ناولٹ لکھتے وقت میری انگلیاں کانپ رہی تھیں
ناولٹ:--نمبر 01
فلائٹ 242 آخری نشست
ناول نگار: علیم طاہر
___
پیش لفظ:
از: علیم طاہر
زندگی کیا ہے؟
ایک پرواز؟
یا ایک ایسی نشست… جس کا نمبر ہمیں معلوم نہیں، لیکن روانگی طے شدہ ہے؟
ناولٹ "فلائٹ 242 — آخری نشست" کا بیج ایک سادہ سی خبر نے بویا:
"ایک طیارہ جو روانہ ہوا… کبھی اپنی منزل پر نہ پہنچا۔"
مگر اس خبر کے سائے میں جو انسانی کہانیاں تھیں — وہ کہانیاں جن میں محبتیں تھیں، دعائیں تھیں، وعدے اور خواب تھے — وہ کبھی سرخیوں کا حصہ نہ بن سکیں۔
یہ ناولٹ صرف ایک ہوائی حادثے کی داستان نہیں،
بلکہ اُن 242 زندگیوں کی خاموش چیخ ہے،
جنھوں نے ایک مسافر طیارے میں بیٹھ کر سوچا نہ تھا
کہ ان کی اگلی منزل "زمین" نہیں… ازل ہے۔
یہ افسانہ انسان اور اس کی روح کے درمیان ایک مکالمہ ہے۔
یہ کہانی ان لوگوں کی ہے جو چلے گئے،
اور ان کی بھی جو بچ گئے… لیکن زندگی سے ہار گئے۔
یہاں آپ کو ہارر بھی ملے گا،
ایسا ہارر جو آپ کی روح کو جھنجھوڑ دے گا —
لیکن چیخوں یا خون میں نہیں،
بلکہ یادوں، پچھتاووں اور ادھورے خوابوں کی خامشی میں۔
یہ کہانی ایک ایسی نشست "13F" کی بھی ہے،
جو نہ صرف ایک مسافر کی، بلکہ ہم سب کی شناخت بن سکتی ہے —
اگر ہم نے وقت سے پہلے زندگی کی سمت نہ بدلی۔
یہ ناولٹ تھرلر ہے، عبرت ہے،
ایک روحانی آئینہ ہے —
جس میں جھانکنے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔
اگر آپ نے یہ کہانی دل سے پڑھی…
تو شاید آپ بھی ایک لمحے کو اپنی زندگی کی پرواز کو روک کر
خود سے یہ سوال کریں گے:
> "میں کس طرف جا رہا ہوں؟
اور کیا میری نشست — میری زندگی —
ابھی باقی ہے… یا ختم ہو چکی ہے؟"
علیم طاہر
(ناول نگار)
جون، 2025
-----------
ناولٹ نمبر:01
عنوان: ’’فلائٹ 242: آخری نشست‘‘
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر:01
---
جہاز نے اڑان بھری، سوا تین بجے کی گھڑی نے جیسے آسمان پر بھی سناٹا تان دیا۔ عملے کی ہلکی سی مسکراہٹیں، مسافروں کی دعائیں، اور جہاز کا پر سکون شور—سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔
لیکن معمول ہمیشہ دھوکہ ہوتا ہے۔
سیٹ 33B پر بیٹھا حارث علوی اپنی بیٹی نایاب کی تصویر ہاتھ میں لیے مسلسل پڑھ رہا تھا:
"پاپا پلیز جلدی واپس آنا، آپ کے بغیر گھر میں اندھیرا سا لگتا ہے۔"
ایک بوڑھی عورت، جس کی آنکھیں دھندلا چکی تھیں، 33A پر بیٹھی تھیں۔ انھوں نے اچانک کہا:
"بیٹا، تمھیں معلوم ہے، کبھی کبھی زمین تمہیں بلاتی ہے… اور آسمان اجازت دے دیتا ہے۔"
حارث چونکا، لیکن جواب دینے سے پہلے ہی ایک زوردار جھٹکا لگا۔ جہاز ایک لمحے کو ہچکولے کھا کر سنبھلا، پھر اچانک روشنی بجھ گئی۔
چند سیکنڈ۔ بس چند سیکنڈ۔
پھر کچھ بھی باقی نہ رہا۔
---
"ان بیچ لمحوں کی دنیا"
حارث کی آنکھ کھلی۔ نہ جہاز تھا، نہ شور، نہ دھواں، نہ چیخیں۔ بس ایک پراسرار خاموشی۔
وہ ایک سرنگ جیسی راہداری میں کھڑا تھا، جہاں دیواریں شفاف تھیں اور ہر طرف سفید روشنی پھیلی تھی۔
سامنے ایک بورڈ چمک رہا تھا:
> "فلائٹ 242 – ٹرمینل آف بیٹوین"
"زندگی اور موت کے بیچ کا اسٹاپ"
وہاں لوگ تھے—جن کے جسم نہیں، صرف احساسات تھے۔ وہ بولتے نہیں، مگر ان کی سوچیں گونجتی تھیں۔
کوئی رو رہا تھا، کوئی ہنس رہا تھا، اور کوئی خاموشی سے اپنے "گناہوں کی اسکرین" دیکھ رہا تھا۔
حارث نے دیوار پر اپنا چہرہ دیکھا—مگر وہ خود کو پہچان نہ پایا۔
تبھی ایک آواز آئی:
"یہ وہ لمحہ ہے جو زندگی کے بعد نہیں، بلکہ زندگی سے پہلے چھینا جاتا ہے۔"
"یہاں کیا ہو رہا ہے؟" حارث نے چیخ کر پوچھا۔
ایک سایہ نمودار ہوا، جس کا چہرہ نہ تھا، آواز تھی:
"تم سب کو موت نہیں آئی... ابھی نہیں۔ تمھیں واپس جانا ہے، ایک سچائی لے کر…"
---
"کون ہے سچا مسافر؟"
سایہ حارث کو ایک طویل راہداری میں لے گیا جہاں مختلف افراد کھڑے تھے۔
ایک بزنس مین اپنی دولت کے نوٹ گن رہا تھا، لیکن اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
ایک نوجوان لڑکی جس نے خودکشی کی تھی، وہ اس سفر میں شامل ہو چکی تھی تاکہ اپنا "فیصلہ" واپس لے سکے۔
ایک معذور بچہ وہاں کھڑا تھا اور بار بار کہتا:
"مجھے دوبارہ ماں کی گود چاہیے۔"
ہر ایک کے پاس ایک "ٹکٹ" تھا، لیکن واپسی کا نہیں… "معافی" کا۔
---
"تبدیلی کا انتخاب"
سایہ بولا:
"تمھیں ایک موقع دیا جا رہا ہے، واپس جا کر کچھ ایسا کر جاؤ، جو تمھاری موت کے بعد زندہ رہے۔"
"کیا سب کو یہ موقع ملتا ہے؟" حارث نے سوال کیا۔
"نہیں، صرف اسے... جو زندگی میں دوسروں کے لئے جیتا ہے، مرنے کے بعد بھی۔"
اسی لمحے، راہداری لرزنے لگی۔ سب کچھ دھند میں تبدیل ہوا۔
---
"واپسی… مگر کیوں؟"
حارث کی آنکھ اسپتال میں کھلی۔ اس کا جسم جھلسا ہوا تھا۔ وہ فلائٹ کا واحد زندہ بچنے والا تھا۔
پہلا جملہ جو اس نے بولا:
"مجھے اپنی بیٹی کو گلے لگانا ہے… اور اس بوڑھی عورت کو تلاش کرنا ہے جس نے مجھ سے کہا تھا… 'زمین بلاتی ہے'۔"
میڈیا، دنیا، عدالت، کمپنیاں، سب اس سے انٹرویو چاہتے تھے، لیکن وہ خاموش رہا۔
بس ایک دن اس نے ایک چھوٹی سی لائبریری کھولی:
"فلائٹ 242 میموری کلب"
جہاں وہ ان تمام لوگوں کی کہانیاں سناتا، جو زندہ تو نہیں رہے، مگر ان کے سپنے ابھی تک آسمان پر پرواز کر رہے ہیں۔
---
شروعات یا ابتدا:
آج بھی جب شام کو وہ راہداری میں بیٹھتا ہے، کبھی کبھی اسے ایک سایہ نظر آتا ہے…
بغیر چہرے کا، مگر آواز میں سکون:
"تم نے واپسی کا مقصد پورا کیا، اب فلائٹ 243 کے لیے تیار ہو جاؤ…"
---
پیغام:
زندگی اور موت کے درمیان جو لمحہ ہے، وہی اصل زندگی ہے۔ اسی لمحے میں ہمیں دوسروں کے لیے جینا سیکھنا ہے۔
________
ناولٹ: ’’فلائٹ 242: آخری نشست‘‘
باب دوم: ’’رازداری کا دروازہ‘‘
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر: 02
---
"کہانیاں مرنے والوں کی، کبھی ختم نہیں ہوتیں۔"
یہ جملہ اسپتال کی دیوار پر لگا تھا، جہاں حارث کی زندگی کی دوسری قسط شروع ہوئی۔
---
نئی آنکھیں، پرانا خواب
حارث اسپتال سے فارغ ہو چکا تھا۔ جسم کے کئی حصے اب بھی جلنے کی اذیت سے گزر رہے تھے، مگر روح کے زخم کہیں گہرے تھے۔
اس نے لائبریری "میموری کلب" کو باضابطہ آغاز دیا—لیکن مقصد محض کتابیں پڑھنا نہیں تھا… بلکہ ان کہانیوں کو سننا تھا جو مکمل نہ ہو سکیں۔
وہ روز شام کو ایک پرانی کرسی پر بیٹھتا، سامنے رکھا ٹیپ ریکارڈر چلاتا، اور کہتا:
"آج ہم اس کی کہانی سنیں گے… جس نے مرنے سے پہلے خواب دیکھے تھے، مگر جاگنے سے پہلے دنیا چھوڑ دی۔"
---
پہلی دستک
ایک دن، سرد ہوا کے جھونکے کے ساتھ، لائبریری کے دروازے پر ایک نوجوان لڑکی داخل ہوئی۔ لباس خاکی، بال بکھرے، آنکھوں میں گہرا خوف۔
"میں آئشہ خان ہوں… سیٹ 12F کی مسافر…"
حارث چونکا۔
"مگر تم تو۔۔۔"
"ہاں، میں مر چکی ہوں۔ مگر میری ماں ہر رات روتی ہے… اور جب زندہ لوگ رو رہے ہوں، مرنے والوں کو بھی سکون نہیں آتا۔"
آئشہ اب صرف ایک سایہ تھی، مگر اتنی صاف، جیسے روشنی ہو۔
"تمہیں میری کہانی سنانی ہوگی، حارث… تاکہ میری ماں جان سکے، میں کیسے مری… اور کیوں واپس آئی۔"
---
سچ کی قیمت
آئشہ نے بتایا کہ وہ لندن ایک نیا کنسرٹ شروع کرنے جا رہی تھی، مگر اس کے بوائے فرینڈ زیاد نے ٹکٹ کینسل کرنے کو کہا تھا۔
"میں نے ضد کی… زیبا کی طرح نہیں بننا چاہتی تھی، جو ہر بات مان لے۔"
"زیبا کون؟" حارث نے پوچھا۔
آئشہ خاموش ہو گئی۔
اگلی رات، زیبا خود لائبریری میں آ گئی۔
"میں سیٹ 12E پر تھی۔ آئشہ کی دوست۔"
"پھر تم بھی…"
"نہیں۔ مجھے ایرپورٹ پہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایک جھگڑے کے بعد۔ آئشہ اکیلی گئی… اور مر گئی۔"
زیبا کے ہاتھ میں ایک بوسیدہ ڈائری تھی، جس پر آئشہ کی تحریر تھی:
"زیاد مجھے مارتا ہے، مگر میں دنیا کو نہیں بتاؤں گی۔ کیونکہ محبت کے نام پر میں خود کو دفن کرنا چاہتی ہوں۔"
---
لائبریری میں اندھیرے کی آمد
اب ہر رات کوئی نیا سایہ آتا۔
کوئی گلوکار، کوئی معذور، کوئی قاتل، کوئی مقتول۔
لائبریری اب ایک عام جگہ نہیں رہی تھی، بلکہ رازداری کا دروازہ بن چکی تھی، جہاں زندگی اور موت کی کہانیاں دم سادھ کر بیٹھتی تھیں۔
ایک رات، جب چاند چھپا ہوا تھا، دروازے پر ایک بوڑھا شخص آیا۔
"میں سیٹ 1A پر تھا… لیکن میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔"
"کون تھے آپ؟"
"میں کپتان راہی خان… اس فلائٹ کا پائلٹ۔"
---
پائلٹ کا راز
راہی خان کی کہانی نے حارث کو لرزا دیا۔
"وہ حادثہ صرف فطری نہیں تھا… کاک پٹ میں ایک سایہ آ چکا تھا… جیسے اندھیرا ہماری سانسوں میں گھس گیا ہو۔"
"سایہ؟"
"ہاں… وہ سایہ جو موت نہیں، بلکہ وقت کا قیدی ہے۔ جو اِن لمحوں کو چرا لیتا ہے جہاں انسان حقیقت اور خواب کے بیچ ہوتا ہے۔"
"یہ سایہ... اب تمھاری لائبریری میں داخل ہو چکا ہے، حارث۔"
---
لائبریری میں موت کا سایہ
اب لائبریری میں عجیب آوازیں آنے لگیں۔ کتابیں خود سے کھلنے لگیں، اور آئینے میں ایک سیاہ شبیہہ نظر آنے لگی۔
ایک رات، حارث نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی، مگر دروازہ اندر سے کھلا رہا۔
"فلائٹ 243 تیار ہے۔"
ایک کٹی پھٹی آواز ابھری۔
---
انتخاب
پائلٹ نے کہا:
"تمھیں اب دوسرا انتخاب کرنا ہے، حارث۔ یا تو ان سب مسافروں کو کہانیوں میں زندہ رکھو… یا اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند کر دو اور سایے کو قید کر دو—مگر اس کی قیمت دو گی… اپنی بیٹی کی ہنسی۔"
حارث لرز گیا۔
"کیا بیٹی کی ہنسی بھی قربانی میں جائے گی؟"
"زندگی صرف ایک بار ملتی ہے، لیکن کبھی کبھی… وہ کہانیوں کی شکل میں دوبارہ لوٹ آتی ہے۔ فیصلہ تمھارا ہے۔"
---------
ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"
باب سوم: "چرن کی گھنٹی اور اذان کی صدا"
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر: 03
---
کہانی کا آغاز… موت کے بعد
بنارس کی گھاٹوں پر شام کا دیپ جل رہا تھا، لیکن اسی لمحے حارث کی لائبریری میں ایک نئی دستک ہوئی۔
دروازہ کھلتے ہی ایک پگھلتا ہوا دیا اندر داخل ہوا۔ وہ روشنی تھی اور وہی روشنی… ایک سایہ بھی ساتھ لائی تھی۔
"میں پنڈت مہیش نارائن ہوں… سیٹ 9A پر تھا…"
آواز مدھم مگر عمیق تھی۔
---
پنڈت جی کی پکار
"حارث بھائی، جس رات فلائٹ گری، میں ‘کاشی وِشوناتھ’ جا رہا تھا… اپنی بیٹی کی شادی کے لئے آشرواد لینے۔ وہ آخری تلاوت میرے لبوں پر تھی:
‘ॐ नमः शिवाय’
اور پھر… دھماکہ، اندھیرا… خاموشی۔"
حارث چونکا۔
"آپ… یہاں کیسے؟"
"سایہ مجھے یہیں لایا ہے… اس نے کہا تمھاری لائبریری میں میری بیٹی کی روح پھنسی ہوئی ہے۔"
---
روحوں کی قید
اب لائبریری صرف کہانیوں کا نہیں، بلکہ روحوں کا قید خانہ بن چکی تھی۔
ہر سیٹ سے ایک نیا کردار، ایک نیا راز، ایک نئی "ادھوری پکار" سنائی دیتی۔
سیٹ 18C پر ایک چھوٹی بچی، رادھا شریواستو، اسکول یونیفارم میں داخل ہوئی۔
"چاچا… میں لَندن اسکول میں ایوارڈ لینے جا رہی تھی… لیکن اب میری گڑیا گم ہو گئی۔"
وہ ہر روز کتابوں کے بیچ "اپنی گڑیا" ڈھونڈتی تھی۔
اس کی آواز اب بھی گونجتی:
"دِیا، تم کہاں ہو؟"
---
اذان اور گھنٹی کی گونج
ایک رات، جیسے کوئی سنگم ہو گیا۔
اذان کی آواز لائبریری کے ایک کونے سے ابھری، تو دوسرے کونے سے شنکھ کی گونج نے جواب دیا۔
پنڈت مہیش اور امّی فاطمہ بی، دونوں سامنے کھڑے تھے۔
"یہ سایہ اب ہندو یا مسلم میں فرق نہیں کرتا… یہ صرف وہ دکھ کھاتا ہے جو محبت کے بغیر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔"
امّی نے قرآن کی آیت پڑھی:
"کل نفس ذائقۃ الموت"
اور پنڈت جی نے شلوک دہرایا:
"यदा यदा हि धर्मस्य…"
اور لائبریری کی چھت پر سنہری روشنی کا دائرہ نمودار ہوا۔
---
زیاد کا دوبارہ آنا
اب سایہ واضح ہو چکا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں… زیاد تھا، آئشہ کا پرانا بوائے فرینڈ۔
لیکن وہ خود بھی فلائٹ 242 میں تھا۔
"میں نے آئشہ کو ٹکٹ پر بھیجا، تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے دور چلی جائے۔ مگر میں بھی اسی جہاز میں آ گیا۔ قسمت یا سزا؟"
اب وہ سایہ دونوں مذاہب کے درمیان موجود خالی پن کو چراتا تھا…
جو انسانیت کی جگہ لے چکا تھا۔
---
فیصلہ کن لمحہ: فلائٹ 243 کا ٹکٹ
حارث کے ہاتھ میں ایک پرانا ٹکٹ نمودار ہوا۔
اس پر لکھا تھا:
Passenger: Haris Ahmed | Flight 243 | Status: Pending
اب وہ یا تو "روحوں کی رہائی" کا دروازہ کھول سکتا تھا… یا خود اگلی پرواز کا مسافر بن سکتا تھا۔
پنڈت جی نے کہا:
"فلائٹ 242 کے سب مسافر کہانی بن چکے ہیں، مگر فلائٹ 243 حقیقت ہو سکتی ہے—اگر تم نے اپنی جان دے دی۔"
---
تقدس اور قربانی
حارث نے ایک تسبیح، ایک گھنٹی، ایک گڑیا اور ایک پرانا ڈائری پیٹھ پر باندھی…
اور کہا:
"میں فلائٹ 243 کا مسافر بننے کو تیار ہوں… اگر ان تمام بے قصوروں کو شانتی اور مغفرت ملے۔"
اور تب…
لائبریری روشنی سے بھر گئی۔
رادھا کی گڑیا مل گئی۔
پنڈت جی کی بیٹی کی شادی کی گھنٹی بجی۔
اور آئشہ کی ماں کو خواب میں پہلی بار… ہنستی ہوئی بیٹی نظر آئی۔
------------
ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"
باب چہارم: "فلائٹ 243 کی روانگی"
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر:04
---
پہلا منظر: روانگی سے پہلے کی رات
تاریخ: 13 جولائی، وقت: 3:13 AM
لائبریری میں بے قراری کی حدیں پھلانگ چکی تھیں۔ حارث کو کئی راتوں سے نیند نہ آئی۔ دیواروں پر لٹکے کیلنڈرز کے صفحے خودبخود پلٹتے، کلاک کی ٹِک ٹِک دماغ کو کھا جاتی۔
اسی لمحے، ٹیبل پر ایک اور بورڈنگ پاس نمودار ہوا:
Flight No: 243
Seat No: 1C
Name: Haris Ahmed
Status: Confirmed
اور ایک پرچی:
"اس بار تم خود پرواز ہو۔"
---
دوسرا منظر: روانگی کا ٹرمنل – جہاں وقت رکتا ہے
یہ ایئرپورٹ نہ دہلی کا تھا، نہ لندن کا…
یہ وقت اور روح کے درمیان معلق ایک "ٹرمنل زیرو" تھا—جہاں نہ انسان بولتے تھے، نہ روحیں چپ رہتی تھیں۔
حارث کو سامنے وہی چہرے دکھائی دیے جو وہ لائبریری میں روز محسوس کرتا تھا:
رادھا، جس نے اب گڑیا کو سینے سے لگا رکھا تھا
پنڈت مہیش، جس کی پیشانی پر چرن لگے ہوئے تھے
فاطمہ بیگم، جو اب ہنستی تھیں اور گنگناتی تھیں
آئشہ, جس نے سفید لباس میں حارث کی طرف ہاتھ بڑھایا…
"تم نے ہمیں سنا… اب تمھاری پرواز ہے…"
---
تیسرا منظر: فلائٹ کے اندر
سیٹ 1C پر بیٹھتے ہی جہاز کے اسپیکر سے آواز آئی:
"مسافروں سے گزارش ہے کہ اپنی روحیں سنبھال کر رکھیں، کیونکہ یہ پرواز زندگی کی سرحد سے پار جا رہی ہے۔"
جہاز میں ہر سیٹ پر ایک "کہانی" بیٹھی تھی:
سیٹ 2D پر ایک عیسائی نرس جس نے حادثے میں 11 بچوں کو بچایا تھا
سیٹ 4B پر ایک جاپانی سیاح جس کا کیمرا آخری تصویر میں آسمان کی چیخ قید کر چکا تھا
سیٹ 6A پر زیاد، مگر اس بار وہ خاموش تھا… جیسے توبہ کر چکا ہو
اور سب کے درمیان…
سیٹ 13F خالی تھی۔
---
چوتھا منظر: جہاز کا اڑنا…
جیسے ہی جہاز نے پرواز لی، نیچے زمین کا رنگ ماند پڑنے لگا۔
روحیں کھڑکیوں سے دیکھتی گئیں کہ کیسے دنیا میں لوگ صرف زندہ جسم کے ساتھ جی رہے ہیں، مگر روحیں خالی ہو چکی ہیں۔
پنڈت مہیش نے کہا:
"ہمیں یہاں سے جانے دیا گیا ہے، کیونکہ ہم اپنی ادھوری پکار مکمل کر چکے۔"
اور جیسے ہی جہاز بادلوں کے پار پہنچا، ایک سفید روشنی پورے کیبن میں پھیل گئی۔
وہ روشنی "یادوں" کی تھی۔
---
پانچواں منظر: دروازہ… جو انتخاب بن گیا
فلائٹ 243 ایک آسمانی جزیرے پر رکی، جہاں دو دروازے تھے:
1. دروازہ نور کا — جہاں روشنی تھی، شانتی تھی، مغفرت تھی
2. دروازہ سایہ کا — جہاں واپسی تھی، درد تھا، اور کہانیاں ابھی باقی تھیں
سب نے دروازۂ نور کا انتخاب کیا…
مگر حارث ٹھہر گیا۔
"اگر سب چلے گئے… تو ان ہزاروں کہانیوں کو کون مکمل کرے گا؟
ان گمنام مسافروں، ان لاوارث خوابوں، ان ادھورے پیغامات کو کون آواز دے گا؟"
آئشہ نے صرف اتنا کہا:
"اگر تم رکے… تم کبھی مکمل نہیں ہو پاؤ گے، حارث۔"
حارث مسکرایا:
"میں مکمل ہونے نہیں، مکمل کرنے آیا ہوں۔"
---
آخری منظر: لائبریری کی واپسی
فلائٹ 243 روانہ ہو گئی…
روشنی میں سب گم ہو گئے…
اور لائبریری میں صرف ایک لیمپ جلتا رہ گیا…
جس کے نیچے اب ایک نیا بورڈنگ پاس رکھا تھا:
Passenger: Reader
Flight No: 244
Status: TBA (To Be Answered)
اور ایک پرچی:
"اگر تم نے کبھی کوئی کہانی ادھوری چھوڑی ہے، تو وہ تمھیں پکارے گی۔ اور اگر تم نے کبھی سچ بولنے سے ڈر محسوس کیا ہے، تو وہ سایہ تمھیں ڈھونڈے گا… کیونکہ ہر مسافر، ایک کہانی ہے… اور ہر کہانی، ایک پرواز۔"
---------
ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"
باب پنجم: "دنیا میں علامات کا ظہور"
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر:05
---
منظر اوّل: دیوار پر لکھی تحریر
ممبئی کے باندرہ اسٹیشن کی ایک دیوار پر صبح کے 3:44 پر ایک اجنبی تحریر نمودار ہوئی:
> "FLIGHT 244 IS NOT JUST A NUMBER. IT'S YOUR TURN TO ANSWER."
پولیس نے فوری پینٹ کر کے مٹا دیا۔ مگر کیمرے کے فریم میں تحریر اب بھی نظر آتی ہے۔
اور صرف ایک فقیر نے دھیمی آواز میں کہا:
"پہلا سایہ لوٹ آیا ہے… تم نے اسے روکا نہیں تھا۔ اب وہ خود بلاوے لے کر آیا ہے…"
---
منظر دوم: مرنے والے، جو خواب میں لوٹ آئے
احمدآباد میں ایک نرس ریوا تریویدی نے 14 مریضوں کی جان بچائی تھی، جو فلائٹ 242 کے متاثرین کے رشتہ دار تھے۔
پانچ راتوں سے وہ ایک ہی خواب دیکھ رہی تھی:
"ایک جلتا ہوا جہاز آسمان سے نہیں، زمین کے اندر سے اُبھرتا ہے۔ ہر مسافر کی آنکھیں جل رہی ہیں، لیکن وہ بولتے ہیں: ‘ہم واپس آئیں گے، اور تمھیں ساتھ لے جائیں گے!’"
ریوا چیخ کر بیدار ہوئی۔ اس کے بیڈ پر خون سے لکھی تحریر:
"13F اب خالی نہیں رہی"
---
منظر سوم: راجستھان کا ریڈیو اسٹیشن
ریڈیو جاکی راگھو چترویدی روز 10 بجے کا شو کرتا تھا۔ اس دن، اس کی آواز سے پہلے یہ پیغام نشر ہوا:
"یہ براڈکاسٹ اُن کے لیے ہے جو ابھی گئے نہیں… مگر زندہ بھی نہیں رہے۔"
راگھو گھبرا گیا۔ اس کے اسٹوڈیو میں کوئی نہ تھا۔
اور پھر اس کا فون بجا:
Unknown Number:
"تم نے جو آخری گانا بجایا تھا… وہ جہاز کے آخری سیکنڈ میں بج رہا تھا۔ ہم نے سن لیا تھا، راگھو… اب تمھاری باری ہے۔"
---
منظر چہارم: روحوں کی لائبریری میں ہلچل
حارث لائبریری میں بیٹھا تھا جب اچانک تمام کتابیں خود بخود کھلنے لگیں۔
ہوا میں الفاظ معلق ہو گئے:
"244 مسافر اب خود کہانیاں نہیں، فیصلے ہیں۔"
فرش پر لکیریں ابھر آئیں، جیسے جہاز کے راستے بن رہے ہوں۔ اور سفید پردے کے پیچھے ایک سایہ کھڑا تھا—نہ مرد، نہ عورت…
بس ایک سوال:
"اگر ہر مسافر کو نجات ملی… تو سیٹ 13F کیوں آباد ہوئی؟"
---
منظر پنجم: دہلی کے لودھی قبرستان میں ہارر
رات کے ٹھیک 1:13 پر ایک قبر کھلی۔
اندر کوئی جسم نہ تھا، صرف ایک بورڈنگ پاس:
Name: Ayesha Bano
Flight: 244
Status: Awaiting
قبرستان کا رکھوالا پاگل ہو گیا۔ بس ایک جملہ دہراتا رہا:
"پروازیں ختم نہیں ہوئیں… اترنے والے اب زمین پر نہیں رکتے!"
---
اختتامی منظر: خبریں، جنہیں کوئی نہیں دکھاتا
ایک زیرِ زمین چینل پر ایک "خفیہ رپورٹ" چلی—
"The Dead Are Boarding Again!"
اس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی، جس میں خالی ایئرپورٹ پر سائے خودکار دروازوں سے اندر داخل ہو رہے ہیں۔
خالی سیٹوں پر بیٹھتے، بورڈنگ پاس پڑھتے، اور پھر اچانک غائب ہو جاتے۔
ریپورٹر کا آخری جملہ:
"اگر آپ کے موبائل پر فلائٹ 244 کا پیغام آئے… تو یاد رکھئے، یہ دعوت ہے۔ رد کیا، تو سایہ خود آ جائے گا…"
___________
ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"
باب ششم: واپسی والے مسافر کی اصل شناخت
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر:06
---
منظر اوّل: دہلی، نجم الحسن کا خواب
نجم الحسن، ایک دینی عالم اور روحانی مفکر، پچھلے ایک ہفتے سے سوتے ہی جاگ اٹھتے تھے۔
اس رات ان کے خواب میں ایک سفید وردی میں ملبوس مسافر آیا، جس کے چہرے پر نہ آنکھیں تھیں، نہ ہونٹ، مگر وہ بول رہا تھا:
> "میں عبدالجبار ہوں… سیٹ نمبر 13F… میں واپس آیا ہوں… مگر اب تنہا نہیں…!"
نجم نے پوچھا:
"کیا تم مر چکے تھے؟"
وہ بولا:
"نہیں… مجھے مارا نہیں گیا… مجھے روکا گیا تھا… اور جب کوئی روح روک لی جائے، وہ لوٹتی نہیں… بھٹکتی ہے…"
---
منظر دوم: کولکتہ کا ہندو نوجوان – اشویک نارائن
اشویک، جو پارا سائیکالوجی کے مطالعے میں تھا، روز رات 13:44 پر ایک آواز سنتا:
> "تم نے جب ریل گاڑی میں اس کو دھکا دیا تھا… وہ نہیں گرا… وہ وقت سے گرایا گیا…"
اس کی ڈائری میں عبدالجبار کا ذکر تھا، حالانکہ وہ اس سے کبھی ملا نہیں۔
ایک دن اس نے خواب میں 13F کا دروازہ کھولا… اور سامنے عبدالجبار کھڑا تھا:
"اشویک… تم نے جو کیا تھا، وہ مکافات بن چکا ہے۔ اب تم مسافر نہیں… رہنما بننے والے ہو!"
---
منظر سوم: عبدالجبار کی زندگی کی جھلک
سنہ 2013 – عبدالجبار ایک صحافی تھا، جس نے ایک حساس فائل حاصل کی تھی۔
فائل میں "AIR-MANTRA" نامی ایک تجرباتی منصوبہ کا راز تھا:
جہازوں کو استعمال کرتے ہوئے انسانی شعور کے ساتھ تجربات۔
اسی فائل کی وجہ سے اسے فلائٹ 242 میں بٹھا دیا گیا۔
لیکن… وہ منزل پر کبھی نہ پہنچا۔
اس کے گھر والوں کو اس کی لاش نہ ملی، نہ شناخت۔
اب، 11 سال بعد… وہ “واپس” آیا ہے۔
---
منظر چہارم: سیٹ 13F کی شہادت
سیٹ 13F کے نیچے ایک بلیک باکس چھپا ہوا تھا، جو اصل بلیک باکس نہیں تھا۔
جب فلائٹ 244 کے چیکنگ اسٹاف نے اسے کھولا، تو ایک ہولوگرام چل پڑا:
> "عبدالجبار زندہ ہے… تم سب خواب ہو… اس کی سچائی میں…"
> "جنہوں نے مجھے جلانے کی کوشش کی، وہ خود آگ میں جا رہے ہیں… کیونکہ سچ اب اترنے والا ہے… فلائٹ 244 پر۔"
-----------
منظر پنجم: انسانیت کو پیغام
دنیا بھر کے ہارٹس، ریڈیوز، موبائل اسکرینز، سب پر ایک ہی لائن ظاہر ہونے لگی:
> "عبدالجبار آ چکا ہے… اور ہر شخص جس نے جھوٹ کو زندگی کا لباس پہنایا… اب سچ کا بوجھ اٹھائے گا۔"
---
منظر اختتام: نیا انکشاف
ایک نابینا بچی نے عبدالجبار کی آواز پہچانی۔
"یہ وہی انکل ہیں جو مجھے 2013 میں دہلی میٹرو کے اسٹیشن پر کہانی سناتے تھے… وہ مرے نہیں تھے، بس چھپ گئے تھے، تاکہ کوئی انہیں سن سکے…"
______
ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"
باب ہفتم: زمین کی طرف
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر: 07
---
منظر اوّل: بھارتی گاؤں "کالاپتھر"
رات کے تین بجے کا وقت تھا۔
گاؤں کے بزرگ پنڈت رتن لال نے اپنی جھونپڑی کے باہر جلتی ہوئی اگر بتیوں میں ایک سایہ دیکھا۔
وہ سایہ انسانی تھا… مگر اس کا سایہ زمین پر نہیں پڑ رہا تھا۔
وہ بڑبڑایا:
"یہ پاتال کا بھٹکا ہوا ہے… یہ زندہ ہے، مگر مر چکا ہے!"
اسی وقت، پورے گاؤں میں عجیب آوازیں گونجنے لگیں… پھر ہر دیوار پر خون سے لکھا گیا:
> "زمین پر وہ سب کچھ لوٹ رہا ہے جو چھین لیا گیا تھا!"
---
منظر دوم: دہلی ایئرپورٹ — ٹاور کنٹرول
فلائٹ 244 زمین کی طرف رواں دواں تھی۔
اچانک، ریڈار نے اطلاع دی:
"ہمیں ایک اور جہاز نظر آ رہا ہے، مگر وہ ریجسٹرڈ نہیں ہے… اس کا نمبر… 242 ہے!"
ایئر ٹریفک کنٹرولر سہم گیا:
"لیکن وہ تو 11 سال پہلے تباہ ہو چکا تھا!"
دونوں جہاز زمین کے مدار پر اکٹھے نظر آئے…
اور پھر اچانک غائب ہو گئے۔
---
منظر سوم: زمین پر پہلا اثر
اندور، احمدآباد، پٹنہ، بنگلور، اور چنئی میں اچانک پانچ مسافروں کی لاشیں ملیں۔
سب کے ہاتھوں پر جلنے کے نشان تھے، مگر کوئی آگ نہیں لگی تھی۔
لاشوں کے قریب بس ایک چیز ملی:
13F – RETURNED
ڈاکٹرز نے کہا:
"دل کی دھڑکن چلی گئی تھی، مگر آنکھیں کھلی تھیں… جیسے کسی نے ان سے کچھ ‘دکھا’ دیا ہو۔"
---
منظر چہارم: عبدالجبار کا زمینی قیام
نجم الحسن اور اشویک اب اکٹھے ہو چکے تھے۔
دونوں کو ایک مقام پر بلایا گیا: ناگور کا پرانا قلعہ۔
وہاں عبدالجبار کھڑا تھا، زندہ… لیکن آنکھوں میں انسانوں کی نہیں، صدیوں کی تھکن تھی۔
اس نے کہا:
"زمین پر لوٹ کر آیا ہوں… مگر وقت کی چھت نیچے گرنے والی ہے۔"
"فلائٹ 242 کے مسافر صرف مرے نہیں… انہیں ‘روک’ دیا گیا۔ اب وہ سب زمین پر واپس آ چکے ہیں… مگر جسموں میں نہیں… حادثات میں، خوابوں میں، روشنیوں میں…"
---
منظر پنجم: خواب، دھماکہ، انکشاف
ایک رات اشویک نے خواب میں دہلی کو جلتے ہوئے دیکھا، نجم نے قرآن کا ورق دیکھا جو ہواؤں میں اُڑ رہا تھا۔
دونوں اٹھے… اور موبائل فون کی اسکرین پر ایک ہی پیغام تھا:
> "13F کا دروازہ کھل چکا ہے… اب ہر زمین پر ‘جو چھپا تھا’، ظاہر ہو گا!"
---
باب کا اختتام...
زمین صرف مٹی نہیں، وہ سب کچھ سنبھال لیتی ہے جو چھپا دیا گیا ہو —
لیکن کب تک؟
________
ناولٹ: "فلائٹ 242: آخری نشست"
باب ہشتم: 13F کا راز
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر:08
---
منظر اوّل: راجستھان کا بنجر ریگستان – رات کا دوسرا پہر
عبدالجبار، نجم اور اشویک… تینوں ایک پرانی، ویران جگہ پہنچتے ہیں۔
جیسے ہی وہ 13 قدم اندر داخل ہوتے ہیں…
زمین ہلتی ہے… فضا میں گونج اٹھتی ہے ایک آواز:
> "تم نے دروازہ کھول دیا ہے… اب جو آ رہا ہے، اسے کوئی نہیں روک سکتا!"
13F محض ایک سیٹ نمبر نہیں تھا…
بلکہ 13 Fate (تقدیر) کا راز تھا —
وہ مسافر جو اس سیٹ پر بیٹھا تھا، نہ مکمل زندہ تھا نہ مکمل مردہ…
بلکہ "منتقل" ہو چکا تھا ایک وقفے میں — جہاں وقت، موت اور زندگی کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں۔
---
منظر دوم: سچ کا چہرہ
نجم کی آنکھیں بند ہوتی ہیں… اور وہ دیکھتا ہے:
242 کی پرواز، فضا میں تحلیل ہو رہی ہے،
مگر ہر مسافر ایک "یاد" بن کر اپنوں کے خوابوں میں واپس آ رہا ہے۔
کوئی ماں اپنی بچی کی ہنسی خواب میں سنتی ہے،
کوئی بیوی اپنے شوہر کو آئینے میں دیکھتی ہے،
کوئی باپ سڑک پار کرتے ہوئے بیٹے کی آواز سن لیتا ہے۔
> موت نے جسم چھینے، مگر یادوں نے رشتے واپس کر دیے…
---
منظر سوم: آخری وارننگ
اشویک دیوار پر لکھا دیکھتا ہے:
> "آخری نشست… آخری دروازہ… آخری سانس!"
عبدالجبار کہتا ہے:
> "اب ہمیں واپس جانا ہو گا،
کیونکہ اصل زندگی وہ ہے…
جو موت کے بعد بھی اثر چھوڑ جائے!"
اسی لمحے، وہ سب ایک جھماکے کے ساتھ غائب ہو جاتے۔
___________
باب نہم (آخری): زمین کی خاموش چیخ
ناولٹ: فلائٹ 242 — آخری نشست
ناول نگار: علیم طاہر
باب نمبر: 09
---
منظر: بھارت کے مختلف گوشے — خوابوں کا جاگنا
پٹنہ میں ایک ماں سوتے ہوئے ہڑبڑا کر اٹھتی ہے،
ممبئی کے ایک یتیم خانے میں چھ بچے ایک ساتھ چیخ اٹھتے ہیں،
چنئی کے ایک لڑکے نے نیند میں اپنی ماں سے کہا:
"ممی! میں واپس آ گیا… مگر صرف تھوڑی دیر کے لیے!"
دہلی میں ایک لڑکی نے اپنی ڈائری میں تحریر کیا:
"آج خواب میں وہی سیٹ نمبر تھا… 13F… اور سناٹا… بہت گہرا سناٹا!"
حیدرآباد کے ایک بزرگ پنڈت نے صبح سویرے ایک بیان دیا:
"رات بھر ایک پنکھا چلتا رہا میرے کمرے میں… لیکن بجلی بند تھی…
یہ کوئی سادہ ہوا نہ تھی، یہ کسی کی روح کی واپسی تھی!"
---
علامتیں بولنے لگیں
بھارت کے مختلف علاقوں میں
مندر، مسجدیں، کلیسا اور گردوارے — سب میں ایک جیسا سکوت طاری ہے۔
بغیر کسی خاص دن کے،
ہر جگہ شمعیں جلائی جا رہی ہیں۔
رشی کیش کے ایک یوگی نے کہا:
"ہوائی حادثے کے صرف جسمانی اثرات نہیں ہوتے…
کچھ پروازیں وقت سے باہر نکل کر
انسانی ضمیر کے اندر اترا کرتی ہیں!"
---
13F کی حقیقت
اب یہ واضح ہو چکا ہے —
سیٹ 13F کسی خاص شخص کی نہیں تھی،
بلکہ ایک امتحان تھا:
کون ایمان کے ساتھ گیا؟
کون گناہ کے بوجھ تلے دب گیا؟
اور کس کی یادیں اتنی طاقتور تھیں کہ
موت کے بعد بھی واپس آ گئیں؟
--
آخری جملہ:
اشویک کی یادیں عبدالجبار کو خواب میں مخاطب کرتی ہیں:
"زندگی کی پرواز میں ہر کوئی مسافر ہے…
مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں
جو اپنی سیٹ کے ساتھ افسانہ بن جاتے ہیں!"
---
اختتامی پیغام
فلائٹ 242 ختم ہو گئی،
مگر اس کی بازگشت ہندوستان کی فضا میں
ابھی دیر تک گونجتی رہے گی۔
سیٹ 13F… اب خالی ہے…
مگر تم اگر اپنی زندگی کو بےمعنی گزارو گے
تو تم بھی ایک دن…
اسی سیٹ پر اکیلے بیٹھے
اگلی پرواز کے منتظر ہو گے…
اور شاید یہ پرواز واپسی کی نہ ہو!
---
ختم شد
) اگر آپ کو یہ ناولٹ پسند تو ضرور شئیر کر دیجیۓ گا)
ناولٹ: فلائٹ 242 — آخری نشست
ناول نگار: علیم طاہر
_________________
(C): Novelet
"Flight 242_ Aakhiri nashisht "
Novel Nigar:
Aleem Tahir
Email id: aleemtahir12@gmail.com
______________