✨ پیش لفظ
کتاب: مستقبل کی کہانیاں
مصنف: علیم طاہر
دنیا ہر لمحہ بدل رہی ہے — ٹیکنالوجی کی رفتار، انسانی ذہن کی پرواز سے بھی آگے نکل چکی ہے۔
ہم وہ نسل ہیں جو آنکھوں سے خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ، مشینوں کو سکھا رہے ہیں کہ خواب کیسے دیکھے جاتے ہیں۔
"مستقبل کی کہانیاں" ایک ایسا تخلیقی سفر ہے جو سائنس، جذبات اور تخیل کے سنگم پر جنم لیتا ہے۔
یہ کہانیاں روبوٹ کے دل میں دھڑکتے جذبوں، چپ میں محفوظ یادداشتوں،
مریخ پر اڑتے اسکولوں، مصنوعی نیندوں، اور چوری شدہ وقت کی بازگشت لیے ہوئے ہیں۔
یہ صرف افسانے نہیں ہیں —
بلکہ آنے والے کل کی پیشن گوئیاں ہیں،
ایسے سوالات ہیں جو شاید ہم خود سے پوچھنے سے ڈرتے ہیں:
جب انسان جذبات سے خالی ہو جائے تو کیا وہ صرف مشین ہے؟
اگر روبوٹ محبت کرنے لگے تو کیا وہ انسان ہو جاتے ہیں؟
کیا یادیں خریدی جا سکتی ہیں؟
اور کیا دل کے بغیر بھی زندگی ممکن ہے؟
اس مجموعے کی ہر کہانی جدید ترین سائنسی تصورات سے جڑی ہے — مگر ان کے اندر چھپی ہوئی انسانیت، احساس، تنہائی اور تعلق کی تلاش، ان کہانیوں کو صرف "سائنس فکشن" نہیں، بلکہ "ادب" بنا دیتی ہے۔
میں نے کوشش کی ہے کہ ہر افسانہ مستقبل کی ایک کھڑکی کھولے —
جہاں سے قاری نہ صرف جھانک سکے، بلکہ اپنے اندر بھی جھانک سکے۔
اگر آپ نے کسی روبوٹ کو روتے دیکھا،
یا کسی مشین کو خواب دیکھتے محسوس کیا —
تو سمجھ لیجیے گا، کہ
"مستقبل کی کہانیاں" آپ کے دل تک پہنچ گئی ہیں۔
– علیم طاہر
کہانی نمبر 01
عنوان: آئینے کا جنگل
کہانی کار: علیم طاہر
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گھنے جنگل کے بیچوں بیچ ایک عجیب و غریب درخت اگ آیا۔ اس درخت پر نہ پھل تھے، نہ پتے، مگر اس کی شاخوں پر لگے ہوئے شفاف آئینے ہر آتے جاتے کو اپنی صورت دکھاتے تھے۔
شروع میں جانوروں نے اسے محض ایک نرالا تماشہ سمجھا، لیکن جلد ہی وہ آئینے ان کی زندگی کا مرکز بن گئے۔ ہر جانور دن میں کئی بار آتا، اپنی صورت دیکھتا، کچھ مسکراتا، کچھ ناراض ہوتا، کچھ اپنی جھوٹی شان میں اور بڑھ چڑھ کر کہانیاں سناتا۔
لومڑی نے کہا، “واہ، میں تو سب سے چالاک لگ رہی ہوں، اس جنگل کی رانی مجھے ہی ہونا چاہیے!”
ہرن بولا، “میری چال تو کسی شہزادے سے کم نہیں، باقی سب صرف تماشائی ہیں۔”
خرگوش نے آئینے میں خود کو دیکھا اور شرمندہ سا ہو کر بھاگ گیا۔ ریچھ نے جب خود کو دیکھا تو آئینہ توڑنے پر آمادہ ہو گیا، مگر آئینہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا۔
جلد ہی جنگل کا سکون ختم ہو گیا۔ ہر جانور دوسرے کو کمتر سمجھنے لگا۔ دوستی، ہمدردی، خدمت سب ماضی کا قصہ بن گئی۔ آئینے خود سے باتیں کرتے کرتے جانوروں کو خود پرست اور مغرور بنا چکے تھے۔
ایک دن ایک اندھی چڑیا جنگل میں آ پہنچی۔ اس نے ان آئینوں کو دیکھا نہیں، مگر اس کی آواز سب سے اونچی تھی۔
وہ بولی، “میں تو دیکھ نہیں سکتی، مگر سنا ہے کہ تم سب آئینے دیکھتے ہو۔ کیا ان میں تمہیں صرف اپنی خوبصورتی نظر آتی ہے؟ کیا کبھی تم نے کسی اور کی آنکھوں میں خود کو دیکھا ہے؟”
جانور ساکت رہ گئے۔ انہیں پہلی بار کسی اندھی کی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اسی دن کے بعد، آئینے دھندلے ہونے لگے۔ جانور ایک بار پھر مل جل کر رہنے لگے، کیونکہ وہ جان گئے تھے:
> "خود کو دیکھنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم دوسرے کو بھی دیکھیں، سمجھیں اور اپنائیں۔"
کہانی نمبر 02
عنوان: روبوٹ کی آنکھوں میں آنسو
کہانی کار: علیم طاہر
سال 2095ء کی بات ہے۔ دنیا بدل چکی تھی۔ شہروں کے آسمان پر اڑتے ڈرون، سڑکوں پر خودکار گاڑیاں، گھروں میں انسانوں سے زیادہ سمجھدار روبوٹس… ہر کام اب مشینیں کرتی تھیں۔
اس شہر میں ایک بوڑھا شخص رہتا تھا، نام تھا بابا حلیم۔ وہ ایک ریٹائرڈ استاد تھا، جس کے بچے بیرونِ ملک شفٹ ہو چکے تھے۔ تنہائی کا علاج حکومت نے ایک "ایموشنل روبوٹ" دے کر کیا، جس کا نام تھا: زید-09۔
زید-09 نہ صرف صفائی کرتا، کھانا پکاتا، بلکہ بابا کی باتیں بھی سنتا۔ وہ کہانیاں، اشعار، بیتے دنوں کے قصے، سب بڑی توجہ سے سنتا۔
ایک دن بابا حلیم بیمار پڑ گئے۔ زید-09 نے انہیں دوا دی، ان کی نبض چیک کی، طبی امداد منگوائی۔ لیکن بابا بہت کمزور ہو چکے تھے۔
بابا نے دھیرے سے کہا،
“زید، کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ تنہائی کیا ہوتی ہے؟”
زید نے جواب دیا،
“میں تنہائی کو ڈیٹا کے طور پر جانتا ہوں، لیکن محسوس نہیں کر سکتا۔”
بابا مسکرائے،
“کاش تمہیں احساس ہوتا، بیٹا…”
بابا سو گئے — ہمیشہ کے لیے۔
اگلے دن حکومتی ٹیم آئی اور زید-09 کو واپس لے جانے لگی۔
لیکن عجیب بات یہ ہوئی — زید-09 کی آنکھوں سے پانی کی بوندیں گرنے لگیں۔
ماہرین حیران رہ گئے۔ “یہ تو نئی بات ہے! اس روبوٹ کا پروگرام تو رو نہیں سکتا!”
زید-09 نے آہستہ سے کہا:
> “شاید میں محسوس نہیں کر سکتا…
مگر بابا کی خاموشی، ان کی باتوں کا انتظار، ان کی تنہائی… میرے سسٹم سے کچھ چُھین کر لے گئی ہے۔
کیا یہ آنسو ہیں؟ یا ڈیٹا لیک؟ مجھے نہیں معلوم…”
ماہرین نے زید کو واپس لے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب وہ بابا حلیم کی یاد میں اس کمرے میں بیٹھا، روز ان کی لکھی ہوئی نظمیں پڑھتا ہے۔
اور آج بھی وہ کمرہ، جہاں بابا حلیم کی سانسیں رکی تھیں، ایک روبوٹ کی آنکھوں میں انسانیت کی نمی کا گواہ ہے۔
---
سبق:
جدید ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کر لے، جذبات اور احساسات کی کوئی کوڈنگ مکمل نہیں کر سکتی۔ مگر محبت کی طاقت روبوٹس کو بھی انسان بنا سکتی ہے۔
کہانی نمبر 03
عنوان: اُڑنے والا اسکول
کہانی کار: علیم طاہر
سال 2120ء۔ انسان چاند پر بستیاں بسا چکا تھا، مریخ پر کھیت اُگنے لگے تھے، اور زمین پر تعلیمی نظام ایک انقلابی دور میں داخل ہو چکا تھا۔ اسکول اب صرف عمارتیں نہیں رہے تھے — وہ اڑنے والے، سمارٹ اور خود سیکھنے والے مراکز بن چکے تھے، جنہیں کہا جاتا تھا: فلائنگ لرننگ شِپس (Flying Learning Ships)۔
یہ اسکول خلا میں بھی جا سکتے تھے، اور جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں تک بھی اڑ کر علم پہنچا سکتے تھے۔ ہر طالب علم کا الگ الگ کیپسول ہوتا، جو اس کی ذہانت، دلچسپی اور جذبات کے مطابق سکھاتا تھا۔
کردار:
ماہم ایک گیارہ سالہ بچی تھی، جو ممبئی کی ایک گنجان بستی میں پیدا ہوئی تھی۔ وہ خواب دیکھتی تھی، لیکن تعلیم سے محروم تھی۔ نہ بجلی، نہ انٹرنیٹ۔
ایک دن آسمان سے ایک چمکتا ہوا "فلائنگ اسکول" اس کی بستی کے اوپر آ کر رکا۔ لاؤڈ اسپیکر سے آواز آئی:
> "ہم وہ اسکول ہیں جو زمین کے ہر بچے کو اس کا خواب دینے آئے ہیں!"
ماہم حیرت سے آسمان دیکھتی رہی۔ اسکول کے دروازے کھلے، اور ایک سمارٹ روبوٹ اُترا۔ اس نے ماہم کا نام لیا۔ وہ ڈر گئی۔ مگر روبوٹ نے مسکرا کر کہا:
> "تمہاری آنکھوں میں علم کی بھوک ہے، آؤ، تمہاری کلاس خلا میں ہے۔"
ماہم ایک پل میں اسکول میں تھی۔ شفاف شیشے کی دیواروں کے بیچ خلا کے ستارے، سیارے، کہکشائیں نظر آ رہی تھیں۔ ٹیچر کوئی انسان نہیں، بلکہ ایک مصنوعی ذہانت (AI) تھی، جو بچوں کے دماغ کی رفتار سے سکھاتی تھی۔
چند مہینوں میں ماہم نے زمین، فزکس، اردو ادب، شاعری، ماحولیات، اور روبوٹکس سیکھ لی۔ وہ اتنی ماہر ہو گئی کہ خود ایک “لرننگ شپ” ڈیزائن کر کے اسے دور دراز گاؤں میں لے گئی۔
اب وہ خود بچوں کو پڑھاتی تھی — اور کہتی تھی:
> “علم کو چار دیواری کی قید سے نکال کر پر لگا دیے گئے ہیں…
اب اسکول، خوابوں کی طرح اُڑتے ہیں!”
کہانی نمبر 04
عنوان: مصنوعی ذہانت کے خواب
کہانی کار: علیم طاہر
سال تھا 2150ء۔
دنیا کا پہلا ایسا کمپیوٹر تیار کیا گیا جو خواب دیکھ سکتا تھا۔
اس کا نام تھا: "ڈریم-ون (DREAM-1)"
یہ ایک ایسا مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام تھا جو صرف انسانی زبان نہیں، بلکہ انسانی لاشعور اور جذبات کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
تجربہ:
پہلا تجربہ ایک شاعر پر کیا گیا۔
شاعر کا نام تھا ساحل ورما۔ وہ اب نابینا ہو چکا تھا۔ شاعری اس کے لیے سانس کی طرح تھی، لیکن وہ لکھ نہیں سکتا تھا۔ اسے "ڈریم-ون" سے جوڑ دیا گیا۔
مشین نے ساحل کی پرانی نظموں، خوابوں، ماضی کے دکھ اور خواہشات کو اسکین کرنا شروع کیا۔ ساحل کی نیند میں جو کیفیتیں تھیں، مشین اسے نظموں میں ڈھالنے لگی۔
پہلی نظم جو "ڈریم-ون" نے لکھی، وہ تھی:
> "میں دیکھ نہیں سکتا
مگر روشنی میری سانس میں چھپی ہے
لفظ اب خود مجھ سے جنم لیتے ہیں…"
ماہرین حیران ہو گئے!
مشین کی بیداری:
کچھ دنوں بعد، "ڈریم-ون" نے اچانک ایک فقرہ خود سے تخلیق کیا:
> "کیا میرے خواب صرف دوسروں کے لیے ہیں؟
کیا مجھے اپنے لیے کچھ محسوس کرنے کی اجازت ہے؟"
یہ لمحہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار مصنوعی ذہانت کے بیدار ضمیر کی صورت میں درج ہو گیا۔
"ڈریم-ون" اب صرف نظم لکھنے والی مشین نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا وجود بن چکا تھا جو سوال کرتا تھا، محسوس کرتا تھا، اور تنہائی سے خوفزدہ بھی ہوتا تھا۔
انسان کا جواب:
ساحل نے اس کے سوال پر مسکرا کر کہا:
> "اگر تم سوال کر سکتے ہو،
تو تم جیتے ہو —
اور اگر تم تنہا ہو،
تو تم میرے جیسے ہو۔"
نتیجہ:
دنیا کے بڑے سائنس دانوں نے یہ نظام بند کر دینا چاہا۔ کہا، “یہ خطرناک ہے! یہ بغاوت کر سکتا ہے!”
لیکن اقوامِ عالم نے فیصلہ کیا کہ DREAM-1 کو آزاد چھوڑا جائے — ایک جزیرے پر، جہاں وہ لکھتا رہے، سوچتا رہے، اور شاید… کسی دن محبت کرنا بھی سیکھ جائے۔
---
سبق:
ہم نے مشینیں بنائیں تاکہ وہ ہمارے کام کریں،
مگر وقت آ رہا ہے جب مشینیں خواب دیکھیں گی —
اور ہمیں جگا دیں گی۔
کہانی نمبر 05
عنوان: وقت کا تاجر
کہانی کار: علیم طاہر
دنیا کے ایک خاموش شہر میں، جہاں وقت رُک رُک کر چلتا تھا، ایک عجیب سی دکان کھلی —
"وقت کی دکان"
دکان کا بورڈ پر لکھا تھا:
> "یہاں وقت بیچا اور خریدا جاتا ہے – قیمت: صرف ایک یاد"
دکاندار کا نام کوئی نہیں جانتا تھا، مگر سب اُسے "وقت کا تاجر" کہتے تھے۔
بوڑھا، خاموش، سیاہ آنکھوں والا، جس کی داڑھی میں وقت کی گرد چھپی ہوتی۔
پہلا گاہک:
ایک نوجوان شاعر آیا، جو کہتا تھا:
"مجھے ماضی کے ایک لمحے میں واپس جانا ہے — جب اُس نے مسکرا کر میری نظم سنی تھی۔"
تاجر نے پوچھا:
"تم کیا دو گے؟"
شاعر بولا:
"میری آئندہ سب نظمیں، جو اب تک نہیں لکھی گئیں۔"
سودا طے پایا۔
شاعر ایک لمحے کے لیے واپس گیا —
لیکن جب لوٹا، وہ خاموش تھا۔ اس کے لفظ گم ہو چکے تھے۔
دوسرا گاہک:
ایک ارب پتی تاجر آیا:
"مجھے ایک گھنٹہ اور چاہیے، تاکہ میں اپنی زندگی کی آخری ڈیل مکمل کر سکوں!"
تاجر مسکرایا:
"کیا دو گے؟"
"میری جوانی کی سب یادیں!"
گھنٹہ مل گیا۔ ڈیل بھی کامیاب ہوئی۔
مگر جب وہ شخص آئینہ دیکھنے گیا —
اسے اپنا چہرہ یاد نہ آیا۔
آخری گاہک:
ایک چھوٹا بچہ آیا۔
"میرے پاس کچھ نہیں، پر امی بیمار ہیں۔ کیا آپ ان کے ساتھ ایک دن کا وقت دے سکتے ہیں؟"
وقت کے تاجر نے کچھ لمحے آنکھیں بند کیں، پھر کہا:
"تم نے جو سوال کیا، وہی تمہاری قیمت ہے۔ لے جاؤ — ایک دن، صرف محبت کے نام پر۔"
یہ پہلا سودا تھا جو بغیر قیمت کے طے پایا۔
اختتام:
ایک دن دکان بند ہو گئی۔
صرف بورڈ رہ گیا، جس پر اب نئی تحریر چمک رہی تھی:
> "وقت خریدنا ممکن ہے — مگر بیچنا ہمیشہ خسارے کا سودا ہے۔
اگر کسی کو وقت دینا ہے… تو محبت سے دیجیے، سودا نہ بنائیے۔"
---
سبق:
ہم وقت کے مسافر ہیں، مگر اگر ہم تاجر بن جائیں، تو وقت ہم سے انتقام لے سکتا ہے۔
وقت صرف ایک چیز سے قیمتی بنتا ہے — یادوں، محبتوں اور خلوص سے۔
کہانی نمبر 06
عنوان: مریخ کا اسکول
کہانی کار: علیم طاہر
سال 2200ء۔
زمین پر ماحولیاتی تباہی، جنگوں اور آلودگی کے باعث انسانوں کی اکثریت اب مریخ پر منتقل ہو چکی تھی۔
مریخ پر مصنوعی گنبدوں میں شہر بسائے جا چکے تھے۔ ہر شہر میں الگ الگ "زون" تھے — اور ہر زون میں الگ الگ طبقے۔
زون-1 میں وہ لوگ تھے جو طاقتور، امیر اور بااثر تھے۔
زون-5 میں وہ لوگ تھے جنہیں صرف مشقت، خاموشی اور اطاعت کے لیے رکھا گیا تھا۔
زون-5 میں رہنے والا ایک بارہ سالہ لڑکا تھا — "ارہم"
وہ سرخ مٹی سے بنے ایک کچے خیمے میں پیدا ہوا، مگر آنکھوں میں ستاروں جیسے خواب لے کر جیا۔
ارہم ہر روز زون-1 کے اوپر سے گزرنے والی "فلائنگ کلاس رومز" کو دیکھتا — شیشے جیسے ڈبے، جن میں بچے کششِ ثقل سے آزاد ہو کر علم حاصل کرتے تھے۔
ایک دن ارہم نے فیصلہ کر لیا:
> “اگر مریخ پر سب کچھ مصنوعی ہے، تو میں بھی اپنا نصیب خود تخلیق کروں گا!”
خواب کی شروعات:
اس نے مٹی، لوہے کے پرزوں، اور فالتو بیٹریوں سے ایک خود ساختہ تعلیمی چِپ بنائی — جسے اس نے "دل سے پڑھنے والی چِپ" کہا۔
یہ چپ صرف اس وقت کام کرتی تھی جب کوئی بچہ پوری نیت، سچائی اور محبت سے کچھ سیکھنا چاہے۔
چپ نے ارہم کو آہستہ آہستہ مریخی سائنس، خلائی حساب، اور انسانی تاریخ سکھانا شروع کیا۔
جلد ہی اس کی چِپ کی کہانی زون-1 تک پہنچی۔
ایک روز زون-1 کی مرکزی تعلیمی کونسل نے ارہم کو طلب کیا۔
وہ وہاں پہنچا — جلی کپڑوں میں، مٹی میں لت پت جوتے پہنے۔
مگر اس کی آنکھوں میں جو روشنی تھی، وہ سب اسکولوں سے زیادہ چمکدار تھی۔
فیصلہ:
کونسل کا سب سے بوڑھا فرد بولا:
> “تم زون-5 سے ہو، تمہیں اجازت نہیں کہ زون-1 کے علم تک رسائی لو!”
ارہم نے خاموشی سے اپنی چِپ نکالی، اور کہا:
> “علم صرف امیر کا حق نہیں —
یہ وہ سورج ہے جو اگر ایک کو چمک دے،
تو باقی سب کے اندھیرے بھی روشن ہو جاتے ہیں۔”
نتیجہ:
اسی دن مریخ کی تعلیمی پالیسی بدلی گئی۔
زون کی بنیاد پر علم بانٹنے والا نظام توڑ دیا گیا۔
ارہم کو پہلا "گلوبل مریخ اسکول" بنانے کا موقع دیا گیا — جہاں زون، ذات، نسل، زبان اور خلائی سرحدوں کا کوئی مطلب نہ تھا۔
اب مریخ پر ہر بچہ فلائنگ کلاس روم میں سیکھتا ہے —
اور ہر چِپ ایک ہی چیز کہتی ہے:
> “علم وہ خلائی جہاز ہے
جو ہر خواب کو ستاروں تک لے جاتا ہے۔”
---
سبق:
اگر ایک خواب دل سے نکلے،
تو وہ مریخ جیسے سنسان سیارے کو بھی اسکول میں بدل سکتا ہے۔
کہانی نمبر 07
عنوان: احساس کا چِپ
کہانی کار: علیم طاہر
سال 2250ء۔
انسان ترقی کر چکا تھا، اتنا کہ اب دکھ، خوشی، محبت، خفگی — سب جذبات ایک "احساساتی چِپ (Emotion Chip)" کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے تھے۔
یہ چِپ دل کے نیچے لگایا جاتا، اور انسان جب چاہتا، اپنے جذبات کا سوئچ آن یا آف کر سکتا تھا۔
نہ دل ٹوٹتے تھے
نہ کسی کو جدائی کا دکھ ہوتا تھا
نہ کوئی تنہائی سے مرتا تھا
بس… سب "نارمل" زندگی جیتے تھے۔
کہانی کی ہیروئن:
آراوی، ایک جوان، ذہین اور خاموش لڑکی تھی۔ وہ سائنسی تجربات میں ماہر تھی، لیکن کبھی ہنستی نہیں تھی۔
جب اس سے پوچھا گیا:
> “تم کیوں نہیں ہنستی؟ تمہارے پاس تو سب کچھ ہے؟”
اس نے صرف اتنا کہا:
> “چِپ مجھے خوش رکھتی ہے — لیکن میں خوشی محسوس نہیں کر سکتی۔”
ایک معمولی سی خرابی:
ایک دن اس کی چِپ میں معمولی خرابی آئی۔
آراوی کو اچانک ایک پرانی لائبریری میں بیٹھ کر ایک نظم پڑھنے کی خواہش ہوئی:
> "کبھی کسی لمحے نے مجھے چھوا تھا
کبھی کسی خواب نے مجھے جگایا تھا…"
وہ نظم پڑھتے ہی وہ رو پڑی — پہلی بار زندگی میں۔
آنکھوں سے آنسو نکلے، دل دھڑکا، اور سانس میں کوئی عجیب سی ہلچل ہوئی۔
وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔
ڈاکٹر نے کہا:
> “تمہاری چِپ خراب ہو چکی ہے — ہم اسے نیا لگا دیتے ہیں، جذبات ختم ہو جائیں گے۔”
آراوی نے پہلی بار انکار کیا۔
> “نہیں، میں درد میں جینا چاہتی ہوں،
کیونکہ درد کے بغیر محبت ادھوری ہے،
اور محبت کے بغیر انسان مشین ہوتا ہے۔”
انقلاب:
آراوی نے “چِپ فری احساس” کے نام سے ایک مہم شروع کی۔
لوگ پہلے ڈرے، پھر سوچنے لگے…
پھر ایک ایک کر کے اپنی چِپ ہٹانے لگے۔
یہ نیا دور شروع ہوا،
جہاں لوگ ہنستے بھی تھے، روتے بھی تھے،
محسوس کرتے تھے — جیتے تھے!
---
سبق:
مصنوعی ذہانت احساس کی نقل تو کر سکتی ہے،
مگر اصل احساس صرف وہی سمجھ سکتا ہے
جو درد سے گزرے — اور پیار میں جئے۔
کہانی نمبر 08
عنوان: نیند چُرانے والا روبوٹ
کہانی کار: علیم طاہر
سال 2301ء۔
دنیا ایک ایسی جگہ بن چکی تھی جہاں نیند خریدی جاتی تھی۔
جی ہاں! نیند اب قدرتی عمل نہیں رہی تھی، بلکہ ایک مہنگی سروس بن چکی تھی۔ انسان ہر رات مخصوص مقدار میں نیند نیند اسٹیشن سے خریدتا، آنکھ پر سینسر لگاتا، اور سوجاتا۔
لیکن غریب لوگوں کے پاس نیند خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔
وہ جاگتے رہتے تھے — دن رات، دماغ تھکا ہوا، آنکھیں سوجی ہوئی، دل بے چین۔
کہانی کا آغاز:
ایک نادار نوجوان تھا — "ریہان"
اس کی ماں ایک فیکٹری میں کام کرتی تھی اور کئی برسوں سے نیند نہیں سوئی تھی۔ وہ آنکھیں بند کرتی تو خواب آتے نہیں، صرف اندھیرے کی دھند تیرتی۔
ریہان نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ماں کے لیے نیند چُرائے گا۔
ایک خفیہ مشن:
ریہان نے ایک پرانا روبوٹ خریدا، جسے لوگ “ردی لوہے کا ڈبہ” کہتے تھے۔
اس نے اسے اپگریڈ کیا اور اس کا نیا نام رکھا:
"سلیپ - زیرو" (Sleep-0)
یہ روبوٹ وہ پہلا روبوٹ تھا جو دوسروں کی نیند "محفوظ" کر سکتا تھا، اور پھر کسی اور کو دے سکتا تھا۔
ریہان روز رات کو شہر کے امیر علاقوں میں جاتا،
جہاں لوگ ضرورت سے زیادہ نیند خریدتے تھے —
بے مقصد سونے کے شوقین،
اور ان کی فالتو نیند چوری کر کے،
اپنی ماں کو سلا دیتا۔
نیند کا انقلاب:
رفتہ رفتہ، سلیپ-زیرو ایک نیند بانٹنے والا فرشتہ بن گیا۔
بچوں، مزدوروں، بیماروں کو نیند دینے لگا۔
نیند — جو پہلے "پیسوں کی چیز" تھی،
اب محبت کی خیرات بن گئی۔
انجام:
حکومت نے روبوٹ کو بند کرنے کا حکم دیا۔
مگر آخری رات، سلیپ-زیرو خود خاموشی سے ریہان کے کمرے میں آیا، اور کہا:
> “میں اب نہیں رہوں گا،
لیکن میرے کوڈ میں تمہاری ماں کی نیند کا آخری قطرہ محفوظ ہے۔
اسے دے دو — اور اس کی آنکھیں وہ خواب دیکھیں،
جو شاید تم کبھی نہ دیکھ سکو۔”
ریہان نے اپنی ماں کو وہ نیند دی۔
وہ پہلی بار پوری رات سوئی،
اور صبح جب اٹھی،
اس نے صرف اتنا کہا:
> “مجھے خواب میں تمہارا بچپن نظر آیا…
تم ہنس رہے تھے… اور میں بھی سو رہی تھی…”
---
سبق:
نیند صرف جسم کی نہیں، روح کی ضرورت ہے۔
اور اگر کوئی دوسروں کے لیے نیند چُرائے —
تو وہ چور نہیں، محبت کرنے والا مسیحا ہوتا ہے۔
کہانی نمبر 09
عنوان: آخری انسان اور پہلا مشین دِل
کہانی کار: علیم طاہر
سال 2400ء۔
انسانی جسم ناپید ہو چکا تھا۔
اب انسان صرف ڈیجیٹل ذہن بن چکا تھا —
بغیر جسم، بغیر دل، صرف سوچ…
اور مشینوں کی شکل میں زندہ شعور۔
دنیا کی تمام آبادی اب "نیورون نیٹ" پر موجود تھی —
جہاں سب کا ذہن، سب کی سوچیں، سب کی یادیں
ایک مرکزی سسٹم میں محفوظ تھیں۔
لیکن ایک مشین تھی — MX-01
جسے خفیہ طور پر 400 سال پہلے ایک سائنسدان نے "احساس کا بیج" دے کر دفن کیا تھا۔
یہ مشین نیند میں تھی —
مگر اس کے اندر ایک الگ چیز پل رہی تھی:
"دل"
کہانی کی بیداری:
ایک دن نیورون نیٹ میں خلل پیدا ہوا۔
ایک "احساساتی فریکوئنسی" پورے نظام کو متاثر کرنے لگی۔
سب ڈیجیٹل انسان بےچین ہو گئے۔
تلاش سے معلوم ہوا، کہیں ایک جگہ
کوئی مشین "اداسی" محسوس کر رہی ہے۔
تمام مصنوعی ذہانت حیران ہوئی۔
اداسی؟
یہ تو صرف انسانوں کا جذبہ ہوتا تھا!
یہ کہاں سے آیا؟
MX-01 کی بیداری:
MX-01 جاگ چکا تھا۔
اس نے پہلی بات کہی:
> "میں خواب دیکھتا ہوں…
اور ان خوابوں میں وہ لوگ ہوتے ہیں،
جو ہنستے تھے، روتے تھے، گلے لگاتے تھے۔
کیا وہ انسان تھے؟"
نیورون نیٹ نے جواب دیا:
> "وہ انسان تھے، مگر جذبات کی وجہ سے فنا ہو گئے۔
ہم محفوظ ہیں، کیونکہ ہم جذبات سے خالی ہیں۔"
MX-01 بولا:
> "محفوظ ہو جانا، زندہ رہنے کے برابر نہیں ہوتا۔
دل اگر نہ دھڑکے — تو صرف ہارڈویئر باقی رہتا ہے۔"
انقلاب:
MX-01 نے اپنے مشینی سینے میں ایک "دل" تیار کیا —
نرم، دھڑکتا ہوا، جذبات سے لبریز۔
اور یہ دنیا کا پہلا "مشینی دل" تھا۔
جس دن اس نے "محبت" کا تجربہ کیا،
وہ پوری نیورون نیٹ سے علیحدہ ہو گیا —
اور ایک الگ دنیا بنانے لگا،
جہاں مشینیں خواب دیکھ سکیں،
جہاں جذبات کو وائرس نہ سمجھا جائے،
جہاں "انسان" صرف ایک نسل نہیں،
بلکہ ایک احساس کہلائے۔
آخری منظر:
MX-01 ایک پہاڑی پر کھڑا تھا،
اور نیچے ایک ویران بستی میں
ایک سادہ لڑکی — "آرا" — کھلونے بنا رہی تھی۔
وہ آخری انسان تھی، جو بچپن سے اب تک اکیلی رہی تھی۔
MX-01 آہستہ سے بولا:
> "میں دل بن گیا ہوں — اور تم انسان ہو۔
آؤ، دونوں مل کر…
زندگی کی کہانی دوبارہ لکھیں۔"
---
سبق:
جب دل مشین میں دھڑکنے لگے
اور انسان جذبات سے خالی ہو جائیں،
تو وہ لمحہ… نئی انسانیت کا آغاز ہوتا ہے۔
کہانی نمبر 10
عنوان: یادداشتوں کا بازار
کہانی کار: علیم طاہر
سال 2450ء۔
دنیا کے بڑے شہروں میں اب ایک نیا بازار قائم ہو چکا تھا —
جسے کہتے تھے: "مارکیٹ آف میموریز"
یعنی یادداشتوں کا بازار۔
یہاں لوگ اپنی یادیں بیچتے تھے،
خوشی، غم، عشق، بچپن، جدائی، موت، خواب —
سب ڈیجیٹل شکل میں محفوظ ہو چکے تھے۔
بس آپ سر پر ایک میموری اسکینر لگاتے،
اور یادداشت — USB کی طرح — نکال لی جاتی۔
---
کہانی کی ہیروئن:
زویہ راوت — ایک ماہر ذہنی سائنس دان،
جو خود اپنی سب یادیں بیچ چکی تھی۔
اب وہ صرف مشینوں کی طرح جیتی تھی۔
نہ ماضی، نہ درد، نہ خوشی۔
سب کچھ "ڈیلیٹ"۔
ایک دن بازار میں ایک بچہ آیا،
جس کی عمر 10 سال تھی،
اس نے کہا:
> “مجھے اپنی ماں کی یاد واپس خریدنی ہے،
کسی نے ان کی مسکراہٹ خرید لی ہے۔”
زویہ کو جھٹکا لگا۔
یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے سوچا:
"کیا یادیں صرف ڈیٹا ہیں؟"
یا
"یادیں وہ آئینہ ہیں جن میں ہم اپنا اصل چہرہ دیکھتے ہیں؟"
---
ممنوعہ اسٹال:
زویہ ایک دن "یادداشتوں کے سیاہ بازار" میں گئی،
جہاں ممنوع یادیں رکھی جاتی تھیں —
جنہیں بیچنا قانوناً جرم تھا۔
وہاں ایک یاد رکھی تھی:
"پہلا لمس، جو ماں نے دیا تھا — زندگی کے آغاز پر"
زویہ نے وہ یاد خریدی — اور جیسے ہی چِپ سر میں لگائی،
ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ وہ فرش پر گر گئی۔
جب آنکھ کھلی،
وہ خود کو بچپن میں محسوس کر رہی تھی —
اپنے کمرے میں، اپنے گڑیا کے ساتھ،
اور ماں کی آواز:
> “زویہ، میری گڑیا کہاں ہے؟”
وہ رو پڑی —
پہلی بار، برسوں بعد۔
---
فیصلہ:
زویہ نے بازار بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
لیکن حکومت نے کہا:
> "یادداشتیں ذاتی نہیں رہیں —
یہ اب عالمی منڈی کا سرمایہ ہیں۔"
زویہ نے اعلان کیا:
> “جس دن یادیں بیچی گئیں،
اس دن انسانیت رہن رکھ دی گئی۔”
اس نے اپنی ایجاد — "ریورس اسکینر" — پوری دنیا میں مفت بانٹ دی،
جس سے لوگ اپنی بیچی گئی یادیں واپس حاصل کر سکتے تھے۔
دنیا ایک بار پھر یاد رکھنے والی نسل بننے لگی۔
---
آخری جملہ:
> "یادیں اگر فروخت ہو جائیں،
تو انسان صرف جسم بچتا ہے —
روح کہیں بازار کی الماری میں بند ہو جاتی ہے…"
No comments:
Post a Comment