریری کھولی:

"فلائٹ 242 میموری کلب"

جہاں وہ ان تمام لوگوں کی کہانیاں سناتا، جو زندہ تو نہیں رہے، مگر ان کے سپنے ابھی تک آسمان پر پرواز کر رہے ہیں۔


---

شروعات یا ابتدا:

آج بھی جب شام کو وہ راہداری میں بیٹھتا ہے، کبھی کبھی اسے ایک سایہ نظر آتا ہے…

بغیر چہرے کا، مگر آواز میں سکون:

"تم نے واپسی کا مقصد پورا کیا، اب فلائٹ 243 کے لیے تیار ہو جاؤ…"


---


پیغام:


 زندگی اور موت کے درمیان جو لمحہ ہے، وہی اصل زندگی ہے۔ اسی لمحے میں ہمیں دوسروں کے لیے جینا سیکھنا ہے۔


________


 ناولٹ: ’’فلائٹ 242: آخری نشست‘‘

باب دوم: ’’رازداری کا دروازہ‘‘

ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر: 02


---


"کہانیاں مرنے والوں کی، کبھی ختم نہیں ہوتیں۔"

یہ جملہ اسپتال کی دیوار پر لگا تھا، جہاں حارث کی زندگی کی دوسری قسط شروع ہوئی۔


---


نئی آنکھیں، پرانا خواب


حارث اسپتال سے فارغ ہو چکا تھا۔ جسم کے کئی حصے اب بھی جلنے کی اذیت سے گزر رہے تھے، مگر روح کے زخم کہیں گہرے تھے۔

اس نے لائبریری "میموری کلب" کو باضابطہ آغاز دیا—لیکن مقصد محض کتابیں پڑھنا نہیں تھا… بلکہ ان کہانیوں کو سننا تھا جو مکمل نہ ہو سکیں۔


وہ روز شام کو ایک پرانی کرسی پر بیٹھتا، سامنے رکھا ٹیپ ریکارڈر چلاتا، اور کہتا:

"آج ہم اس کی کہانی سنیں گے… جس نے مرنے سے پہلے خواب دیکھے تھے، مگر جاگنے سے پہلے دنیا چھوڑ دی۔"


---


پہلی دستک


ایک دن، سرد ہوا کے جھونکے کے ساتھ، لائبریری کے دروازے پر ایک نوجوان لڑکی داخل ہوئی۔ لباس خاکی، بال بکھرے، آنکھوں میں گہرا خوف۔

"میں آئشہ خان ہوں… سیٹ 12F کی مسافر…"

حارث چونکا۔

"مگر تم تو۔۔۔"

"ہاں، میں مر چکی ہوں۔ مگر میری ماں ہر رات روتی ہے… اور جب زندہ لوگ رو رہے ہوں، مرنے والوں کو بھی سکون نہیں آتا۔"


آئشہ اب صرف ایک سایہ تھی، مگر اتنی صاف، جیسے روشنی ہو۔

"تمہیں میری کہانی سنانی ہوگی، حارث… تاکہ میری ماں جان سکے، میں کیسے مری… اور کیوں واپس آئی۔"


---


سچ کی قیمت


آئشہ نے بتایا کہ وہ لندن ایک نیا کنسرٹ شروع کرنے جا رہی تھی، مگر اس کے بوائے فرینڈ زیاد نے ٹکٹ کینسل کرنے کو کہا تھا۔

"میں نے ضد کی… زیبا کی طرح نہیں بننا چاہتی تھی، جو ہر بات مان لے۔"

"زیبا کون؟" حارث نے پوچھا۔

آئشہ خاموش ہو گئی۔


اگلی رات، زیبا خود لائبریری میں آ گئی۔

"میں سیٹ 12E پر تھی۔ آئشہ کی دوست۔"

"پھر تم بھی…"

"نہیں۔ مجھے ایرپورٹ پہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایک جھگڑے کے بعد۔ آئشہ اکیلی گئی… اور مر گئی۔"


زیبا کے ہاتھ میں ایک بوسیدہ ڈائری تھی، جس پر آئشہ کی تحریر تھی:

"زیاد مجھے مارتا ہے، مگر میں دنیا کو نہیں بتاؤں گی۔ کیونکہ محبت کے نام پر میں خود کو دفن کرنا چاہتی ہوں۔"


---


لائبریری میں اندھیرے کی آمد


اب ہر رات کوئی نیا سایہ آتا۔

کوئی گلوکار، کوئی معذور، کوئی قاتل، کوئی مقتول۔

لائبریری اب ایک عام جگہ نہیں رہی تھی، بلکہ رازداری کا دروازہ بن چکی تھی، جہاں زندگی اور موت کی کہانیاں دم سادھ کر بیٹھتی تھیں۔


ایک رات، جب چاند چھپا ہوا تھا، دروازے پر ایک بوڑھا شخص آیا۔

"میں سیٹ 1A پر تھا… لیکن میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔"

"کون تھے آپ؟"

"میں کپتان راہی خان… اس فلائٹ کا پائلٹ۔"


---


پائلٹ کا راز


راہی خان کی کہانی نے حارث کو لرزا دیا۔


"وہ حادثہ صرف فطری نہیں تھا… کاک پٹ میں ایک سایہ آ چکا تھا… جیسے اندھیرا ہماری سانسوں میں گھس گیا ہو۔"

"سایہ؟"

"ہاں… وہ سایہ جو موت نہیں، بلکہ وقت کا قیدی ہے۔ جو اِن لمحوں کو چرا لیتا ہے جہاں انسان حقیقت اور خواب کے بیچ ہوتا ہے۔"


"یہ سایہ... اب تمھاری لائبریری میں داخل ہو چکا ہے، حارث۔"


---


لائبریری میں موت کا سایہ


اب لائبریری میں عجیب آوازیں آنے لگیں۔ کتابیں خود سے کھلنے لگیں، اور آئینے میں ایک سیاہ شبیہہ نظر آنے لگی۔

ایک رات، حارث نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی، مگر دروازہ اندر سے کھلا رہا۔

"فلائٹ 243 تیار ہے۔"

ایک کٹی پھٹی آواز ابھری۔


---


انتخاب


پائلٹ نے کہا:

"تمھیں اب دوسرا انتخاب کرنا ہے، حارث۔ یا تو ان سب مسافروں کو کہانیوں میں زندہ رکھو… یا اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند کر دو اور سایے کو قید کر دو—مگر اس کی قیمت دو گی… اپنی بیٹی کی ہنسی۔"


حارث لرز گیا۔

"کیا بیٹی کی ہنسی بھی قربانی میں جائے گی؟"


"زندگی صرف ایک بار ملتی ہے، لیکن کبھی کبھی… وہ کہانیوں کی شکل میں دوبارہ لوٹ آتی ہے۔ فیصلہ تمھارا ہے۔"


---------


 ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"


باب سوم: "چرن کی گھنٹی اور اذان کی صدا"

ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر: 03


---


کہانی کا آغاز… موت کے بعد


بنارس کی گھاٹوں پر شام کا دیپ جل رہا تھا، لیکن اسی لمحے حارث کی لائبریری میں ایک نئی دستک ہوئی۔

دروازہ کھلتے ہی ایک پگھلتا ہوا دیا اندر داخل ہوا۔ وہ روشنی تھی اور وہی روشنی… ایک سایہ بھی ساتھ لائی تھی۔


"میں پنڈت مہیش نارائن ہوں… سیٹ 9A پر تھا…"

آواز مدھم مگر عمیق تھی۔


---


پنڈت جی کی پکار


"حارث بھائی، جس رات فلائٹ گری، میں ‘کاشی وِشوناتھ’ جا رہا تھا… اپنی بیٹی کی شادی کے لئے آشرواد لینے۔ وہ آخری تلاوت میرے لبوں پر تھی:

‘ॐ नमः शिवाय’

اور پھر… دھماکہ، اندھیرا… خاموشی۔"


حارث چونکا۔

"آپ… یہاں کیسے؟"


"سایہ مجھے یہیں لایا ہے… اس نے کہا تمھاری لائبریری میں میری بیٹی کی روح پھنسی ہوئی ہے۔"


---


روحوں کی قید


اب لائبریری صرف کہانیوں کا نہیں، بلکہ روحوں کا قید خانہ بن چکی تھی۔

ہر سیٹ سے ایک نیا کردار، ایک نیا راز، ایک نئی "ادھوری پکار" سنائی دیتی۔


سیٹ 18C پر ایک چھوٹی بچی، رادھا شریواستو، اسکول یونیفارم میں داخل ہوئی۔

"چاچا… میں لَندن اسکول میں ایوارڈ لینے جا رہی تھی… لیکن اب میری گڑیا گم ہو گئی۔"


وہ ہر روز کتابوں کے بیچ "اپنی گڑیا" ڈھونڈتی تھی۔

اس کی آواز اب بھی گونجتی:

"دِیا، تم کہاں ہو؟"


---


اذان اور گھنٹی کی گونج


ایک رات، جیسے کوئی سنگم ہو گیا۔

اذان کی آواز لائبریری کے ایک کونے سے ابھری، تو دوسرے کونے سے شنکھ کی گونج نے جواب دیا۔

پنڈت مہیش اور امّی فاطمہ بی، دونوں سامنے کھڑے تھے۔


"یہ سایہ اب ہندو یا مسلم میں فرق نہیں کرتا… یہ صرف وہ دکھ کھاتا ہے جو محبت کے بغیر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔"


امّی نے قرآن کی آیت پڑھی:

"کل نفس ذائقۃ الموت"

اور پنڈت جی نے شلوک دہرایا:

"यदा यदा हि धर्मस्य…"


اور لائبریری کی چھت پر سنہری روشنی کا دائرہ نمودار ہوا۔


---


زیاد کا دوبارہ آنا


اب سایہ واضح ہو چکا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں… زیاد تھا، آئشہ کا پرانا بوائے فرینڈ۔

لیکن وہ خود بھی فلائٹ 242 میں تھا۔

"میں نے آئشہ کو ٹکٹ پر بھیجا، تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے دور چلی جائے۔ مگر میں بھی اسی جہاز میں آ گیا۔ قسمت یا سزا؟"


اب وہ سایہ دونوں مذاہب کے درمیان موجود خالی پن کو چراتا تھا…

جو انسانیت کی جگہ لے چکا تھا۔


---


فیصلہ کن لمحہ: فلائٹ 243 کا ٹکٹ


حارث کے ہاتھ میں ایک پرانا ٹکٹ نمودار ہوا۔

اس پر لکھا تھا:


Passenger: Haris Ahmed | Flight 243 | Status: Pending


اب وہ یا تو "روحوں کی رہائی" کا دروازہ کھول سکتا تھا… یا خود اگلی پرواز کا مسافر بن سکتا تھا۔


پنڈت جی نے کہا:

"فلائٹ 242 کے سب مسافر کہانی بن چکے ہیں، مگر فلائٹ 243 حقیقت ہو سکتی ہے—اگر تم نے اپنی جان دے دی۔"


---


تقدس اور قربانی


حارث نے ایک تسبیح، ایک گھنٹی، ایک گڑیا اور ایک پرانا ڈائری پیٹھ پر باندھی…

اور کہا:

"میں فلائٹ 243 کا مسافر بننے کو تیار ہوں… اگر ان تمام بے قصوروں کو شانتی اور مغفرت ملے۔"


اور تب…

لائبریری روشنی سے بھر گئی۔

رادھا کی گڑیا مل گئی۔

پنڈت جی کی بیٹی کی شادی کی گھنٹی بجی۔

اور آئشہ کی ماں کو خواب میں پہلی بار… ہنستی ہوئی بیٹی نظر آئی۔


------------


 ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"


باب چہارم: "فلائٹ 243 کی روانگی"


ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر:04


---


پہلا منظر: روانگی سے پہلے کی رات


تاریخ: 13 جولائی، وقت: 3:13 AM

لائبریری میں بے قراری کی حدیں پھلانگ چکی تھیں۔ حارث کو کئی راتوں سے نیند نہ آئی۔ دیواروں پر لٹکے کیلنڈرز کے صفحے خودبخود پلٹتے، کلاک کی ٹِک ٹِک دماغ کو کھا جاتی۔


اسی لمحے، ٹیبل پر ایک اور بورڈنگ پاس نمودار ہوا:


Flight No: 243

Seat No: 1C

Name: Haris Ahmed

Status: Confirmed


اور ایک پرچی:

"اس بار تم خود پرواز ہو۔"


---


دوسرا منظر: روانگی کا ٹرمنل – جہاں وقت رکتا ہے


یہ ایئرپورٹ نہ دہلی کا تھا، نہ لندن کا…

یہ وقت اور روح کے درمیان معلق ایک "ٹرمنل زیرو" تھا—جہاں نہ انسان بولتے تھے، نہ روحیں چپ رہتی تھیں۔


حارث کو سامنے وہی چہرے دکھائی دیے جو وہ لائبریری میں روز محسوس کرتا تھا:


رادھا، جس نے اب گڑیا کو سینے سے لگا رکھا تھا


پنڈت مہیش، جس کی پیشانی پر چرن لگے ہوئے تھے


فاطمہ بیگم، جو اب ہنستی تھیں اور گنگناتی تھیں


آئشہ, جس نے سفید لباس میں حارث کی طرف ہاتھ بڑھایا…


"تم نے ہمیں سنا… اب تمھاری پرواز ہے…"


---


تیسرا منظر: فلائٹ کے اندر


سیٹ 1C پر بیٹھتے ہی جہاز کے اسپیکر سے آواز آئی:

"مسافروں سے گزارش ہے کہ اپنی روحیں سنبھال کر رکھیں، کیونکہ یہ پرواز زندگی کی سرحد سے پار جا رہی ہے۔"


جہاز میں ہر سیٹ پر ایک "کہانی" بیٹھی تھی:


سیٹ 2D پر ایک عیسائی نرس جس نے حادثے میں 11 بچوں کو بچایا تھا


سیٹ 4B پر ایک جاپانی سیاح جس کا کیمرا آخری تصویر میں آسمان کی چیخ قید کر چکا تھا


سیٹ 6A پر زیاد، مگر اس بار وہ خاموش تھا… جیسے توبہ کر چکا ہو


اور سب کے درمیان…

سیٹ 13F خالی تھی۔


---


چوتھا منظر: جہاز کا اڑنا…


جیسے ہی جہاز نے پرواز لی، نیچے زمین کا رنگ ماند پڑنے لگا۔

روحیں کھڑکیوں سے دیکھتی گئیں کہ کیسے دنیا میں لوگ صرف زندہ جسم کے ساتھ جی رہے ہیں، مگر روحیں خالی ہو چکی ہیں۔


پنڈت مہیش نے کہا:

"ہمیں یہاں سے جانے دیا گیا ہے، کیونکہ ہم اپنی ادھوری پکار مکمل کر چکے۔"


اور جیسے ہی جہاز بادلوں کے پار پہنچا، ایک سفید روشنی پورے کیبن میں پھیل گئی۔


وہ روشنی "یادوں" کی تھی۔


---


پانچواں منظر: دروازہ… جو انتخاب بن گیا


فلائٹ 243 ایک آسمانی جزیرے پر رکی، جہاں دو دروازے تھے:


1. دروازہ نور کا — جہاں روشنی تھی، شانتی تھی، مغفرت تھی


2. دروازہ سایہ کا — جہاں واپسی تھی، درد تھا، اور کہانیاں ابھی باقی تھیں


سب نے دروازۂ نور کا انتخاب کیا…

مگر حارث ٹھہر گیا۔


"اگر سب چلے گئے… تو ان ہزاروں کہانیوں کو کون مکمل کرے گا؟

ان گمنام مسافروں، ان لاوارث خوابوں، ان ادھورے پیغامات کو کون آواز دے گا؟"


آئشہ نے صرف اتنا کہا:

"اگر تم رکے… تم کبھی مکمل نہیں ہو پاؤ گے، حارث۔"


حارث مسکرایا:

"میں مکمل ہونے نہیں، مکمل کرنے آیا ہوں۔"


---


آخری منظر: لائبریری کی واپسی


فلائٹ 243 روانہ ہو گئی…

روشنی میں سب گم ہو گئے…

اور لائبریری میں صرف ایک لیمپ جلتا رہ گیا…

جس کے نیچے اب ایک نیا بورڈنگ پاس رکھا تھا:


Passenger: Reader

Flight No: 244

Status: TBA (To Be Answered)


اور ایک پرچی:


"اگر تم نے کبھی کوئی کہانی ادھوری چھوڑی ہے، تو وہ تمھیں پکارے گی۔ اور اگر تم نے کبھی سچ بولنے سے ڈر محسوس کیا ہے، تو وہ سایہ تمھیں ڈھونڈے گا… کیونکہ ہر مسافر، ایک کہانی ہے… اور ہر کہانی، ایک پرواز۔"


---------


 ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"


باب پنجم: "دنیا میں علامات کا ظہور"


ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر:05


---


منظر اوّل: دیوار پر لکھی تحریر


ممبئی کے باندرہ اسٹیشن کی ایک دیوار پر صبح کے 3:44 پر ایک اجنبی تحریر نمودار ہوئی:


> "FLIGHT 244 IS NOT JUST A NUMBER. IT'S YOUR TURN TO ANSWER."


پولیس نے فوری پینٹ کر کے مٹا دیا۔ مگر کیمرے کے فریم میں تحریر اب بھی نظر آتی ہے۔


اور صرف ایک فقیر نے دھیمی آواز میں کہا:


"پہلا سایہ لوٹ آیا ہے… تم نے اسے روکا نہیں تھا۔ اب وہ خود بلاوے لے کر آیا ہے…"


---


منظر دوم: مرنے والے، جو خواب میں لوٹ آئے


احمدآباد میں ایک نرس ریوا تریویدی نے 14 مریضوں کی جان بچائی تھی، جو فلائٹ 242 کے متاثرین کے رشتہ دار تھے۔


پانچ راتوں سے وہ ایک ہی خواب دیکھ رہی تھی:


 "ایک جلتا ہوا جہاز آسمان سے نہیں، زمین کے اندر سے اُبھرتا ہے۔ ہر مسافر کی آنکھیں جل رہی ہیں، لیکن وہ بولتے ہیں: ‘ہم واپس آئیں گے، اور تمھیں ساتھ لے جائیں گے!’"


ریوا چیخ کر بیدار ہوئی۔ اس کے بیڈ پر خون سے لکھی تحریر:


"13F اب خالی نہیں رہی"


---


منظر سوم: راجستھان کا ریڈیو اسٹیشن


ریڈیو جاکی راگھو چترویدی روز 10 بجے کا شو کرتا تھا۔ اس دن، اس کی آواز سے پہلے یہ پیغام نشر ہوا:


 "یہ براڈکاسٹ اُن کے لیے ہے جو ابھی گئے نہیں… مگر زندہ بھی نہیں رہے۔"


راگھو گھبرا گیا۔ اس کے اسٹوڈیو میں کوئی نہ تھا۔


اور پھر اس کا فون بجا:


Unknown Number:

"تم نے جو آخری گانا بجایا تھا… وہ جہاز کے آخری سیکنڈ میں بج رہا تھا۔ ہم نے سن لیا تھا، راگھو… اب تمھاری باری ہے۔"


---


منظر چہارم: روحوں کی لائبریری میں ہلچل


حارث لائبریری میں بیٹھا تھا جب اچانک تمام کتابیں خود بخود کھلنے لگیں۔

ہوا میں الفاظ معلق ہو گئے:


 "244 مسافر اب خود کہانیاں نہیں، فیصلے ہیں۔"


فرش پر لکیریں ابھر آئیں، جیسے جہاز کے راستے بن رہے ہوں۔ اور سفید پردے کے پیچھے ایک سایہ کھڑا تھا—نہ مرد، نہ عورت…

بس ایک سوال:


"اگر ہر مسافر کو نجات ملی… تو سیٹ 13F کیوں آباد ہوئی؟"


---


منظر پنجم: دہلی کے لودھی قبرستان میں ہارر


رات کے ٹھیک 1:13 پر ایک قبر کھلی۔

اندر کوئی جسم نہ تھا، صرف ایک بورڈنگ پاس:


Name: Ayesha Bano

Flight: 244

Status: Awaiting


قبرستان کا رکھوالا پاگل ہو گیا۔ بس ایک جملہ دہراتا رہا:


"پروازیں ختم نہیں ہوئیں… اترنے والے اب زمین پر نہیں رکتے!"


---


اختتامی منظر: خبریں، جنہیں کوئی نہیں دکھاتا


ایک زیرِ زمین چینل پر ایک "خفیہ رپورٹ" چلی—

"The Dead Are Boarding Again!"


اس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی، جس میں خالی ایئرپورٹ پر سائے خودکار دروازوں سے اندر داخل ہو رہے ہیں۔

خالی سیٹوں پر بیٹھتے، بورڈنگ پاس پڑھتے، اور پھر اچانک غائب ہو جاتے۔


ریپورٹر کا آخری جملہ:


 "اگر آپ کے موبائل پر فلائٹ 244 کا پیغام آئے… تو یاد رکھئے، یہ دعوت ہے۔ رد کیا، تو سایہ خود آ جائے گا…"

___________


 ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"


باب ششم: واپسی والے مسافر کی اصل شناخت


ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر:06


---


منظر اوّل: دہلی، نجم الحسن کا خواب


نجم الحسن، ایک دینی عالم اور روحانی مفکر، پچھلے ایک ہفتے سے سوتے ہی جاگ اٹھتے تھے۔


اس رات ان کے خواب میں ایک سفید وردی میں ملبوس مسافر آیا، جس کے چہرے پر نہ آنکھیں تھیں، نہ ہونٹ، مگر وہ بول رہا تھا:


> "میں عبدالجبار ہوں… سیٹ نمبر 13F… میں واپس آیا ہوں… مگر اب تنہا نہیں…!"


نجم نے پوچھا:

"کیا تم مر چکے تھے؟"


وہ بولا:

"نہیں… مجھے مارا نہیں گیا… مجھے روکا گیا تھا… اور جب کوئی روح روک لی جائے، وہ لوٹتی نہیں… بھٹکتی ہے…"


---


منظر دوم: کولکتہ کا ہندو نوجوان – اشویک نارائن


اشویک، جو پارا سائیکالوجی کے مطالعے میں تھا، روز رات 13:44 پر ایک آواز سنتا:


> "تم نے جب ریل گاڑی میں اس کو دھکا دیا تھا… وہ نہیں گرا… وہ وقت سے گرایا گیا…"


اس کی ڈائری میں عبدالجبار کا ذکر تھا، حالانکہ وہ اس سے کبھی ملا نہیں۔


ایک دن اس نے خواب میں 13F کا دروازہ کھولا… اور سامنے عبدالجبار کھڑا تھا:


"اشویک… تم نے جو کیا تھا، وہ مکافات بن چکا ہے۔ اب تم مسافر نہیں… رہنما بننے والے ہو!"


---


منظر سوم: عبدالجبار کی زندگی کی جھلک


سنہ 2013 – عبدالجبار ایک صحافی تھا، جس نے ایک حساس فائل حاصل کی تھی۔

فائل میں "AIR-MANTRA" نامی ایک تجرباتی منصوبہ کا راز تھا:

جہازوں کو استعمال کرتے ہوئے انسانی شعور کے ساتھ تجربات۔


اسی فائل کی وجہ سے اسے فلائٹ 242 میں بٹھا دیا گیا۔

لیکن… وہ منزل پر کبھی نہ پہنچا۔


اس کے گھر والوں کو اس کی لاش نہ ملی، نہ شناخت۔


اب، 11 سال بعد… وہ “واپس” آیا ہے۔


---


منظر چہارم: سیٹ 13F کی شہادت


سیٹ 13F کے نیچے ایک بلیک باکس چھپا ہوا تھا، جو اصل بلیک باکس نہیں تھا۔

جب فلائٹ 244 کے چیکنگ اسٹاف نے اسے کھولا، تو ایک ہولوگرام چل پڑا:


> "عبدالجبار زندہ ہے… تم سب خواب ہو… اس کی سچائی میں…"


> "جنہوں نے مجھے جلانے کی کوشش کی، وہ خود آگ میں جا رہے ہیں… کیونکہ سچ اب اترنے والا ہے… فلائٹ 244 پر۔"


-----------


منظر پنجم: انسانیت کو پیغام


دنیا بھر کے ہارٹس، ریڈیوز، موبائل اسکرینز، سب پر ایک ہی لائن ظاہر ہونے لگی:


> "عبدالجبار آ چکا ہے… اور ہر شخص جس نے جھوٹ کو زندگی کا لباس پہنایا… اب سچ کا بوجھ اٹھائے گا۔"


---


منظر اختتام: نیا انکشاف


ایک نابینا بچی نے عبدالجبار کی آواز پہچانی۔


"یہ وہی انکل ہیں جو مجھے 2013 میں دہلی میٹرو کے اسٹیشن پر کہانی سناتے تھے… وہ مرے نہیں تھے، بس چھپ گئے تھے، تاکہ کوئی انہیں سن سکے…"

______


 ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"


باب ہفتم: زمین کی طرف


ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر: 07


---


منظر اوّل: بھارتی گاؤں "کالاپتھر"


رات کے تین بجے کا وقت تھا۔

گاؤں کے بزرگ پنڈت رتن لال نے اپنی جھونپڑی کے باہر جلتی ہوئی اگر بتیوں میں ایک سایہ دیکھا۔

وہ سایہ انسانی تھا… مگر اس کا سایہ زمین پر نہیں پڑ رہا تھا۔


وہ بڑبڑایا:

"یہ پاتال کا بھٹکا ہوا ہے… یہ زندہ ہے، مگر مر چکا ہے!"


اسی وقت، پورے گاؤں میں عجیب آوازیں گونجنے لگیں… پھر ہر دیوار پر خون سے لکھا گیا:


> "زمین پر وہ سب کچھ لوٹ رہا ہے جو چھین لیا گیا تھا!"


---


منظر دوم: دہلی ایئرپورٹ — ٹاور کنٹرول


فلائٹ 244 زمین کی طرف رواں دواں تھی۔

اچانک، ریڈار نے اطلاع دی:


"ہمیں ایک اور جہاز نظر آ رہا ہے، مگر وہ ریجسٹرڈ نہیں ہے… اس کا نمبر… 242 ہے!"


ایئر ٹریفک کنٹرولر سہم گیا:

"لیکن وہ تو 11 سال پہلے تباہ ہو چکا تھا!"


دونوں جہاز زمین کے مدار پر اکٹھے نظر آئے…

اور پھر اچانک غائب ہو گئے۔


---


منظر سوم: زمین پر پہلا اثر


اندور، احمدآباد، پٹنہ، بنگلور، اور چنئی میں اچانک پانچ مسافروں کی لاشیں ملیں۔

سب کے ہاتھوں پر جلنے کے نشان تھے، مگر کوئی آگ نہیں لگی تھی۔


لاشوں کے قریب بس ایک چیز ملی:


13F – RETURNED


ڈاکٹرز نے کہا:

"دل کی دھڑکن چلی گئی تھی، مگر آنکھیں کھلی تھیں… جیسے کسی نے ان سے کچھ ‘دکھا’ دیا ہو۔"


---


منظر چہارم: عبدالجبار کا زمینی قیام


نجم الحسن اور اشویک اب اکٹھے ہو چکے تھے۔

دونوں کو ایک مقام پر بلایا گیا: ناگور کا پرانا قلعہ۔


وہاں عبدالجبار کھڑا تھا، زندہ… لیکن آنکھوں میں انسانوں کی نہیں، صدیوں کی تھکن تھی۔


اس نے کہا:


 "زمین پر لوٹ کر آیا ہوں… مگر وقت کی چھت نیچے گرنے والی ہے۔"


"فلائٹ 242 کے مسافر صرف مرے نہیں… انہیں ‘روک’ دیا گیا۔ اب وہ سب زمین پر واپس آ چکے ہیں… مگر جسموں میں نہیں… حادثات میں، خوابوں میں، روشنیوں میں…"


---


منظر پنجم: خواب، دھماکہ، انکشاف


ایک رات اشویک نے خواب میں دہلی کو جلتے ہوئے دیکھا، نجم نے قرآن کا ورق دیکھا جو ہواؤں میں اُڑ رہا تھا۔


دونوں اٹھے… اور موبائل فون کی اسکرین پر ایک ہی پیغام تھا:


> "13F کا دروازہ کھل چکا ہے… اب ہر زمین پر ‘جو چھپا تھا’، ظاہر ہو گا!"


---


 باب کا اختتام...


زمین صرف مٹی نہیں، وہ سب کچھ سنبھال لیتی ہے جو چھپا دیا گیا ہو —

لیکن کب تک؟

________


 ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"


باب ہشتم: 13F کا راز


ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر:08


---


منظر اوّل: راجستھان کا بنجر ریگستان – رات کا دوسرا پہر


عبدالجبار، نجم اور اشویک… تینوں ایک پرانی، ویران جگہ پہنچتے ہیں۔

جیسے ہی وہ 13 قدم اندر داخل ہوتے ہیں…

زمین ہلتی ہے… فضا میں گونج اٹھتی ہے ایک آواز:


> "تم نے دروازہ کھول دیا ہے… اب جو آ رہا ہے، اسے کوئی نہیں روک سکتا!"


13F محض ایک سیٹ نمبر نہیں تھا…

بلکہ 13 Fate (تقدیر) کا راز تھا —

وہ مسافر جو اس سیٹ پر بیٹھا تھا، نہ مکمل زندہ تھا نہ مکمل مردہ…

بلکہ "منتقل" ہو چکا تھا ایک وقفے میں — جہاں وقت، موت اور زندگی کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں۔


---


منظر دوم: سچ کا چہرہ


نجم کی آنکھیں بند ہوتی ہیں… اور وہ دیکھتا ہے:

242 کی پرواز، فضا میں تحلیل ہو رہی ہے،

مگر ہر مسافر ایک "یاد" بن کر اپنوں کے خوابوں میں واپس آ رہا ہے۔


کوئی ماں اپنی بچی کی ہنسی خواب میں سنتی ہے،

کوئی بیوی اپنے شوہر کو آئینے میں دیکھتی ہے،

کوئی باپ سڑک پار کرتے ہوئے بیٹے کی آواز سن لیتا ہے۔


> موت نے جسم چھینے، مگر یادوں نے رشتے واپس کر دیے…


---


منظر سوم: آخری وارننگ


اشویک دیوار پر لکھا دیکھتا ہے:


> "آخری نشست… آخری دروازہ… آخری سانس!"


عبدالجبار کہتا ہے:


> "اب ہمیں واپس جانا ہو گا،

کیونکہ اصل زندگی وہ ہے…

جو موت کے بعد بھی اثر چھوڑ جائے!"


اسی لمحے، وہ سب ایک جھماکے کے ساتھ غائب ہو جاتے۔

___________ 


 باب نہم (آخری): زمین کی خاموش چیخ


ناولٹ: فلائٹ 242 — آخری نشست 

ناول نگار: علیم طاہر

باب نمبر: 09


---


منظر: بھارت کے مختلف گوشے — خوابوں کا جاگنا


پٹنہ میں ایک ماں سوتے ہوئے ہڑبڑا کر اٹھتی ہے،

ممبئی کے ایک یتیم خانے میں چھ بچے ایک ساتھ چیخ اٹھتے ہیں،

چنئی کے ایک لڑکے نے نیند میں اپنی ماں سے کہا:


 "ممی! میں واپس آ گیا… مگر صرف تھوڑی دیر کے لیے!"


دہلی میں ایک لڑکی نے اپنی ڈائری میں تحریر کیا:


 "آج خواب میں وہی سیٹ نمبر تھا… 13F… اور سناٹا… بہت گہرا سناٹا!"


حیدرآباد کے ایک بزرگ پنڈت نے صبح سویرے ایک بیان دیا:


 "رات بھر ایک پنکھا چلتا رہا میرے کمرے میں… لیکن بجلی بند تھی…

یہ کوئی سادہ ہوا نہ تھی، یہ کسی کی روح کی واپسی تھی!"


---


علامتیں بولنے لگیں


بھارت کے مختلف علاقوں میں

مندر، مسجدیں، کلیسا اور گردوارے — سب میں ایک جیسا سکوت طاری ہے۔

بغیر کسی خاص دن کے،

ہر جگہ شمعیں جلائی جا رہی ہیں۔


رشی کیش کے ایک یوگی نے کہا:


 "ہوائی حادثے کے صرف جسمانی اثرات نہیں ہوتے…

کچھ پروازیں وقت سے باہر نکل کر

انسانی ضمیر کے اندر اترا کرتی ہیں!"


---


13F کی حقیقت


اب یہ واضح ہو چکا ہے —

سیٹ 13F کسی خاص شخص کی نہیں تھی،

بلکہ ایک امتحان تھا:


 کون ایمان کے ساتھ گیا؟

کون گناہ کے بوجھ تلے دب گیا؟

اور کس کی یادیں اتنی طاقتور تھیں کہ

موت کے بعد بھی واپس آ گئیں؟


--

آخری جملہ:

اشویک کی یادیں عبدالجبار کو خواب میں مخاطب کرتی ہیں:


 "زندگی کی پرواز میں ہر کوئی مسافر ہے…

مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں

جو اپنی سیٹ کے ساتھ افسانہ بن جاتے ہیں!"


---


اختتامی پیغام


فلائٹ 242 ختم ہو گئی،

مگر اس کی بازگشت ہندوستان کی فضا میں

ابھی دیر تک گونجتی رہے گی۔


سیٹ 13F… اب خالی ہے…

مگر تم اگر اپنی زندگی کو بےمعنی گزارو گے

تو تم بھی ایک دن…

اسی سیٹ پر اکیلے بیٹھے

اگلی پرواز کے منتظر ہو گے…

اور شاید یہ پرواز واپسی کی نہ ہو!


---


 ختم شد


) اگر آپ کو یہ ناولٹ پسند تو ضرور شئیر کر دیجیۓ گا)


ناولٹ: فلائٹ 242 — آخری نشست

ناول نگار: علیم طاہر


_________________


(C): Novelet 

"Flight 242_ Aakhiri nashisht "

Novel Nigar:

 Aleem Tahir 

Email id: aleemtahir12@gmail.com 

______________