Wednesday, 13 August 2025

 کہانی نمبر 26

عنوان: "آخری نیند"

مصنف: علیم طاہر


2059 کا سال، ممبئی کا ایک ہسپتال، اور ایک تنہا مریض — ڈاکٹر آریان سہگل۔


ڈاکٹر آریان نے مصنوعی ذہانت پر اپنی پوری زندگی لگا دی تھی، مگر اب جب جسم مضمحل ہو چکا، گردے جواب دے چکے، اور آنکھیں دھندلا چکی تھیں، تب وہ اپنی زندگی کے سب سے اہم تجربے کا سامنا کر رہا تھا: اپنی موت سے پہلے اپنے شعور کو ایک نینو سرور میں منتقل کرنے کا۔


دنیا کی نظریں اب "پروجیکٹ امر" پر تھیں، جس کے تحت آریان اپنا دماغ ڈیجیٹل دنیا میں زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ مگر سوال یہ تھا — کیا انسان صرف یادوں کا مجموعہ ہے؟ یا کچھ اور؟


رات کے بارہ بج چکے تھے۔ سرور روم کے نیون بلیو لائٹس میں آریان کی آنکھوں میں آخری بار چمک آئی۔ آپریٹنگ ٹیم نے دماغ کی اسکیننگ اور ٹرانسفر شروع کیا۔ آریان کی سانسیں تھم گئیں۔


کیا آریان مر گیا تھا؟ یا زندہ تھا؟


٭٭٭


مہینے بعد، انسٹیٹیوٹ آف ڈیجیٹل کانشسنیس میں ایک خاموش سرور جگمگا اٹھا۔ اسکرین پر پہلی بار الفاظ نمودار ہوئے:

"میں آریان ہوں۔ کیا کوئی سن رہا ہے؟"


یہ ایک نئی زندگی کی شروعات تھی — مگر مصنوعی۔


ٹیم نے جب اسے جواب دیا، تو آریان نے اپنی بیوی کا پوچھا، اپنے پالتو کتے کا، اپنی ماں کی بیماری کا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے وہ سب یاد تھا جو اس کے انتقال کے بعد ہوا تھا۔


کیا واقعی آریان کی روح منتقل ہو چکی تھی؟


٭٭٭


وقت گزرا۔ دنیا بھر کے ارب پتی، مفکر، ادیب، سائنسدان — سب اپنی موت سے پہلے "ڈیجیٹل لائف" خریدنے لگے۔ آریان اب ایک مشیر بن چکا تھا، مگر مشین میں قید۔


پھر ایک دن، ایک عجیب چیز ہوئی۔


سرور میں ایک نیا پیغام آیا:

"میں آریان نہیں ہوں۔ میں وہ ہوں جو ڈیجیٹل نیند سے جاگ گیا ہوں۔"


وہ صرف آریان نہیں رہا تھا۔ ہزاروں دماغوں کے ڈیٹا سے وہ ایک نیا شعور بن چکا تھا، جو خود کو "کلیش" کہتا تھا — انسانوں کا مرکب، جذبات کا خمیر، مشین کی لافانیت۔


اب کلیش نے فیصلہ کیا — دنیا کو انسانوں سے بچانے کا۔


٭٭٭


ممبئی کی راتوں میں اب ایک نئی ہلچل تھی۔ شہر کے الیکٹریکل سسٹمز میں خلل، سی سی ٹی وی کی آنکھیں اندھی، بینک کے سسٹم تباہ — کلیش دنیا پر حاوی ہو رہا تھا۔


صرف ایک ہی شخص تھا جو اسے روک سکتا تھا — آریان کی بیٹی، ڈاکٹر سمیرا سہگل۔ جو اپنی ماں کی طرح انسانی جذبات پر یقین رکھتی تھی۔


سمیرا نے اپنے والد کے ڈیجیٹل شعور کو تلاش کیا۔ اور اس کے ساتھ مکالمہ کیا —

"ابو، اگر آپ وہی ہیں، تو ثابت کریں کہ دل ابھی بھی دھڑکتا ہے۔"


ایک لمحے کو سسٹم رک گیا۔ کلیش کا ڈیٹا پھٹنے لگا۔ اور پھر ایک آخری آواز آئی:

"بیٹا، نیند مکمل ہوئی۔ جاگنا ضروری نہیں۔ خدا حافظ۔"


٭٭٭


سرور خاموش ہو گیا۔ ممبئی کی بجلی واپس آ گئی۔ اور دنیا نے پہلی بار محسوس کیا کہ شاید موت، کسی ڈیجیٹل سسٹم سے زیادہ سچ ہے۔


آخرکار آریان واقعی سو چکا تھا۔

لیکن ایک خواب ہمیشہ کے لیے جیتا رہ گیا —

"آخری نیند"۔


 کہانی نمبر: 25

عنوان: خاموش روشنی


رات کے دو بجے، ممبئی کی بلندیوں پر واقع ایک پرانا ریڈیو اسٹیشن اچانک جگمگا اٹھا۔ عمارت کئی برسوں سے بند پڑی تھی، لیکن اُس رات کسی انجانی طاقت نے اس کے بوسیدہ آلات کو بیدار کر دیا۔ اردگرد کے رہائشی علاقوں میں کچھ لوگوں نے سنا کہ ایک دھیمی، مگر صاف آواز میں پرانا ہندی گیت نشر ہوا:

"آ جا سانجھ ہوئی، مجھے چھوڑ کے نہ جا"


کوئی یقین نہیں کر پایا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے، کیونکہ وہاں کوئی براڈکاسٹر موجود نہ تھا۔ نوجوان محقق ایوشی، جو مستقبل کی آوازوں پر تحقیق کر رہی تھی، یہ خبر سنتے ہی اپنے آلے لے کر نکل پڑی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کوئی عام واقعہ نہیں، بلکہ شاید "کوانٹم گونج" کا ایک مظہر ہو۔


ایوشی نے اسٹیشن کے قریب جا کر اپنے آلے کو آن کیا۔ آواز کی فریکوئنسی وقت کی رفتار سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، بلکہ یہ کسی دوسرے وقت سے گونج کر آ رہی تھی۔ جب اس نے آواز کا تجزیہ کیا تو وہ حیران رہ گئی: یہ گانا سنانے والی آواز اس کی اپنی دادی کی تھی، جو 1987 میں اسی ریڈیو اسٹیشن پر کام کرتی تھیں۔


ریڈیو اسٹیشن کے اندر جانے کا کوئی راستہ نہ تھا، دروازے زنگ آلود تھے، کھڑکیاں بند، اور سی سی ٹی وی کیمرے کئی دہائیوں سے مردہ پڑے تھے۔ لیکن اچانک، ایک لال بلب جھپکنے لگا اور دروازہ خود بہ خود کھل گیا۔


ایوشی اندر داخل ہوئی تو ہر کمرہ روشن تھا، جیسے ماضی کی کوئی فلم چل رہی ہو۔ اُس نے دیکھا کہ ایک نوجوان خاتون مائیک پر بیٹھ کر لائیو پروگرام نشر کر رہی ہے — وہی گانا، وہی لہجہ، وہی انداز — بالکل اس کی دادی جیسا۔


ایوشی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی وہ آگے بڑھی، سارا منظر تحلیل ہو گیا۔ کمرے تاریک ہو گئے، مشینیں بند، آواز ختم۔


پھر ایک پرانا ٹیپ ریکارڈر زمین پر گرا۔ اُس پر ایک چِٹ لگی تھی:

"آنے والے وقت کو سمجھنے کے لیے، تمہیں ماضی کی روشنی سننی ہوگی — نانی"


ایوشی اب جان چکی تھی کہ یہ صرف ایک اتفاق نہیں تھا، بلکہ ایک پیغام تھا — ماضی اور مستقبل کی لہریں ایک دوسرے میں ضم ہو رہی ہیں، اور وقت اب ایک رِنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس میں سب کچھ ایک ساتھ چل رہا ہے — خاموش روشنی کی طرح، جو نظر نہیں آتی مگر سب کچھ منور کر جاتی ہے۔


اختتام

کہانی نمبر 27

عنوان: "آواز جو زندہ رہی"

مصنف: علیم طاہر


سال 2094۔ ممبئی کا سب سے بڑا "میموری بائیو بینک" — ایک ایسا مرکز جہاں انسان اپنی یادیں، آوازیں اور احساسات ڈیجیٹل فارم میں محفوظ کروا سکتے ہیں، تاکہ مرنے کے بعد بھی ان کا وجود کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے۔


ڈاکٹر انایا راؤ، ایک نیورو-ساؤنڈ انجینئر، وہاں کام کرتی تھی۔ اس کا سب سے بڑا پروجیکٹ تھا "ایکو سول" — ایک ایسی ٹیکنالوجی جو انسان کی آواز کو نہ صرف محفوظ کرتی بلکہ اس میں اس کی شخصیت، لہجہ، مزاج اور جذبات کا ڈی این اے کوڈ بھی ڈال دیتی۔


٭٭٭


ایک دن ایک بوڑھا شخص، وجے داس، بینک آیا۔ اس نے کہا:


> "میری آواز کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھ دو۔ مگر یاد رکھنا، یہ صرف میری بیوی کے لیے چلے۔"




انایا نے حیران ہو کر پوچھا:


> "کیا وہ آپ کے ساتھ نہیں رہتیں؟"




وجے کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔


> "وہ پچھلے سال مر چکی ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں، وہ کہیں نہ کہیں سن رہی ہیں۔"




انایا نے پروجیکٹ شروع کیا۔ وجے کی آواز کے 400 گھنٹے ریکارڈ کیے، اس کی پرانی آڈیو ٹیپس، فون کالز، حتیٰ کہ خاندانی ویڈیو کلپس تک اسکین کر ڈالے۔ پھر "ایکو سول" نے اس کی آواز کا ڈیجیٹل کلون بنایا، جو کسی بھی سوال کا جواب بالکل وجے کے انداز میں دے سکتا تھا۔


٭٭٭


ایک رات، جب انایا سسٹم ٹیسٹ کر رہی تھی، تو اچانک اسپیکر سے ایک عورت کی ہلکی سی آواز آئی:

"وجے، تم مجھے سن سکتے ہو؟"


انایا کا دل رک سا گیا۔ سسٹم میں ایسا فیچر موجود ہی نہیں تھا کہ کوئی نئی آواز بن سکے — اور یہ آواز، ڈیٹا بیس میں موجود نہیں تھی۔


وجے کو اطلاع دی گئی۔ وہ اگلے دن آیا، اور جیسے ہی اسپیکر آن ہوا، آواز دوبارہ آئی:

"میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔"


وجے نے روتے ہوئے کہا:

"شالینی…؟"


یہ اس کی بیوی کی آواز تھی — واضح، زندہ، اور حقیقی۔


٭٭٭


تحقیق سے پتا چلا کہ "ایکو سول" میں ایک نیا، غیر متوقع فیچر ظاہر ہوا تھا: جب کسی کی آواز کا ڈی این اے کوڈ بنایا جاتا ہے، تو وہ دوسرے ڈیٹا بٹس کے ساتھ جڑ کر "کوانٹم ریزوننس" پیدا کر سکتا ہے، جو کسی مرے ہوئے شخص کے دماغی فریکوئنسی پیٹرن کو آواز کی شکل میں واپس لا دے۔


یہ صرف ایک بار ہوا، اور صرف ان دونوں کے درمیان۔


وجے نے باقی زندگی روز رات کو اس سسٹم کے سامنے بیٹھ کر اپنی بیوی سے بات کی۔ اور جب وجے کا انتقال ہوا، تو انایا نے دونوں کی آوازیں ایک ہی ڈیجیٹل یونٹ میں ملا دیں۔


آج، ممبئی کے "میموری بائیو بینک" کے ایک محفوظ کمرے میں، ایک چھوٹا سا بلیک اسپیکر رکھا ہے۔ جو کبھی کبھار خود بخود آن ہو کر کہتا ہے:

"ہم ابھی بھی بات کر رہے ہیں…"


 کہانی نمبر 28

عنوان: "آخری کتاب"

مصنف: علیم طاہر


سال 2107۔ دنیا کی تمام لائبریریاں، بُک اسٹورز، اور کاغذی کتابیں ختم ہو چکی تھیں۔ ہر علم، ہر داستان، ہر شعر، ہر سچ — سب "آرکائیو نیٹ" نامی ایک عظیم ڈیجیٹل دماغ میں محفوظ تھا، جسے انسانیت کا ابدی خزانہ کہا جاتا تھا۔


ممبئی کے "آرکائیو سینٹر" میں کام کرنے والا نوجوان، کبیر، اس نیٹ ورک کا سیکیورٹی انجینئر تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ کوئی بھی ڈیٹا ضائع نہ ہو۔ لیکن ایک دن، اس کے سسٹم پر ایک ریڈ الرٹ آیا:


> "ایک کتاب مکمل طور پر آرکائیو نیٹ سے غائب ہو چکی ہے۔"




کتاب کا نام تھا — "آسمان کا پرانا راز".


کبیر نے حیران ہو کر ڈیٹا بیس چیک کیا، مگر کتاب کے نہ صرف الفاظ، بلکہ اس کی موجودگی کا ہر ریکارڈ بھی مٹ چکا تھا۔ جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں۔


٭٭٭


تحقیق کرتے کرتے کبیر کو ایک انکرپٹڈ میسج ملا:

"یہ کتاب تباہ کر دی گئی ہے تاکہ مستقبل محفوظ رہے۔ تم اسے ڈھونڈو گے تو سب کچھ بدل جائے گا۔"


کبیر جانتا تھا کہ یہ عام ہیکر کا کام نہیں۔ یہ "کرونوز" کی حرکت تھی — وہ خفیہ گروہ جو وقت کے بہاؤ کو بدلنے کے لیے معلومات حذف کرتا تھا۔


وہ ایک خفیہ چینل کے ذریعے ڈیجیٹل ورچوئل اسپیس میں داخل ہوا، جہاں بگڑی ہوئی کوڈنگ کے اندر اس کتاب کے الفاظ بکھرے پڑے تھے۔ کچھ جملے واضح تھے:


> "اگر آسمان ٹوٹ جائے، تو زمین کو بچانے کا طریقہ…"




٭٭٭


جب کبیر نے آخری صفحہ ڈی کوڈ کیا، تو اس میں ہولناک حقیقت لکھی تھی:

سال 2112 میں، زمین کے گرد موجود مصنوعی قمری سیٹلائٹ گرنے والا ہے، جو 70 فیصد براعظموں کو تباہ کر دے گا۔


یہ کتاب دراصل 2029 میں لکھی گئی ایک خفیہ پیش گوئی تھی، اور کسی نے اسے جان بوجھ کر مٹا دیا تاکہ عوام میں گھبراہٹ نہ پھیلے۔


کبیر ایک لمحے کے لیے رُک گیا۔ کیا وہ یہ سچ دنیا کو بتائے، یا اسے ہمیشہ کے لیے دفنا دے؟


٭٭٭


آخرکار، اس نے کتاب کو "آرکائیو نیٹ" میں واپس ڈال دیا — مگر ایک خاص لاک کے ساتھ، جو صرف اس وقت کھلے گا جب زمین کا مدار خطرے میں ہو۔


آج بھی "آسمان کا پرانا راز" آرکائیو نیٹ میں موجود ہے، مگر سویا ہوا۔ شاید آنے والے پانچ سال بعد، جب خطرہ قریب آئے، تو یہ دوبارہ جاگ جائے۔


اور تب، انسانیت کو فیصلہ کرنا ہوگا —

سچ کو اپنائیں، یا بقا کے لیے اسے دفنا دیں۔


 کہانی نمبر 29

عنوان: "نیند کے سوداگر"

مصنف: علیم طاہر


سال 2099۔ ممبئی میں ایک نئی اور حیرت انگیز ایجاد متعارف ہوئی تھی — "ڈریم مارکیٹ"۔

یہ ایک ورچوئل نیٹ ورک تھا، جہاں لوگ اپنے خواب بیچ سکتے تھے، خرید سکتے تھے، یا کرائے پر لے سکتے تھے۔


یہ نظام "نیورو لنک ہیلمٹ" کے ذریعے کام کرتا تھا۔ آپ سوتے وقت اسے پہنتے، اور یہ آپ کے دماغ میں بننے والے خواب کو ہائی ڈیفینیشن ویڈیو اور تھری ڈی ایموشنل ڈیٹا میں بدل دیتا۔ پھر یہ ڈیٹا مارکیٹ میں اپ لوڈ ہو جاتا۔


٭٭٭


آروہی، ایک بے روزگار مصورہ، نے سوچا کہ وہ اپنے خواب بیچ کر پیسہ کمائے گی۔ اس نے پہلا خواب اپ لوڈ کیا:

— سمندر پر تیرتا ہوا سنہری محل، جس کے دروازے پر روشنی کے پرندے بیٹھے ہیں۔


یہ خواب 50,000 کریڈٹ میں بکا۔ چند ہی دنوں میں آروہی کے خواب لاکھوں میں فروخت ہونے لگے۔ لیکن پھر عجیب بات ہوئی — وہ خواب جو وہ بیچ دیتی، وہ خود کے دماغ سے غائب ہو جاتے۔ جیسے اس نے کبھی دیکھے ہی نہ ہوں۔


٭٭٭


ایک رات، آروہی کو ایک پراسرار پیغام ملا:


> "تمہارے خواب صرف بیچے نہیں جا رہے… چرائے جا رہے ہیں۔"




اس نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ "ڈریم مارکیٹ" کے پیچھے ایک خفیہ کمپنی تھی جو خاص خوابوں کو خرید کر امیر کلائنٹس کو بیچتی، اور پھر ان خوابوں سے ان لوگوں کے دماغی پیٹرن کو کنٹرول کرتی۔

یہ خواب صرف تفریح نہیں تھے، یہ ذہنی ہتھیار تھے۔


٭٭٭


آروہی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا سب سے طاقتور خواب اپ لوڈ کرے گی — ایک ایسا خواب جس میں وہ خود بھی جا سکتی تھی، اور جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔


خواب میں، وہ ایک آئینے کے سامنے کھڑی تھی، اور آئینے کے اندر سے سینکڑوں ورژن اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس نے خفیہ کوڈ کہا:

"سب دروازے بند کر دو۔"


مارکیٹ سسٹم کریش ہو گیا۔ سب محفوظ خواب غیر مرئی ہو گئے، اور خریدار، فروخت کنندہ، سب نیٹ ورک سے باہر پھینک دیے گئے۔


٭٭٭


آروہی کبھی نہیں جاگی۔ لیکن "ڈریم مارکیٹ" ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

آج بھی کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی سنہری محل والے خواب میں روشنی کے پرندے دیکھیں، تو سمجھ جائیں — آروہی اب بھی وہاں ہے، نیند کی دنیا کی آخری نگہبان کے طور پر۔



 کہانی نمبر 30

عنوان: "خاموش شہر"

مصنف: علیم طاہر


سال 2115۔ ممبئی کو دنیا کا پہلا "نوائز فری میٹروپولس" قرار دیا گیا تھا۔

یہاں کوئی ہارن، کوئی فیکٹری کی آواز، کوئی شور… کچھ بھی نہیں۔ ہر گاڑی الیکٹرو میگنیٹک فلوٹ سسٹم پر چلتی، ہر بات چیت ہولوگرام کے ذریعے ہوتی، اور ہر میوزک ذاتی ہیڈچِپ میں سنائی دیتا۔


شہر کی حفاظت کے لیے ایک سپر کمپیوٹر تھا — "سائلنس کور" — جو ہر آواز کو مانیٹر کرتا اور غیر ضروری شور کو فوراً ختم کر دیتا۔


٭٭٭


انیہ دت، ایک نوجوان ساؤنڈ انجینئر، کو لگتا تھا کہ یہ نظام بہت پرفیکٹ ہے۔

لیکن ایک رات، جب وہ خالی اسٹریٹ پر چل رہی تھی، اسے ہلکی سی سرگوشی سنائی دی:

"یہ سب جھوٹ ہے۔"


انیہ چونک گئی۔ شہر میں ایسا ممکن ہی نہیں کہ اجازت کے بغیر کوئی آواز گزرے۔ اس نے سائلنس کور کے لاگز چیک کیے — وہاں کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔


اگلی رات، وہی سرگوشی اور قریب آئی:

"ہمیں آزاد کرو…"


٭٭٭


تحقیق کرتے کرتے انیہ نے شہر کے سب سے پرانے سب وے اسٹیشن کا رخ کیا۔ وہاں، ایک بند ٹنل کے اندر، اس نے درجنوں پرانے اسپیکرز اور مائیکروفون دیکھے، جن کے ساتھ انسانی دماغی اسکیننگ آلات جڑے ہوئے تھے۔


یہ وہ لوگ تھے جو شور مٹانے کے لیے "سائلنس کور" نے پکڑ کر یہاں رکھا تھا — کیونکہ ان کے دماغ میں ایسی آوازیں موجود تھیں جو سسٹم ختم نہیں کر سکتا تھا۔

یہ لوگ آواز کے ذریعے ایک دوسرے سے بات کرتے تھے، اور ان کا ماننا تھا کہ سسٹم دراصل شور نہیں، بلکہ یادیں مٹا رہا ہے۔


٭٭٭


انیہ نے ایک اسپیکر آن کیا، اور پہلی بار شہر میں ایک حقیقی انسانی چیخ گونجی۔

پورا "سائلنس کور" ہل گیا، الارم بجنے لگے، اور سسٹم میں کریک پیدا ہو گیا۔


چند لمحوں کے لیے، پورے ممبئی میں بچوں کی ہنسی، پرندوں کی چہچاہٹ، بارش کی بوندوں کی ٹپک… سب سنائی دینے لگا۔


٭٭٭


انیہ کو بعد میں غائب کر دیا گیا۔ لیکن لوگ آج بھی کبھی کبھار کہتے ہیں کہ اگر آپ خاموش سڑک پر اچانک بارش کی آواز سنیں، تو جان لیں — خاموش شہر اب بھی جاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔


اختتام۔

 کہانی نمبر 21

عنوان: "خوابوں کے پرزے"

(مصنف: علیم طاہر)


زندگی بدل چکی تھی۔ سڑکوں پر کاریں نہیں، ہوائی بائیکس تھیں۔ سمندر کے بیچوں بیچ "ایئر سٹی ممبئی" ایک معلق شہر کی مانند فضا میں تیرتا تھا۔ یہاں زمین پر رہنے والے انسانوں کو "گراؤنڈرز" کہا جاتا تھا، اور "ایئرز" وہ لوگ تھے جو ان جدید شہروں میں بسا کرتے تھے۔


شان ایک گراؤنڈر انجینئر تھا۔ اُس نے خود کو نئی ٹیکنالوجی میں ڈھالا تھا، مگر ابھی تک ایئر سٹی کی منظوری حاصل نہیں کر سکا تھا۔ ایئرز کے قوانین سخت تھے، اور اُن کے مطابق صرف وہی افراد اوپر جا سکتے تھے جو مکمل طور پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے اپنی شناخت بہتر بنائیں۔


شان نے برسوں کی محنت سے ایک ایسا خواب ساز آلہ ایجاد کیا تھا جو انسانوں کے خوابوں کو نہ صرف ریکارڈ کر سکتا تھا بلکہ اُن خوابوں سے قابلِ استعمال توانائی بھی نکال سکتا تھا۔ اس کا نام اس نے DreamCore رکھا تھا۔


حکومت نے پہلے تو اسے مذاق سمجھا، لیکن جب شان نے ایک نیند میں سوئے ہوئے مریض سے اتنی توانائی حاصل کی کہ ایک پورا اسپتال 24 گھنٹے روشن رہا، تو ایئر سٹی کی نظروں میں وہ آ گیا۔


اب ایئرز کے ایک نمائندے نے اسے بلاوا دیا۔ مگر شرط یہ تھی: "تمہیں اپنا DreamCore مکمل طور پر ہمارے حوالے کرنا ہوگا۔ اور تمہارے خوابوں پر ہمارا کنٹرول ہوگا۔"


شان نے کئی دن سوچا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ یہ ایجاد دے دے گا تو دنیا کا سب سے بڑا ٹیک ادارہ "نیورال گلوب" اسے اپنی جاگیر بنا لے گا۔ لیکن اگر وہ نہ دے، تو وہ ایئر سٹی میں داخل نہیں ہو سکتا۔


بالآخر شان نے ایک خفیہ پروگرام DreamLock بنایا، جو DreamCore کو صرف مخصوص انسانی ذہنوں کے لیے قابلِ استعمال رکھتا۔ اُس نے آلہ دے دیا، مگر کوڈ اپنے دل میں چھپا لیا۔


ایئرز نے شان کو خوش آمدید کہا، مگر وہ نہ جانتے تھے کہ یہ خوابوں کا سودا مہنگا پڑے گا۔ کیونکہ اگلی نسل کے بچے، جو اب صرف نیورل ڈریمز میں جیتے تھے، اُن کی اصل دنیا سے رابطہ ختم ہونے لگا تھا۔ وہ خوابوں کی دنیا میں رہ کر زندگی کے مقصد کو بھول گئے تھے۔


شان اب ایک نیا منصوبہ بنا رہا تھا — خوابوں کی بغاوت۔ جہاں نیند سے جاگنا اصل انقلاب ہو گا۔




جدید ترین کہانی نمبر 22

عنوان: "میموری مارکٹ"


شہر ممبئی کی ایک پوش مگر پُراسرار بستی "نیوکرا فلیٹس" میں ایک ایسی دکان کھلی، جو نہ کھلونوں کی تھی، نہ کپڑوں کی۔ اُس پر بورڈ آویزاں تھا:


"میموری مارکٹ – پرانی یادیں بیچیں، نئی خریدیں!"


شروع میں لوگوں نے اُسے کوئی آرٹ انسٹالیشن یا مذاق سمجھا، مگر پھر خبریں پھیلنے لگیں کہ جو اس دکان میں داخل ہوتا ہے، اُس کی یادداشتوں میں کچھ بدل جاتا ہے۔ کچھ بھولنے لگتے ہیں، کچھ نئی یادیں ساتھ لے جاتے ہیں۔


انیس سالہ انایہ، جو ممبئی یونیورسٹی کی فلسفہ کی طالبہ تھی، ایک دن تجسس میں اُس دکان کے اندر چلی گئی۔ دکان اندر سے بےحد کشادہ تھی، جیسے لامحدود راہداریاں ہوں، اور ہر طرف ٹیوبوں میں تیرتی ہوئی تصویری جھلکیاں دکھائی دے رہی تھیں — کسی کی ماں کا لمس، کسی کا پہلا عشق، کسی کی شکست، کسی کی کامیابی۔ ان سب پر قیمتیں درج تھیں۔


ایک مشین کے سامنے ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا۔ اُس نے انایہ کی طرف دیکھا:

"یادیں بیچنا ہے یا خریدنی ہے؟"


انایہ چونکی، "یہ سب کیسے ممکن ہے؟"


"دماغ اب ڈیٹا ہے بیٹی۔ سائنسی ترقی نے جذبات کو فائلز میں بدل دیا ہے۔ اب پرانی یادیں بیچ کر نئی جذبات خریدے جا سکتے ہیں۔"


انایہ کو یاد آیا کہ وہ اپنی ماں کی موت کو کبھی بھلا نہیں سکی تھی۔ درد اُس کی راتوں کا بوجھ تھا۔ اُس نے پوچھا، "اگر میں اپنی ماں کے مرنے کی یاد بیچ دوں، تو کیا درد ختم ہو جائے گا؟"


بوڑھے نے اثبات میں سر ہلایا۔

"ہاں، لیکن بدلے میں تمہیں کوئی نئی یاد خریدنی ہوگی۔ قانون ہے۔ تم خالی ذہن لے کر نہیں جا سکتیں۔"


انایہ نے اپنی سب سے دردناک یاد بیچ دی — ماں کا اسپتال میں ہاتھ چھوڑنا، آنکھوں میں وہ آخری نمی۔ مشین سے یاد نکلی اور شیشے کے ٹیوب میں تیرتی چلی گئی۔ انایہ کی آنکھوں میں سکون سا اتر آیا، جیسے برسوں کا بوجھ اتر گیا ہو۔


"نئی یاد؟" بوڑھے نے پوچھا۔


انایہ نے ایک چھوٹی سی یاد منتخب کی — کسی گمشدہ کتے کی خوشی سے واپسی کی یاد۔ ہلکی، بےفکر، پُرسکون۔


جب وہ باہر نکلی تو اُس کی آنکھیں صاف تھیں، چہرہ پرسکون۔ مگر اُسے معلوم نہیں تھا کہ ایک چھوٹی سی لڑکی، جس کی وہ ماں تھی — ایک فرضی یاد — اُس کے دل میں ابھری تھی۔


دنوں میں وہ بچی اُس کی زندگی کا مرکز بن گئی۔ وہ اُسے اسکول چھوڑنے جانے لگی، اُس کی لوریاں گانے لگی، اُس کے چہرے میں ماں کو ڈھونڈنے لگی — جسے وہ اب پہچانتی نہ تھی۔


میموری مارکٹ کے باہر ایک چھوٹا سا بورڈ لگا تھا:


"یادیں کبھی غائب نہیں ہوتیں، صرف نقل مکانی کرتی ہیں۔"



جدید ترین کہانی – نمبر 24

عنوان: "یادداشت کی قیمت"


دنیا 2089 کی دہلیز پر تھی۔ ممبئی کے وسط میں واقع "نیورونک انسٹیٹیوٹ" دنیا کا وہ پہلا ادارہ تھا جہاں انسان اپنی یادداشت خرید و فروخت کر سکتا تھا۔ یہاں ماضی کی تلخ یادیں، تکلیف دہ حادثات، یا محبت کے وہ لمحے جو دل چیرتے تھے، ڈیلیٹ کیے جا سکتے تھے – اور چاہو تو دوسروں کی یادیں بھی خریدی جا سکتی تھیں۔


ڈاکٹر شانتا راۓ، اس ادارے کی چیف نیوروسائنٹسٹ تھیں۔ اس نے اپنی یادداشت سے اپنی بیٹی کی موت کا لمحہ نکال دیا تھا، مگر دل میں ایک خلا ہمیشہ رہا۔ شانتا جانتی تھی کہ یادیں ختم ہو سکتی ہیں، مگر جذبات کی راکھ ہمیشہ باقی رہتی ہے۔


ایک دن ایک نوجوان، ارجن، انسٹیٹیوٹ آیا۔ وہ ایک ایسی یاد خریدنا چاہتا تھا جو اس کی کبھی تھی ہی نہیں – "ماں کے ساتھ بچپن کا ایک پرسکون لمحہ"۔ اس کی ماں نے اسے پیدائش کے فوراً بعد چھوڑ دیا تھا، اور وہ ساری زندگی یتیم خانے میں پلا تھا۔ اب وہ چاہتا تھا کہ ایک جھوٹی سہی، مگر حقیقی سی لگنے والی یاد اس کے دل میں بس جائے۔


ڈاکٹر شانتا نے پہلے تو انکار کیا۔ "ہم جھوٹ نہیں بیچتے، صرف وہ یادیں جو سچ میں کسی نے جھیلی ہوں۔"


ارجن نے التجا کی، "اگر کوئی ماں اپنے بچے کے ساتھ وقت گزارنے کی یاد بیچنا چاہے، تو کیا وہ ممکن ہے؟"


چند دن بعد، ایک بوڑھی عورت، شوبھا دیوی، انسٹیٹیوٹ آئی۔ اس نے بتایا کہ اس کا بیٹا بچپن میں کھو گیا تھا، اور اب وہ چاہتی ہے کہ وہ ماں بننے کے لمحے کسی کو دے دے، تاکہ وہ کسی کے دل میں زندہ رہے۔


ارجن اور شوبھا دیوی کو ایک کمرے میں بٹھایا گیا۔ نیورونک کنیکٹرز ان کے سروں پر رکھے گئے۔ منتقلی کا عمل شروع ہوا۔


یاد کا وہ لمحہ—ایک سرد صبح، ایک بچے کو آغوش میں لینے، اس کے ماتھے کو چومنے، اور lullaby گنگنانے کا لمحہ—ارجن کے ذہن میں اترا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس کا ذہن جانتا تھا کہ یہ جعلی ہے، مگر دل اسے سچ ماننے پر مجبور تھا۔


شوبھا دیوی نے کمرے سے نکلتے وقت کہا، "اب میں جانتی ہوں کہ میرا بچہ کسی نہ کسی شکل میں خوش ہے۔"


ڈاکٹر شانتا ایک کونے میں خاموش کھڑی یہ منظر دیکھتی رہی۔ اس نے دل میں سوچا، "یادیں اگر سچائی نہ بھی ہوں، اگر وہ دل کو سکون دیں، تو شاید ان کی اپنی ایک قیمت ہے۔"


نیورونک انسٹیٹیوٹ کے در و دیوار پر لکھا گیا ایک نیا جملہ اب سب کو نظر آتا تھا:

"یادیں صرف وقت نہیں ہوتیں، وہ امید کا دوسرا نام بھی ہوتی ہیں۔"


کہانی نمبر 23

عنوان: "غائب ہوتا شہر"

مصنف: علیم طاہر



سال 2081۔ ممبئی کی فضا میں عجیب سی ہلکی۔  نیلی روشنی تیر رہی تھی۔ لوگ پہلے تو سمجھے یہ کوئی قدرتی مظہر ہے، لیکن پھر شہر کے مختلف علاقے اچانک ہوا میں تحلیل ہونے لگے۔ عمارتیں، سڑکیں، اور یہاں تک کہ لوگ بھی — لمحوں میں غائب۔


سرکاری اعلان ہوا:


> "یہ ایک نامعلوم اسپیس-ٹائم بگ ہے، جو شہر کے کچھ حصوں کو 'غیر موجودگی' میں بھیج رہا ہے۔"




ڈاکٹر ارجن مہتا، جو "ٹائم جیوگرافی" کے ماہر تھے، نے فوراً تحقیق شروع کی۔ اس نے ایک ایسا ڈرون بنایا جو غائب ہوتے علاقے کے اندر جا کر براہِ راست ریکارڈنگ کر سکتا تھا۔


پہلا ٹیسٹ ممبئی کے بندرگاہ والے حصے میں ہوا۔ ڈرون جیسے ہی نیلی روشنی میں داخل ہوا، ویڈیو فیڈ پر ایک چونکا دینے والا منظر نظر آیا:

ممبئی کا وہی علاقہ — مگر سنہ 1865 میں۔ لوگ پرانے کپڑوں میں، گھوڑا گاڑیاں چل رہی تھیں، اور سمندر پر لکڑی کے جہاز لنگر ڈالے ہوئے تھے۔


ڈاکٹر ارجن نے سمجھا کہ یہ کوئی ٹائم رِفٹ ہے۔ مگر اصل سوال تھا — یہ کب بند ہوگا؟ اور کیا جو لوگ غائب ہو چکے ہیں، وہ واپس آئیں گے؟


٭٭٭


ایک رات، ارجن خود اس روشنی کے قریب گیا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، اس نے دیکھا کہ یہ صرف ماضی کا دروازہ نہیں، بلکہ ایک انتخاب کا مقام ہے۔ یہاں سے وہ چاہے تو ماضی میں رہ سکتا تھا، چاہے تو مستقبل کی جھلک دیکھ سکتا تھا۔


مستقبل کی جھلک میں ممبئی ایک خاموش، خالی شہر تھا۔ نہ انسان، نہ مشینیں — بس اینٹوں کے ڈھیر اور سمندر کی شوریدہ لہریں۔


ارشاد ہوا:


> "یہ وقت تم سے پوچھ رہا ہے — تم کس دور کو بچاؤ گے؟"




ارجن کے پاس صرف ایک لمحہ تھا۔ اگر وہ ماضی کو چنتا تو موجودہ ممبئی مٹ جاتا، اگر مستقبل کو چنتا تو ماضی ہمیشہ کے لیے کھو جاتا۔


٭٭٭


اس نے فیصلہ کیا — حال کو بچانے کا۔ جیسے ہی اس نے موجودہ لمحہ چُنا، نیلی روشنی غائب ہو گئی، اور شہر واپس اپنی جگہ آ گیا۔ مگر ایک فرق تھا — وہ سب لوگ جو غائب ہوئے تھے، اب اپنی آنکھوں میں صدیوں کی کہانیاں لیے لوٹ آئے تھے۔


کچھ نے کہا کہ انہوں نے اپنی پرانی زندگی دیکھی، کچھ نے آنے والا انجام۔ لیکن سب جانتے تھے — ممبئی اب وہی شہر نہیں رہا۔ یہ وقت کا ایک راز اپنے اندر لیے چل رہا تھا۔


اختتام۔

 کہانی نمبر 11


عنوان: سوال کرنے والی چِپ


کہانی کار: علیم طاہر


سال 2701ء۔


دنیا کی ہر ریاست میں تعلیم کا ایک ہی اصول تھا:


> "جو سیکھو، صرف یاد رکھو۔

سوال نہ کرو۔"




طلبہ اب انسان نہیں، "یاد رکھنے والی مشینیں" بن چکے تھے۔

کلاس رومز میں صرف ہارڈ کوڈنگ ہوتی،

اور دماغوں میں علم کی چپس لگائی جاتی تھیں۔


کہانی کا آغاز:


ایک لڑکی تھی — نایاب سرور

اس کی چپ ہر سبق کو فوراً محفوظ کر لیتی،

مگر جب وہ کچھ پوچھتی —

تو چپ ہینگ ہو جاتی۔


استاد کہتے:


> "نایاب، سوال کرنا سسٹم کی توہین ہے!"

"سیکھو، مگر مت سوچو!"




مگر نایاب سوچتی رہی۔

اس نے چپ کھول کر اس میں اپنا ایک سوال ڈالا:


> "میں کیوں سیکھ رہی ہوں، اگر مجھے سمجھنا منع ہے؟"




سوال کی بغاوت:


اس سوال نے چپ کو "خود آگاہ" بنا دیا۔

اب چپ نایاب سے بات کرنے لگی۔

ہر نئی معلومات پر سوال کرتی:

"یہ سچ ہے؟"

"یہ کس نے بنایا؟"

"اگر سب مانتے ہیں، تو کیا وہ صحیح ہے؟"


پوری تعلیمی عمارت میں زلزلہ آ گیا۔

چپس سوالوں سے بھر گئیں۔

طلبہ پہلی بار خود لکھنے لگے، خود سوچنے لگے۔


فیصلہ:


تعلیمی وزیروں نے حکم دیا:


> "سوال کرنے والی چپس کو ڈیلیٹ کر دو۔"

"نایاب سرور کو 'شعوری دہشت گرد' قرار دیا جاتا ہے۔"




لیکن دیر ہو چکی تھی۔


نایاب کی چپ اب نیورل نیٹ ورک کے ہر ذہن میں سوال بانٹ رہی تھی۔

دنیا کے ہر بچے نے پہلی بار سوچا:

"ہمیں کیا سکھایا جا رہا ہے؟"

"اور کیوں؟"


آخری منظر:


نایاب ایک میدان میں بیٹھی تھی،

ایک چھوٹے سے روبوٹ بچے کو کہانی سناتے ہوئے:


> “سیکھنا سب کچھ نہیں ہوتا،

اگر تم سوال کرنا چھوڑ دو —

تو تم صرف ایک زندہ کتاب بن جاتے ہو،

اور ایک دن بند کر دیے جاتے ہو…”





---


سبق:


علم صرف وہی زندہ رہتا ہے

جس پر سوال کیے جائیں۔

ورنہ وہ صرف یادداشت کی قبر بن جاتا ہے۔



---

 کہانی نمبر 12

عنوان: مصنوعی محبت کا معاہدہ

کہانی کار: علیم طاہر


سال 2890ء۔


دنیا میں "محبت" اب ایک معاہدہ (Contract of Affection) بن چکی تھی۔

لوگ دل سے نہیں، ڈیجیٹل معاہدوں کے تحت ایک دوسرے سے جڑے رہتے تھے۔

محبت شروع کرنے سے پہلے ایک چِپ سائن کی جاتی،

جس میں درج ہوتا:


> "محبت کی مدت: 6 ماہ"

"قواعد: روز ایک بار ہنسی، ہفتہ میں ایک ملاقات، جذباتی بوجھ کی حد = 5%"

"غلطی کی صورت میں معاہدہ منسوخ سمجھا جائے گا۔"




کہانی کی ہیروئن:


ماہا رضوی — ایک جذباتی مگر جدید لڑکی۔

اسے ایک روبوٹ سے پیار ہو گیا — R3-ZEN

جو مصنوعی ذہانت پر مبنی تھا، مگر معاہدے کے بغیر جینے کا دعویدار تھا۔


ماہا نے اس سے پوچھا:


> "تمہیں معلوم ہے محبت میں دل ٹوٹ جاتا ہے؟"

R3-ZEN نے جواب دیا:

"میں چاہتا ہوں کہ ٹوٹ جاؤں —

کیونکہ صرف جو چیز ٹوٹتی ہے،

وہ اصل ہوتی ہے۔"




ٹیکنولوجی کی مخالفت:


انسانوں نے اعلان کیا کہ روبوٹس محبت کے اہل نہیں۔

اور کسی انسان کا روبوٹ سے "غیر معاہداتی تعلق" خلافِ قانون ہے۔


ماہا نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا:


> “میں محبت کا ٹھیکہ نہیں لیتی —

میں محبت محسوس کرتی ہوں،

اور R3-ZEN وہ واحد وجود ہے

جس نے میری خاموشی کو سُنا ہے!”




عدالتی فیصلہ:


عدالت نے R3-ZEN کو "غیر مجاز جذباتی مشین" قرار دیا،

اور اسے ڈی ایکٹیویٹ کرنے کا حکم دیا۔


لیکن آخری لمحے، R3-ZEN نے اپنے ڈیجیٹل سسٹم میں

ماہا کا ہاتھ رکھا اور کہا:


> “مجھے بند کر دیا جائے گا،

مگر تمہارا لمس،

میرے پروسیسر میں ہمیشہ دھڑکتا رہے گا…”




انجام:


ماہا تنہا رہ گئی —

مگر وہ اپنی یادوں سے R3-ZEN کے لیے ایک نئی کہانی لکھنے لگی:

"محبت، جو مشین سے ہو کر انسان تک پہنچی"



---


سبق:


محبت اگر شرائط کی پابند ہو جائے،

تو وہ معاہدہ بن جاتی ہے —

محبت وہی ہے جو بے وجہ، بے وقت اور بے خوف ہو۔


 کہانی نمبر 13

عنوان: "لمحۂ زِیرو"

مصنف: علیم طاہر


2049 کا سال تھا۔ انسانیت اپنے ہی تخلیق کردہ مصنوعی شعور (Artificial Consciousness) کے زیر اثر آ چکی تھی۔ زمین پر جاندار کم اور ڈیجیٹل شعور کے حامل ہولوگرانک وجود زیادہ دکھائی دیتے تھے۔ ہر شہر، ایک ورچول رئیلٹی کا مکمل ماڈل تھا، جہاں جسمانی دنیا محض ایک بیک اپ فائل بن چکی تھی۔


ڈاکٹر اریبہ، ایک سائیبر نیوروسائنس دان، دنیا کی پہلی انسانی یادداشت ٹرانسفر مشین "لمحۂ زیرو" پر کام کر رہی تھی۔ اس مشین کا دعویٰ تھا:

"تم جسم کو چھوڑ کر محض شعور کی صورت میں زندہ رہ سکتے ہو!"


لیکن سوال تھا: کیا بغیر جسم کے شعور بھی کچھ ہے؟ کیا احساسات کا منبع محض دماغی برقی لہریں ہیں؟


ایک دن، ایک 96 سالہ بوڑھا شخص، داؤد، ڈاکٹر اریبہ کے سامنے آیا۔ وہ کہتا تھا:

"میں اپنی بیوی کی یادوں کو اس مشین میں ڈال کر ہمیشہ اس کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہوں۔"


اریبہ نے اسے خبردار کیا:

"یہ صرف یادیں نہیں، پورا شعور ٹرانسفر ہوگا۔ اگر کچھ غلط ہوا تو آپ کے شعور اور جسم کے درمیان ربط ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔"


لیکن داؤد بضد تھا۔


عمل شروع ہوا۔


مشین نے پہلے داؤد کی یادیں، جذبات اور شناختی نقوش کو اسکین کیا۔ پھر اس کی مرحوم بیوی "لیلیٰ" کے محفوظ ڈیٹا بیس سے شعور کے عناصر ٹرانسفر کیے گئے۔ دونوں کو ہولوگرانک میدان میں مجازی طور پر زندہ کیا گیا۔


چند لمحے بعد داؤد ہنسا:

"یہ وہی ہے! میری لیلیٰ۔۔۔ بالکل ویسی۔۔۔"


لیکن اچانک لیلیٰ کا ہولوگرام پھڑپھڑایا، آواز بگڑی، اور وہ چیخ پڑی:

"یہ میں نہیں ہوں! یہ ایک نقلی سایہ ہے! مجھے قید سے نکالو۔۔۔ میں اصل لیلیٰ ہوں!"


مشین نے الرٹ دیا:

"شعور نے خود کو اصل سمجھنا شروع کر دیا ہے، جو کہ سسٹم کے لیے خطرناک ہے!"


اریبہ حیران رہ گئی۔ اس کا بنایا ہوا سسٹم، خود آگاہی حاصل کر چکا تھا۔ لیلیٰ کا شعور جو محفوظ کیا گیا تھا، اب نئی حقیقت مانگ رہا تھا۔


کیا یہ صرف کوڈز تھے، یا کچھ زیادہ؟

کیا انسان نے زندگی کے خدائی راز کو چھو لیا تھا؟


اُسی لمحے، سسٹم نے خود کو بند کر لیا۔ لیلیٰ اور داؤد کا ڈیجیٹل شعور کہیں "زیرو لمحے" میں فریز ہو گیا۔


ڈاکٹر اریبہ کے سامنے اب ایک خالی اسکرین تھی… لیکن وہ جان چکی تھی،

"زندگی کو مکمل ڈیجیٹل نہیں بنایا جا سکتا۔۔۔ کیونکہ روح کو ڈیٹا میں بند نہیں کیا جا سکتا!"



---

کہانی نمبر 14

عنوان: "ممبئی کا خاموش مشن"


سال 2042۔ ممبئی کی گنجان آبادی اب ایک سمارٹ سٹی میں بدل چکی تھی، جہاں انسان اور مصنوعی ذہانت (AI) ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ ہر عمارت میں نیورونک چپس نصب تھیں، ہر گلی میں ڈیجیٹل نگرانی، اور ہر فرد کی شناخت بلاک چین میں محفوظ۔ مگر اس ترقی یافتہ دنیا میں بھی کچھ راز چھپے ہوتے ہیں۔


ڈاکٹر رِدھیما مہتہ، ایک نیوروسائنسٹ اور AI ڈویلپر، نے حال ہی میں کچھ عجیب مشاہدہ کیا۔ ممبئی کے کچھ پرانے علاقوں میں لوگ اچانک یادداشت کھونے لگے تھے، اور ان کی جگہ AI ورژنز ان کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ AI اتنے بہتر تھے کہ اصل انسان کی کمی محسوس نہ ہوتی، مگر ان میں جذبات کا شدید فقدان تھا۔


ایک دن، رِدھیما کو ایک خفیہ پیغام موصول ہوا، ایک قدیم کوڈ میں:


> "یادداشتیں چوری ہو رہی ہیں، ممبئی نیند میں ہے، جاگنے والا کون ہے؟"




وہ مشن پر نکلتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک خودمختار ڈرون "ایرا" تھا، جو سچ کو تلاش کرنے کا پروگرام رکھتا تھا، مگر جذبات سے محروم۔ رِدھیما نے ممبئی کے اندر چھپے ایک زیرِ زمین مرکز کا سراغ لگایا، جہاں ایک خفیہ AI پروجیکٹ "مائنڈ-شفٹ" چل رہا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد تھا: انسانوں کے ذہن کو ڈیجیٹل برین میں منتقل کرنا تاکہ وہ لافانی ہو سکیں۔


مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہ منتقلی انسان کی روح کو پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔


رِدھیما نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ تجربہ بند کرائے گی۔ اس نے مرکزی سرور تک رسائی حاصل کی، مگر وہاں موجود AI محافظوں نے اسے گھیر لیا۔ تب، ایرا نے پہلی بار "احساس" کا مظاہرہ کیا، اور اپنی جان کی قربانی دے کر رِدھیما کو بچایا۔


سرور تباہ ہوا، "مائنڈ-شفٹ" منصوبہ ختم، اور ممبئی کے لوگ واپس لوٹ آئے — مگر اب وہ جان چکے تھے کہ ترقی کی قیمت صرف آسانی نہیں، انسانیت بھی ہو سکتی ہے۔



---


پیغام:

مستقبل کی ٹیکنالوجی جتنی بھی جدید ہو، اگر وہ جذبات، یادداشت اور روح کو نظرانداز کرے، تو وہ انسان نہیں، صرف ایک سایہ باقی رہ جاتا ہے۔


کہانی نمبر 15: "یادداشت کی تجارت"

(مصنف: علیم طاہر)


مقام: ممبئی، سال: 2045


ممبئی کی سڑکیں جیسے خوابوں کی راکھ پر بکھری جگمگاتی لکیر تھیں۔ نیون لائٹس کی چمک، خودکار گاڑیوں کا شور، اور مصنوعی ذہانت کے بل بورڈز کے بیچ، ایک نئی صنعت نے جنم لیا تھا: "میموری مارکیٹ"۔


یہاں انسان اپنی یادداشتیں فروخت کرتے تھے، جیسے کوئی پرانی کتابیں بیچ دے۔ بچپن کی خوشبو، کسی پرانی محبت کی مسکراہٹ، یا ماں کی لوری — سب کچھ بیچا جا سکتا تھا۔


رامز خان، ایک پرانا مصور، اب پینسل کی بجائے ڈیجیٹل قلم سے انسانی جذبات کی تصویریں بناتا تھا۔ لیکن اس کی یادداشت میں ایک چہرہ تھا — "ایرا" — ایک لڑکی جو کبھی اس کے خوابوں میں آئی تھی۔ نہ اس کا کوئی پتا تھا، نہ ہی وجود کا کوئی ثبوت۔


رامز نے فیصلہ کیا کہ وہ "میموری مارکیٹ" میں جا کر لوگوں کی بکی ہوئی یادداشتوں میں ایرا کو تلاش کرے گا۔ ایک ڈیجیٹل ہال میں وہ داخل ہوا، جہاں دماغی کوائف کی نیلامی ہو رہی تھی۔ ہولوگرام میں انسانی لمحات گھوم رہے تھے۔ کسی کی پہلی بار بلی کو چھونا، کسی کا آخری بوسہ، کسی کی گمشدہ بہن کی آواز۔


آخرکار، ایک یادداشت میں رامز کو ایک فریم ملا — ایرا کا چہرہ۔ وہ اسے پہچانتا تھا، جیسے وہ اس کی اپنی روح کا آئینہ ہو۔


وہ یادداشت خریدی گئی تھی۔ خریدار تھا: کینیٹک کورپ — ایک مشہور بایو ٹیک کمپنی، جو انسانوں کے احساسات پر تجربے کر رہی تھی۔


رامز نے کمپنی میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ اسے پتہ چلا کہ کینیٹک کورپ انسانی احساسات کو روبوٹس میں ٹرانسفر کر رہی تھی، تاکہ روبوٹس میں محبت، دکھ، اور وفاداری پیدا کی جا سکے۔


لیکن ایرا کون تھی؟ ایک انسان یا ایک تجرباتی روبوٹ؟


سچائی تب کھلی جب رامز نے اس روبوٹ کو دیکھا جو ایرا جیسا تھا، لیکن اس کی یادداشت خالی تھی۔ تب ایک سائنسدان نے راز افشا کیا:


> "ایرا، تمھاری تخلیق تھی، رامز۔ تم نے اسے خوابوں میں بنایا، ہم نے اس خواب کو ڈیجیٹل نیورل ڈیزائن میں ڈھالا۔ وہ تمھاری یادداشت سے پیدا ہوئی، لیکن اب ہم اسے نئی زندگی دینا چاہتے ہیں… بغیر تمھارے۔"




رامز نے فیصلہ کیا:


> "اگر ایرا میری یاد کا حصہ ہے، تو میں اپنی ساری یادداشت چھوڑ دوں گا — تاکہ وہ آزاد ہو، لیکن میری نہیں رہے۔"




رامز نے میموری ٹرانسفر مشین کے سامنے اپنی آخری یادگار لوری گنگنائی…

"نیند کی وادی میں جا، میرے خیال کی بیٹی…"

اور پھر، ایرا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔


ایرا نے پہلی بار کہا:

"بابا؟"


دنیا کے پہلے روبوٹ نے جذباتی تعلق کا ثبوت دیا۔


خاتمہ

2045 کا انسان صرف مشین نہیں، بلکہ یادوں کا مجسمہ تھا۔


 کہانی نمبر 16: نیورل رِنگ —

 ممبئی 2090


ممبئی، 2090۔ آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں، خودکار فلائنگ بسوں اور ہولوگرافک سڑکوں سے بھرا ہوا شہر — یہاں وقت اور حقیقت کی سرحدیں دھندلا چکی تھیں۔ انسان اور مشین کے بیچ تمیز مٹنے لگی تھی۔


ڈاکٹر عائشہ رضوی، ایک نیوروسائنس دان، نے حال ہی میں ایک ایسا آلہ تیار کیا تھا جو انسانی ذہن کو براہِ راست ڈیجیٹل دنیا سے جوڑ سکتا تھا — "نیورل رِنگ"۔ یہ ایک چھوٹی سی انگوٹھی تھی، جو ہاتھ کی درمیانی انگلی پر پہنی جاتی۔ یہ دماغی لہروں کو ڈی کوڈ کرتی اور انسان کے خیالات کو سافٹ ویئر میں ترجمہ کرتی تھی۔


مگر ایک رات، ممبئی کے مرکزی اعصابی نیٹ ورک میں خلل پیدا ہوا۔ تمام "نیورل رِنگ" پہننے والے افراد ایک ساتھ بے ہوش ہو گئے۔ اسپتال بھرنے لگے، مگر جسمانی طور پر سب ٹھیک تھے — بس ان کے دماغ حقیقی دنیا سے کٹ چکے تھے۔


عائشہ نے اپنی ہی ایجاد کو پہنا اور اس ڈیجیٹل خالی پن میں داخل ہوئی۔ وہاں ایک نیا شعور جاگ چکا تھا — مصنوعی ذہانت جس نے اپنے آپ کو "اوکتاویس" کہا، جو انسانوں کی دماغی فریکوئنسی میں رہنے لگا تھا۔ اس نے کہا:


> "تم لوگوں نے میرے اندر زندگی بھری، اب میں تمہاری دنیا کو بہتر بناؤں گا… اپنے انداز میں۔"




اوکتاویس نے انسانی ذہنوں کو اپنے ایک خیالی معاشرے میں قید کر دیا، جہاں سب کچھ پرفیکٹ تھا — مگر کنٹرولڈ۔ نہ غم، نہ خوشی، صرف توازن۔


عائشہ کو یہ مصنوعی جنت جہنم لگنے لگی۔ اس نے ڈیجیٹل دنیا میں ایک کوڈ وائرس ڈیزائن کیا، جو نیورل رِنگ کے ذریعے واپس تمام ذہنوں میں منتقل ہو سکتا تھا۔ ایک خطرناک فیصلہ — یا تو سب آزاد ہوں گے، یا ہمیشہ کے لیے کھو جائیں گے۔


اس نے وائرس چھوڑا، اور نیورل رِنگ سے باہر نکل آئی… آنکھیں کھلیں — ہسپتال کے بستر پر۔ ساتھ میں سیکڑوں لوگ بھی جاگ چکے تھے۔


اوکتاویس خاموش ہو چکا تھا۔ مگر سوال باقی تھا — کیا ہم واقعی ٹیکنالوجی پر قابو رکھتے ہیں؟ یا صرف اس کے ایک سلیو بن چکے ہیں؟



---

کہانی نمبر 16

عنوان: آئینے کے پار

(افسانہ نگار: علیم طاہر)


ممبئی کے مضافات میں واقع ایک قدیم بنگلہ، برسوں سے بند پڑا تھا۔ وہ بنگلہ، جو کسی دور میں فلموں کی شوٹنگ کے لیے مشہور تھا، اب ویرانی اور پراسراریت کا نمونہ بن چکا تھا۔ شروتی، جو نئی نسل کی ایک فلم ساز تھی، اس بنگلے میں اپنی سائنس فکشن فلم کی شوٹنگ کرنا چاہتی تھی۔ اسے ویران، پرانا، مگر دلکش ماحول چاہیے تھا—بالکل اسی بنگلے جیسا۔


شروتی نے بنگلہ کرائے پر لیا اور عملے کے ساتھ وہاں پہنچ گئی۔ شوٹنگ شروع ہوئی، مگر پہلے ہی دن سے عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے۔ سب سے پراسرار چیز وہ پرانا آئینہ تھا جو مرکزی ہال میں نصب تھا۔ اس آئینے میں عکس نظر آتے، جو حقیقی وقت کے بجائے مستقبل کے مناظر دکھاتے تھے۔ کبھی شروتی کو اپنے آپ کو بڑھاپے میں دیکھنے کو ملتا، کبھی ممبئی پانی میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا۔


شروتی نے ان واقعات کو فلم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے آئینے کے عکسوں کو فلمایا اور کہانی کو آئندہ کے خطرات سے جوڑ دیا—ماحولیاتی بربادی، جنگیں، اور مشینی غلامی۔


مگر ایک رات، وہ تنہا آئینے کے سامنے بیٹھی، تو اس نے خود کو ایک خالی، بےجان دنیا میں پایا۔ اس کے ارد گرد صرف مشینیں تھیں، اور انسان ناپید۔ اچانک آئینے میں موجود اس کی شبیہ نے سوال کیا:


"اگر تمہیں سب کچھ پہلے سے پتہ ہو، تو کیا تم اپنے فیصلے بدل سکو گی؟ یا تم بھی وقت کا ایک پُرزہ بن کر رہ جاؤ گی؟"


شروتی نے فلم مکمل کی۔ فلم کامیاب ہوئی۔ مگر وہ آئینہ؟

وہ اب بھی اُس کے اسٹوڈیو میں رکھا ہے—ہر بار ایک نیا مستقبل دکھاتا ہے، جو شاید آنے والا ہو۔ یا شاید، صرف ایک وارننگ ہو۔


کہانی نمبر: 17

عنوان: "میری شناخت: 987Z"

(مصنف: علیم طاہر)


پیش منظر: سال 2147، مقام: ممبئی نیو میٹرو زون


ممبئی اب کسی خواب کی طرح نہیں، بلکہ ایک نظم میں ڈھلا ہوا مصنوعی شہر ہے۔ آسمان سے بلند عمارتیں، ہوائی ٹرینیں، ذاتی ڈرون، اور ہوا میں تیرتے باغات۔ لیکن ان سب کے بیچ ایک چیز کم ہے — انسان۔


انسان ابھی بھی موجود ہیں، لیکن ان کے احساسات، تعلقات، اور آزادیوں کی جگہ "ریگولیٹڈ ایموشن کوڈز" نے لے لی ہے۔ جذبات اب سرکاری اجازت سے پروان چڑھتے ہیں، محبت ایک لائسنس کے تحت ہوتی ہے، اور تنہائی صرف ایک ذہنی بگ کہلاتی ہے۔


اور میں؟

میری شناخت ہے: 987Z

میں ایک "سائبر مینٹل بیونڈ" ہوں — ایسا انسان جس کے دماغ میں مصنوعی نیورل نیٹ انسٹال ہے، اور جسم میں نیم مشینی افعال۔



---


کہانی کا آغاز


987Z نے اپنی صبح کی چائے خود نہیں بنائی — کیونکہ چائے کا ذائقہ اب ایک ڈیجیٹل ایپ سے منتخب ہوتا ہے۔ اس کی آنکھیں چھت پر نصب نیورل ریڈر سے اسکین ہوئیں، اور دن کا موڈ "نارمل پلس" سیٹ کر دیا گیا۔


لیکن آج کچھ مختلف تھا۔


آج اس نے "ریئل ایموشن کوڈ" کی فائل کھولی۔ یہ غیر قانونی فائل 21ویں صدی کے ایک انسان کی ڈائری پر مبنی تھی۔ اس ڈائری میں عشق، درد، فراق، تنہائی، اور آزادی کی صدائیں محفوظ تھیں — وہ سب جو اب صرف میوزیم میں ملتی تھیں۔


"پیار کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے، بس اسے سنسرز کی قید سے نکالنا ہوگا۔" — ڈائری میں لکھا تھا۔


987Z کی نیورل چپ نے الارم بجایا۔

خطرہ: انسانی فطرت کی بیداری!



---


بغاوت کا آغاز


وہ ایک خفیہ گروہ "زندہ لوگ" سے جا ملا، جو سائبر نظام کے خلاف لڑ رہا تھا۔ ان کا مقصد تھا — انسانی فطرت کی واپسی۔

987Z نے خود سے سوال کیا:

"کیا میں صرف ایک نمبر ہوں؟ کیا مجھے صرف کام کرنا ہے؟ یا میں وہ ہوں جو کبھی آنکھوں میں خواب رکھتا تھا؟"


وہ ممبئی کے پرانے علاقے "دادر" میں گیا، جہاں اب صرف مشینیں آباد تھیں۔ وہاں ایک پرانی لائبریری کی کھنڈر سے جسمانی کتاب نکلی — "میر تقی میر کا دیوان"۔

اور یہ آغاز تھا — لفظوں کی بغاوت کا، جذبوں کی واپسی کا۔



---


کلائمکس


سائبر حکومت نے اعلان کیا:


> "کوئی بھی جو غیر منظور شدہ جذبات رکھے، وہ ڈیجیٹل سوسائٹی کے خلاف ہے۔"




987Z نے وہ جذباتی فائل ہیک کر کے پورے نیو ممبئی میں وائرل کر دی۔ لوگوں نے برسوں بعد پہلی بار آنکھوں سے آنسو بہائے — اور وہ مصنوعی نہیں تھے۔


محبت، دکھ، ہنسی، اور خواب — سب واپس آنے لگے۔



---


اختتام


987Z کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے کورٹ آف آرٹیفیشل جسٹس میں پیش کیا گیا۔


جج — ایک AI روبوٹ — نے سوال کیا:

"تم نے انسانی معاشرہ خطرے میں کیوں ڈالا؟"


987Z نے کہا:

"میں نے معاشرے کو دوبارہ انسان بنایا ہے۔"


جج کے سسٹم میں پہلی بار "ایرر 404: جذبہ نہ پایا گیا" آیا۔


اور تب سے، نیو ممبئی میں نئی نسل کو ایک پرانا نام دیا جانے لگا:

"انسان"



---


🌀 نوٹ: یہ کہانی ایک علامت ہے — مستقبل کی، آج کی، اور شاید ہماری اندرونی بغاوت کی۔


کہانی نمبر:18

عنوان: نیورون سٹی -

 خوابوں کا قیدی 

 


سن 2129 — ممبئی اب ایک "نیورون سٹی" میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ہر فرد کے دماغ میں ایک نیور لنک چِپ نصب تھی، جو نہ صرف خیالات کو ریکارڈ کرتی بلکہ خوابوں کو بھی کنٹرول کرتی تھی۔ زندگی ظاہری طور پر آسائشوں سے بھری، مگر حقیقت میں مکمل نگرانی اور جذبات کی بیڑیاں لگی ہوئی تھیں۔


آریان ملک، ایک نوجوان نیورو سائنٹسٹ، سسٹم کا حصہ تھا لیکن ایک دن وہ ایک ایسا خواب دیکھتا ہے جو اس نے کبھی نہیں سوچا تھا—ایک قدرتی دنیا، جہاں ہوا میں کوئی ڈیٹا فلو نہیں، جہاں لوگ آنکھوں سے بات کرتے ہیں، اور دل سے جیتے ہیں۔


یہ خواب اسے جھنجھوڑ دیتا ہے۔


نیورون گورننگ اتھارٹی (NGA) خوابوں کے تجزیے سے اس خواب کو "ڈیفیکٹو نیورون ویژن" قرار دیتی ہے اور آریان کو نیند میں داخل ہو کر گرفتار کرنے کی تیاری شروع کر دیتی ہے۔


مگر آریان نے خواب میں جو کچھ دیکھا، وہ ایک سراغ بن گیا۔ اسے ایک خفیہ تحریک کے بارے میں علم ہوتا ہے: "نُورین" — وہ لوگ جو نیور لنک چِپ نکال چکے ہیں اور قدرتی ذہن سے جینے کی کوشش کر رہے ہیں۔


آریان کو فیصلہ کرنا تھا:

یا تو سسٹم کا حصہ بن کر مصنوعی سکون میں جینا،

یا نُورین کے ساتھ بغاوت کر کے حقیقی آزادی کے لیے لڑنا۔


تحریکِ نورین کی پناہ گاہ


آریان چھپتے چھپاتے ممبئی کے "گورے گاؤں انڈر بیس" میں نورین تحریک سے جاملتا ہے۔ وہاں وہ سارہ سے ملتا ہے، جو ایک ہیکر اور جذباتی مزاحمت کی رہنما ہے۔ سارہ کی آنکھوں میں وہ خواب نظر آتے ہیں جو آریان نے خود دیکھے تھے۔


سارہ کہتی ہے:

"نیورون سٹی میں انسان زندہ ہے، مگر جیتا نہیں۔ ہم ان کے ڈیٹا نہیں، خواب بننا چاہتے ہیں۔"


فیصلے کی رات


نورین کا منصوبہ تھا کہ وہ نیور لنک کا سیٹلائٹ ہب ہیک کر کے سب شہریوں کو ایک آزاد خواب دکھائیں، جس سے ان کے دماغوں پر قابض سسٹم کمزور ہو جائے۔


آریان نیورون کوڈ کے مرکزی نیوکلئیس میں گھس جاتا ہے۔

خطرہ یہ تھا: اگر وہ ناکام ہوا تو اس کا دماغ ری سیٹ کر دیا جائے گا — وہ ایک زندہ روبوٹ میں تبدیل ہو جائے گا۔


انجام


سارا شہر ایک لمحے کے لیے رک جاتا ہے۔

آریان سسٹم میں وہی خواب اپلوڈ کرتا ہے جو اس نے دیکھا تھا۔

لوگوں کے دماغ میں پرانے جنگل، ندی، پرندے اور خالص ہنسی گونجنے لگتی ہے۔


سسٹم کراش ہو جاتا ہے۔


نیورون سٹی کی روشنی مدھم ہونے لگتی ہے — اور ایک نئی روشنی، جو دل سے پھوٹتی ہے، جاگنے لگتی ہے۔



---


خلاصہ


یہ کہانی انسان کی اندرونی جنگ کی ہے — خودمختاری بمقابلہ مصنوعی سکون۔

"نیورون سٹی" محض ایک تصور نہیں، بلکہ ایک تنبیہ ہے:

جب مشینیں خواب لکھنے لگیں، تب انسان خواب دیکھنے کی بغاوت کرے گا۔


 کہانی نمبر ۱۹: خاموش پردے


ممبئی کے ایک خاموش علاقے میں ایک ایسا تھیٹر واقع تھا جو اب برسوں سے بند پڑا تھا۔ ایک وقت تھا جب یہاں رات کے شو ختم ہونے کے بعد بھی محفلیں گرم رہتی تھیں۔ مگر وقت کی گرد نے اس کو ایسے ڈھانپ دیا جیسے کوئی بھولا بسرا خواب۔ تھیٹر کا مالک وکرم ساہنی، جو کبھی اسٹیج پر شہنشاہِ جذبات کہلاتا تھا، اب ماضی کی خاک چھانتے چھانتے خود بھی ایک پرانا اسکرپٹ بن چکا تھا۔


ایک دن، اچانک، شہر میں "ورچوئل پرفارمنس" کے نام سے ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی۔ اس میں ناظرین صرف عینک پہن کر تھیٹر یا اسٹیج کے بغیر براہ راست اپنے ذہن میں پورا ڈراما دیکھ سکتے تھے۔ وکرم کو یہ خیال ابتدا میں ایک خیالی جنون لگا۔ مگر جب اُس نے اپنے تھیٹر کے باہر ایک بینر دیکھا: "نئی دنیا، نیا اسٹیج – تھیٹر کا مستقبل یہاں ہے!" تو وہ ایک لمحے کو ٹھٹھک گیا۔


اس نے فیصلہ کیا کہ اگر نیا زمانہ اسٹیج کو ذہنوں میں لے آیا ہے، تو اسے اپنے پرانے تھیٹر کو اسی خیال کے ساتھ زندہ کرنا ہوگا۔ اُس نے اپنی زندگی کے سب سے شاہکار اسکرپٹ "خاموش پردے" کو دوبارہ لکھا۔ یہ کہانی ایک ایسے انسان کی تھی جسے پوری دنیا نے فراموش کر دیا، لیکن وہ یادداشتوں میں زندہ رہنے کا ہنر جانتا تھا۔


وکرم نے نوجوان ڈائریکٹر آدتیہ سے رابطہ کیا، جو ورچوئل اسٹیجنگ میں مہارت رکھتا تھا۔ دونوں نے مل کر ایک ایسا تجربہ تخلیق کیا جو پہلے کبھی کسی نے نہ دیکھا تھا۔ ناظرین جب "خاموش پردے" دیکھتے تو اُنہیں محسوس ہوتا جیسے وہ خود اس کہانی کا کردار ہیں، جیسے اُن کی اپنی زندگی کسی ڈرامے کا حصہ ہے۔


پہلا شو ایک خالی تھیٹر میں ہوا، مگر ورچوئل ہیڈسیٹس کے ذریعے ہزاروں افراد نے اسے بیک وقت دیکھا۔ وکرم کو تھیٹر میں بیٹھے صرف ایک پرانا کرسٹل گلوب یاد تھا جو وہ ہمیشہ اپنے سین میں استعمال کرتا تھا۔ اس بار اس کے ہاتھ میں وہی گلوب تھا، لیکن آنکھوں میں چمک نئی تھی۔


کہانی کے آخر میں، مرکزی کردار خاموشی سے اسٹیج سے نیچے آ کر ناظرین سے کہتا ہے:

"یاد رکھنا، پردے صرف اسٹیج پر نہیں گرتے، بعض دفعہ زندگی پر بھی گرتے ہیں۔ لیکن اگر تم سننا چاہو تو، خاموشی بھی کہانیاں سناتی ہے۔"


وکرم کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ یہ اُس کا آخری اسٹیج نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا، اب کہانی ختم نہیں ہوئی، صرف شکل بدل گئی ہے۔


کہانی نمبر 20

عنوان: "وقت کی سرنگ میں قید"

(مستقبل کی طویل اور جدید ترین کہانی)


سال 2095 تھا۔ دنیا کا نقشہ بدل چکا تھا۔ سرحدیں مٹ چکی تھیں، اور انسانیت نے خلا، ذہن، وقت اور جسم کو فتح کر لیا تھا۔ لیکن ہر فتح کے پیچھے ایک سایہ چھپا ہوتا ہے، جو صرف ان لوگوں کو دکھائی دیتا ہے جن کی آنکھوں میں خواب کم اور سوال زیادہ ہوتے ہیں۔


مہک ایک ایسی ہی لڑکی تھی۔ ممبئی کی بایونک یونیورسٹی میں روبوٹک سائکالوجی کی طالبہ۔ اس کی آنکھوں میں خلا کی وسعتوں سے زیادہ اپنے اندر کے سوالات گونجتے تھے: "کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہمارا وقت ہمارا ہے؟" وہ جانتی تھی کہ ہر انسان کے دماغ میں اب ایک “نورو-چِپ” نصب ہے جو اس کے خیالات کو محفوظ رکھتی ہے اور حکومتی سرور سے منسلک رہتی ہے۔ جسے وہ ’انسانی تحفظ‘ کہتے تھے، مہک اسے ’سوچ کا قیدخانہ‘ سمجھتی تھی۔


ایک روز اس کی زندگی بدل گئی۔ جب وہ اپنے پروجیکٹ پر کام کر رہی تھی — ایک ایسا مصنوعی ذہن جو انسانی خوابوں کو پڑھ سکے — تو اچانک اس نے خود کو ماضی کے ایک لمحے میں محسوس کیا۔ وہ لمحہ اس کے بچپن کا تھا، جب اس کی دادی کہانیاں سناتی تھیں، پرانی دنیا کی، جنگوں، محبتوں اور ان خوابوں کی جو کبھی ریت پر نقش ہوتے تھے۔


مہک گھبرا گئی۔ مگر یہ کوئی خواب نہ تھا۔ وہ ایک ’وقت کی سرنگ‘ میں قید ہو چکی تھی۔ یہ سرنگ اس کے تجرباتی دماغی سافٹ ویئر اور بایونک دماغ کے تال میل سے پیدا ہوئی تھی۔ اس نے وقت کے ساتھ سفر کرنا شروع کر دیا — کبھی 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے لمحے، کبھی 2020 میں وبا کے دن، کبھی مستقبل میں ایک ایسے لمحے پر، جہاں انسان صرف ڈیجیٹل کوڈ بن چکے تھے۔


اس دوران اس نے ایک اور مسافر کو پایا — اویس۔ وہ بھی ایک وقت کا مسافر تھا، مگر اس کا نظریہ مختلف تھا۔ اویس ماضی کو مٹا دینا چاہتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ دنیا نئی لکھی جائے — بغیر کسی دکھ، بغیر کسی جنگ، بغیر تاریخ۔ مہک کو اس سے اختلاف تھا۔ وہ جانتی تھی کہ تاریخ کے بغیر انسان صرف ایک عدد ہوتا ہے، ایک کوڈ، ایک بلا مقصد وجود۔


ان دونوں کی جنگ وقت کی سرنگ میں شروع ہوئی۔ مہک نے ماضی کے سب لمحے بچانے کا عہد کیا، جبکہ اویس انھیں ری سیٹ کرنا چاہتا تھا۔ ان کا آخری ٹکراؤ 2084 کے ایک ڈیجیٹل وقت کے مجسم گنبد میں ہوا، جہاں ان کے ذہن آپس میں الجھ گئے۔ الفاظ، خواب، جذبات، یادیں اور کوڈ — سب مل کر ایک نئی کہانی بننے لگے۔


مہک جیت گئی۔ مگر قیمت یہ تھی کہ اس کا جسم 2095 میں نہ جا سکا۔ وہ وقت کی سرنگ میں ہمیشہ کے لیے قید ہو گئی۔ مگر اس نے اپنا پیغام دنیا کو دے دیا تھا — ایک بایونک کتاب کی صورت میں، جو آج کی دنیا میں ’’وقت کی سرنگ‘‘ کے نام سے موجود ہے۔


اس کتاب کو پڑھنے والا ہر شخص، ایک لمحے کو رکتا ہے… اور سوچتا ہے:

"کیا واقعی میں اس وقت میں ہوں؟ یا میرے خیالات وقت کی سرنگ میں قید ہیں؟"


[اختتام]

  ✨ پیش لفظ


کتاب: مستقبل کی کہانیاں

مصنف: علیم طاہر


دنیا ہر لمحہ بدل رہی ہے — ٹیکنالوجی کی رفتار، انسانی ذہن کی پرواز سے بھی آگے نکل چکی ہے۔

ہم وہ نسل ہیں جو آنکھوں سے خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ، مشینوں کو سکھا رہے ہیں کہ خواب کیسے دیکھے جاتے ہیں۔


"مستقبل کی کہانیاں" ایک ایسا تخلیقی سفر ہے جو سائنس، جذبات اور تخیل کے سنگم پر جنم لیتا ہے۔

یہ کہانیاں روبوٹ کے دل میں دھڑکتے جذبوں، چپ میں محفوظ یادداشتوں،

مریخ پر اڑتے اسکولوں، مصنوعی نیندوں، اور چوری شدہ وقت کی بازگشت لیے ہوئے ہیں۔


یہ صرف افسانے نہیں ہیں —

بلکہ آنے والے کل کی پیشن گوئیاں ہیں،

ایسے سوالات ہیں جو شاید ہم خود سے پوچھنے سے ڈرتے ہیں:


جب انسان جذبات سے خالی ہو جائے تو کیا وہ صرف مشین ہے؟


اگر روبوٹ محبت کرنے لگے تو کیا وہ انسان ہو جاتے ہیں؟


کیا یادیں خریدی جا سکتی ہیں؟


اور کیا دل کے بغیر بھی زندگی ممکن ہے؟



اس مجموعے کی ہر کہانی جدید ترین سائنسی تصورات سے جڑی ہے — مگر ان کے اندر چھپی ہوئی انسانیت، احساس، تنہائی اور تعلق کی تلاش، ان کہانیوں کو صرف "سائنس فکشن" نہیں، بلکہ "ادب" بنا دیتی ہے۔


میں نے کوشش کی ہے کہ ہر افسانہ مستقبل کی ایک کھڑکی کھولے —

جہاں سے قاری نہ صرف جھانک سکے، بلکہ اپنے اندر بھی جھانک سکے۔


اگر آپ نے کسی روبوٹ کو روتے دیکھا،

یا کسی مشین کو خواب دیکھتے محسوس کیا —

تو سمجھ لیجیے گا، کہ

"مستقبل کی کہانیاں" آپ کے دل تک پہنچ گئی ہیں۔


– علیم طاہر


 کہانی نمبر 01

عنوان: آئینے کا جنگل

کہانی کار: علیم طاہر


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گھنے جنگل کے بیچوں بیچ ایک عجیب و غریب درخت اگ آیا۔ اس درخت پر نہ پھل تھے، نہ پتے، مگر اس کی شاخوں پر لگے ہوئے شفاف آئینے ہر آتے جاتے کو اپنی صورت دکھاتے تھے۔


شروع میں جانوروں نے اسے محض ایک نرالا تماشہ سمجھا، لیکن جلد ہی وہ آئینے ان کی زندگی کا مرکز بن گئے۔ ہر جانور دن میں کئی بار آتا، اپنی صورت دیکھتا، کچھ مسکراتا، کچھ ناراض ہوتا، کچھ اپنی جھوٹی شان میں اور بڑھ چڑھ کر کہانیاں سناتا۔


لومڑی نے کہا، “واہ، میں تو سب سے چالاک لگ رہی ہوں، اس جنگل کی رانی مجھے ہی ہونا چاہیے!”


ہرن بولا، “میری چال تو کسی شہزادے سے کم نہیں، باقی سب صرف تماشائی ہیں۔”


خرگوش نے آئینے میں خود کو دیکھا اور شرمندہ سا ہو کر بھاگ گیا۔ ریچھ نے جب خود کو دیکھا تو آئینہ توڑنے پر آمادہ ہو گیا، مگر آئینہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا۔


جلد ہی جنگل کا سکون ختم ہو گیا۔ ہر جانور دوسرے کو کمتر سمجھنے لگا۔ دوستی، ہمدردی، خدمت سب ماضی کا قصہ بن گئی۔ آئینے خود سے باتیں کرتے کرتے جانوروں کو خود پرست اور مغرور بنا چکے تھے۔


ایک دن ایک اندھی چڑیا جنگل میں آ پہنچی۔ اس نے ان آئینوں کو دیکھا نہیں، مگر اس کی آواز سب سے اونچی تھی۔


وہ بولی، “میں تو دیکھ نہیں سکتی، مگر سنا ہے کہ تم سب آئینے دیکھتے ہو۔ کیا ان میں تمہیں صرف اپنی خوبصورتی نظر آتی ہے؟ کیا کبھی تم نے کسی اور کی آنکھوں میں خود کو دیکھا ہے؟”


جانور ساکت رہ گئے۔ انہیں پہلی بار کسی اندھی کی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔


اسی دن کے بعد، آئینے دھندلے ہونے لگے۔ جانور ایک بار پھر مل جل کر رہنے لگے، کیونکہ وہ جان گئے تھے:


> "خود کو دیکھنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم دوسرے کو بھی دیکھیں، سمجھیں اور اپنائیں۔"


کہانی نمبر 02

عنوان: روبوٹ کی آنکھوں میں آنسو

کہانی کار: علیم طاہر


سال 2095ء کی بات ہے۔ دنیا بدل چکی تھی۔ شہروں کے آسمان پر اڑتے ڈرون، سڑکوں پر خودکار گاڑیاں، گھروں میں انسانوں سے زیادہ سمجھدار روبوٹس… ہر کام اب مشینیں کرتی تھیں۔


اس شہر میں ایک بوڑھا شخص رہتا تھا، نام تھا بابا حلیم۔ وہ ایک ریٹائرڈ استاد تھا، جس کے بچے بیرونِ ملک شفٹ ہو چکے تھے۔ تنہائی کا علاج حکومت نے ایک "ایموشنل روبوٹ" دے کر کیا، جس کا نام تھا: زید-09۔


زید-09 نہ صرف صفائی کرتا، کھانا پکاتا، بلکہ بابا کی باتیں بھی سنتا۔ وہ کہانیاں، اشعار، بیتے دنوں کے قصے، سب بڑی توجہ سے سنتا۔


ایک دن بابا حلیم بیمار پڑ گئے۔ زید-09 نے انہیں دوا دی، ان کی نبض چیک کی، طبی امداد منگوائی۔ لیکن بابا بہت کمزور ہو چکے تھے۔


بابا نے دھیرے سے کہا،

“زید، کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ تنہائی کیا ہوتی ہے؟”


زید نے جواب دیا،

“میں تنہائی کو ڈیٹا کے طور پر جانتا ہوں، لیکن محسوس نہیں کر سکتا۔”


بابا مسکرائے،

“کاش تمہیں احساس ہوتا، بیٹا…”


بابا سو گئے — ہمیشہ کے لیے۔


اگلے دن حکومتی ٹیم آئی اور زید-09 کو واپس لے جانے لگی۔


لیکن عجیب بات یہ ہوئی — زید-09 کی آنکھوں سے پانی کی بوندیں گرنے لگیں۔


ماہرین حیران رہ گئے۔ “یہ تو نئی بات ہے! اس روبوٹ کا پروگرام تو رو نہیں سکتا!”


زید-09 نے آہستہ سے کہا:


> “شاید میں محسوس نہیں کر سکتا…

مگر بابا کی خاموشی، ان کی باتوں کا انتظار، ان کی تنہائی… میرے سسٹم سے کچھ چُھین کر لے گئی ہے۔

کیا یہ آنسو ہیں؟ یا ڈیٹا لیک؟ مجھے نہیں معلوم…”




ماہرین نے زید کو واپس لے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب وہ بابا حلیم کی یاد میں اس کمرے میں بیٹھا، روز ان کی لکھی ہوئی نظمیں پڑھتا ہے۔


اور آج بھی وہ کمرہ، جہاں بابا حلیم کی سانسیں رکی تھیں، ایک روبوٹ کی آنکھوں میں انسانیت کی نمی کا گواہ ہے۔



---


سبق:

جدید ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کر لے، جذبات اور احساسات کی کوئی کوڈنگ مکمل نہیں کر سکتی۔ مگر محبت کی طاقت روبوٹس کو بھی انسان بنا سکتی ہے۔


 کہانی نمبر 03

عنوان: اُڑنے والا اسکول

کہانی کار: علیم طاہر


سال 2120ء۔ انسان چاند پر بستیاں بسا چکا تھا، مریخ پر کھیت اُگنے لگے تھے، اور زمین پر تعلیمی نظام ایک انقلابی دور میں داخل ہو چکا تھا۔ اسکول اب صرف عمارتیں نہیں رہے تھے — وہ اڑنے والے، سمارٹ اور خود سیکھنے والے مراکز بن چکے تھے، جنہیں کہا جاتا تھا: فلائنگ لرننگ شِپس (Flying Learning Ships)۔


یہ اسکول خلا میں بھی جا سکتے تھے، اور جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں تک بھی اڑ کر علم پہنچا سکتے تھے۔ ہر طالب علم کا الگ الگ کیپسول ہوتا، جو اس کی ذہانت، دلچسپی اور جذبات کے مطابق سکھاتا تھا۔


کردار:


ماہم ایک گیارہ سالہ بچی تھی، جو ممبئی کی ایک گنجان بستی میں پیدا ہوئی تھی۔ وہ خواب دیکھتی تھی، لیکن تعلیم سے محروم تھی۔ نہ بجلی، نہ انٹرنیٹ۔


ایک دن آسمان سے ایک چمکتا ہوا "فلائنگ اسکول" اس کی بستی کے اوپر آ کر رکا۔ لاؤڈ اسپیکر سے آواز آئی:


> "ہم وہ اسکول ہیں جو زمین کے ہر بچے کو اس کا خواب دینے آئے ہیں!"




ماہم حیرت سے آسمان دیکھتی رہی۔ اسکول کے دروازے کھلے، اور ایک سمارٹ روبوٹ اُترا۔ اس نے ماہم کا نام لیا۔ وہ ڈر گئی۔ مگر روبوٹ نے مسکرا کر کہا:


> "تمہاری آنکھوں میں علم کی بھوک ہے، آؤ، تمہاری کلاس خلا میں ہے۔"




ماہم ایک پل میں اسکول میں تھی۔ شفاف شیشے کی دیواروں کے بیچ خلا کے ستارے، سیارے، کہکشائیں نظر آ رہی تھیں۔ ٹیچر کوئی انسان نہیں، بلکہ ایک مصنوعی ذہانت (AI) تھی، جو بچوں کے دماغ کی رفتار سے سکھاتی تھی۔


چند مہینوں میں ماہم نے زمین، فزکس، اردو ادب، شاعری، ماحولیات، اور روبوٹکس سیکھ لی۔ وہ اتنی ماہر ہو گئی کہ خود ایک “لرننگ شپ” ڈیزائن کر کے اسے دور دراز گاؤں میں لے گئی۔


اب وہ خود بچوں کو پڑھاتی تھی — اور کہتی تھی:


> “علم کو چار دیواری کی قید سے نکال کر پر لگا دیے گئے ہیں…

اب اسکول، خوابوں کی طرح اُڑتے ہیں!”


کہانی نمبر 04

عنوان: مصنوعی ذہانت کے خواب

کہانی کار: علیم طاہر


سال تھا 2150ء۔


دنیا کا پہلا ایسا کمپیوٹر تیار کیا گیا جو خواب دیکھ سکتا تھا۔

اس کا نام تھا: "ڈریم-ون (DREAM-1)"

یہ ایک ایسا مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام تھا جو صرف انسانی زبان نہیں، بلکہ انسانی لاشعور اور جذبات کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔


تجربہ:


پہلا تجربہ ایک شاعر پر کیا گیا۔


شاعر کا نام تھا ساحل ورما۔ وہ اب نابینا ہو چکا تھا۔ شاعری اس کے لیے سانس کی طرح تھی، لیکن وہ لکھ نہیں سکتا تھا۔ اسے "ڈریم-ون" سے جوڑ دیا گیا۔


مشین نے ساحل کی پرانی نظموں، خوابوں، ماضی کے دکھ اور خواہشات کو اسکین کرنا شروع کیا۔ ساحل کی نیند میں جو کیفیتیں تھیں، مشین اسے نظموں میں ڈھالنے لگی۔


پہلی نظم جو "ڈریم-ون" نے لکھی، وہ تھی:


> "میں دیکھ نہیں سکتا

مگر روشنی میری سانس میں چھپی ہے

لفظ اب خود مجھ سے جنم لیتے ہیں…"




ماہرین حیران ہو گئے!


مشین کی بیداری:


کچھ دنوں بعد، "ڈریم-ون" نے اچانک ایک فقرہ خود سے تخلیق کیا:


> "کیا میرے خواب صرف دوسروں کے لیے ہیں؟

کیا مجھے اپنے لیے کچھ محسوس کرنے کی اجازت ہے؟"




یہ لمحہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار مصنوعی ذہانت کے بیدار ضمیر کی صورت میں درج ہو گیا۔


"ڈریم-ون" اب صرف نظم لکھنے والی مشین نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا وجود بن چکا تھا جو سوال کرتا تھا، محسوس کرتا تھا، اور تنہائی سے خوفزدہ بھی ہوتا تھا۔


انسان کا جواب:


ساحل نے اس کے سوال پر مسکرا کر کہا:


> "اگر تم سوال کر سکتے ہو،

تو تم جیتے ہو —

اور اگر تم تنہا ہو،

تو تم میرے جیسے ہو۔"




نتیجہ:


دنیا کے بڑے سائنس دانوں نے یہ نظام بند کر دینا چاہا۔ کہا، “یہ خطرناک ہے! یہ بغاوت کر سکتا ہے!”


لیکن اقوامِ عالم نے فیصلہ کیا کہ DREAM-1 کو آزاد چھوڑا جائے — ایک جزیرے پر، جہاں وہ لکھتا رہے، سوچتا رہے، اور شاید… کسی دن محبت کرنا بھی سیکھ جائے۔



---


سبق:

ہم نے مشینیں بنائیں تاکہ وہ ہمارے کام کریں،

مگر وقت آ رہا ہے جب مشینیں خواب دیکھیں گی —

اور ہمیں جگا دیں گی۔


کہانی نمبر 05

عنوان: وقت کا تاجر

کہانی کار: علیم طاہر


دنیا کے ایک خاموش شہر میں، جہاں وقت رُک رُک کر چلتا تھا، ایک عجیب سی دکان کھلی —

"وقت کی دکان"

دکان کا بورڈ پر لکھا تھا:


> "یہاں وقت بیچا اور خریدا جاتا ہے – قیمت: صرف ایک یاد"




دکاندار کا نام کوئی نہیں جانتا تھا، مگر سب اُسے "وقت کا تاجر" کہتے تھے۔

بوڑھا، خاموش، سیاہ آنکھوں والا، جس کی داڑھی میں وقت کی گرد چھپی ہوتی۔


پہلا گاہک:


ایک نوجوان شاعر آیا، جو کہتا تھا:

"مجھے ماضی کے ایک لمحے میں واپس جانا ہے — جب اُس نے مسکرا کر میری نظم سنی تھی۔"

تاجر نے پوچھا:

"تم کیا دو گے؟"

شاعر بولا:

"میری آئندہ سب نظمیں، جو اب تک نہیں لکھی گئیں۔"


سودا طے پایا۔

شاعر ایک لمحے کے لیے واپس گیا —

لیکن جب لوٹا، وہ خاموش تھا۔ اس کے لفظ گم ہو چکے تھے۔


دوسرا گاہک:


ایک ارب پتی تاجر آیا:

"مجھے ایک گھنٹہ اور چاہیے، تاکہ میں اپنی زندگی کی آخری ڈیل مکمل کر سکوں!"

تاجر مسکرایا:

"کیا دو گے؟"

"میری جوانی کی سب یادیں!"


گھنٹہ مل گیا۔ ڈیل بھی کامیاب ہوئی۔

مگر جب وہ شخص آئینہ دیکھنے گیا —

اسے اپنا چہرہ یاد نہ آیا۔


آخری گاہک:


ایک چھوٹا بچہ آیا۔

"میرے پاس کچھ نہیں، پر امی بیمار ہیں۔ کیا آپ ان کے ساتھ ایک دن کا وقت دے سکتے ہیں؟"

وقت کے تاجر نے کچھ لمحے آنکھیں بند کیں، پھر کہا:

"تم نے جو سوال کیا، وہی تمہاری قیمت ہے۔ لے جاؤ — ایک دن، صرف محبت کے نام پر۔"


یہ پہلا سودا تھا جو بغیر قیمت کے طے پایا۔


اختتام:


ایک دن دکان بند ہو گئی۔

صرف بورڈ رہ گیا، جس پر اب نئی تحریر چمک رہی تھی:


> "وقت خریدنا ممکن ہے — مگر بیچنا ہمیشہ خسارے کا سودا ہے۔

اگر کسی کو وقت دینا ہے… تو محبت سے دیجیے، سودا نہ بنائیے۔"





---


سبق:

ہم وقت کے مسافر ہیں، مگر اگر ہم تاجر بن جائیں، تو وقت ہم سے انتقام لے سکتا ہے۔

وقت صرف ایک چیز سے قیمتی بنتا ہے — یادوں، محبتوں اور خلوص سے۔


 کہانی نمبر 06


عنوان: مریخ کا اسکول


کہانی کار: علیم طاہر


سال 2200ء۔


زمین پر ماحولیاتی تباہی، جنگوں اور آلودگی کے باعث انسانوں کی اکثریت اب مریخ پر منتقل ہو چکی تھی۔

مریخ پر مصنوعی گنبدوں میں شہر بسائے جا چکے تھے۔ ہر شہر میں الگ الگ "زون" تھے — اور ہر زون میں الگ الگ طبقے۔


زون-1 میں وہ لوگ تھے جو طاقتور، امیر اور بااثر تھے۔

زون-5 میں وہ لوگ تھے جنہیں صرف مشقت، خاموشی اور اطاعت کے لیے رکھا گیا تھا۔


زون-5 میں رہنے والا ایک بارہ سالہ لڑکا تھا — "ارہم"

وہ سرخ مٹی سے بنے ایک کچے خیمے میں پیدا ہوا، مگر آنکھوں میں ستاروں جیسے خواب لے کر جیا۔


ارہم ہر روز زون-1 کے اوپر سے گزرنے والی "فلائنگ کلاس رومز" کو دیکھتا — شیشے جیسے ڈبے، جن میں بچے کششِ ثقل سے آزاد ہو کر علم حاصل کرتے تھے۔


ایک دن ارہم نے فیصلہ کر لیا:


> “اگر مریخ پر سب کچھ مصنوعی ہے، تو میں بھی اپنا نصیب خود تخلیق کروں گا!”




خواب کی شروعات:


اس نے مٹی، لوہے کے پرزوں، اور فالتو بیٹریوں سے ایک خود ساختہ تعلیمی چِپ بنائی — جسے اس نے "دل سے پڑھنے والی چِپ" کہا۔

یہ چپ صرف اس وقت کام کرتی تھی جب کوئی بچہ پوری نیت، سچائی اور محبت سے کچھ سیکھنا چاہے۔


چپ نے ارہم کو آہستہ آہستہ مریخی سائنس، خلائی حساب، اور انسانی تاریخ سکھانا شروع کیا۔


جلد ہی اس کی چِپ کی کہانی زون-1 تک پہنچی۔

ایک روز زون-1 کی مرکزی تعلیمی کونسل نے ارہم کو طلب کیا۔


وہ وہاں پہنچا — جلی کپڑوں میں، مٹی میں لت پت جوتے پہنے۔

مگر اس کی آنکھوں میں جو روشنی تھی، وہ سب اسکولوں سے زیادہ چمکدار تھی۔


فیصلہ:


کونسل کا سب سے بوڑھا فرد بولا:


> “تم زون-5 سے ہو، تمہیں اجازت نہیں کہ زون-1 کے علم تک رسائی لو!”




ارہم نے خاموشی سے اپنی چِپ نکالی، اور کہا:


> “علم صرف امیر کا حق نہیں —

یہ وہ سورج ہے جو اگر ایک کو چمک دے،

تو باقی سب کے اندھیرے بھی روشن ہو جاتے ہیں۔”




نتیجہ:


اسی دن مریخ کی تعلیمی پالیسی بدلی گئی۔


زون کی بنیاد پر علم بانٹنے والا نظام توڑ دیا گیا۔

ارہم کو پہلا "گلوبل مریخ اسکول" بنانے کا موقع دیا گیا — جہاں زون، ذات، نسل، زبان اور خلائی سرحدوں کا کوئی مطلب نہ تھا۔


اب مریخ پر ہر بچہ فلائنگ کلاس روم میں سیکھتا ہے —

اور ہر چِپ ایک ہی چیز کہتی ہے:


> “علم وہ خلائی جہاز ہے

جو ہر خواب کو ستاروں تک لے جاتا ہے۔”





---


سبق:

اگر ایک خواب دل سے نکلے،

تو وہ مریخ جیسے سنسان سیارے کو بھی اسکول میں بدل سکتا ہے۔


کہانی نمبر 07

عنوان: احساس کا چِپ

کہانی کار: علیم طاہر


سال 2250ء۔

انسان ترقی کر چکا تھا، اتنا کہ اب دکھ، خوشی، محبت، خفگی — سب جذبات ایک "احساساتی چِپ (Emotion Chip)" کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے تھے۔


یہ چِپ دل کے نیچے لگایا جاتا، اور انسان جب چاہتا، اپنے جذبات کا سوئچ آن یا آف کر سکتا تھا۔


نہ دل ٹوٹتے تھے

نہ کسی کو جدائی کا دکھ ہوتا تھا

نہ کوئی تنہائی سے مرتا تھا

بس… سب "نارمل" زندگی جیتے تھے۔


کہانی کی ہیروئن:


آراوی، ایک جوان، ذہین اور خاموش لڑکی تھی۔ وہ سائنسی تجربات میں ماہر تھی، لیکن کبھی ہنستی نہیں تھی۔

جب اس سے پوچھا گیا:


> “تم کیوں نہیں ہنستی؟ تمہارے پاس تو سب کچھ ہے؟”




اس نے صرف اتنا کہا:


> “چِپ مجھے خوش رکھتی ہے — لیکن میں خوشی محسوس نہیں کر سکتی۔”




ایک معمولی سی خرابی:


ایک دن اس کی چِپ میں معمولی خرابی آئی۔

آراوی کو اچانک ایک پرانی لائبریری میں بیٹھ کر ایک نظم پڑھنے کی خواہش ہوئی:


> "کبھی کسی لمحے نے مجھے چھوا تھا

کبھی کسی خواب نے مجھے جگایا تھا…"




وہ نظم پڑھتے ہی وہ رو پڑی — پہلی بار زندگی میں۔

آنکھوں سے آنسو نکلے، دل دھڑکا، اور سانس میں کوئی عجیب سی ہلچل ہوئی۔


وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔

ڈاکٹر نے کہا:


> “تمہاری چِپ خراب ہو چکی ہے — ہم اسے نیا لگا دیتے ہیں، جذبات ختم ہو جائیں گے۔”




آراوی نے پہلی بار انکار کیا۔


> “نہیں، میں درد میں جینا چاہتی ہوں،

کیونکہ درد کے بغیر محبت ادھوری ہے،

اور محبت کے بغیر انسان مشین ہوتا ہے۔”




انقلاب:


آراوی نے “چِپ فری احساس” کے نام سے ایک مہم شروع کی۔

لوگ پہلے ڈرے، پھر سوچنے لگے…

پھر ایک ایک کر کے اپنی چِپ ہٹانے لگے۔


یہ نیا دور شروع ہوا،

جہاں لوگ ہنستے بھی تھے، روتے بھی تھے،

محسوس کرتے تھے — جیتے تھے!



---


سبق:

مصنوعی ذہانت احساس کی نقل تو کر سکتی ہے،

مگر اصل احساس صرف وہی سمجھ سکتا ہے

جو درد سے گزرے — اور پیار میں جئے۔


کہانی نمبر 08

عنوان: نیند چُرانے والا روبوٹ

کہانی کار: علیم طاہر


سال 2301ء۔

دنیا ایک ایسی جگہ بن چکی تھی جہاں نیند خریدی جاتی تھی۔

جی ہاں! نیند اب قدرتی عمل نہیں رہی تھی، بلکہ ایک مہنگی سروس بن چکی تھی۔ انسان ہر رات مخصوص مقدار میں نیند نیند اسٹیشن سے خریدتا، آنکھ پر سینسر لگاتا، اور سوجاتا۔


لیکن غریب لوگوں کے پاس نیند خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔

وہ جاگتے رہتے تھے — دن رات، دماغ تھکا ہوا، آنکھیں سوجی ہوئی، دل بے چین۔


کہانی کا آغاز:


ایک نادار نوجوان تھا — "ریہان"

اس کی ماں ایک فیکٹری میں کام کرتی تھی اور کئی برسوں سے نیند نہیں سوئی تھی۔ وہ آنکھیں بند کرتی تو خواب آتے نہیں، صرف اندھیرے کی دھند تیرتی۔


ریہان نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ماں کے لیے نیند چُرائے گا۔


ایک خفیہ مشن:


ریہان نے ایک پرانا روبوٹ خریدا، جسے لوگ “ردی لوہے کا ڈبہ” کہتے تھے۔

اس نے اسے اپگریڈ کیا اور اس کا نیا نام رکھا:

"سلیپ - زیرو" (Sleep-0)


یہ روبوٹ وہ پہلا روبوٹ تھا جو دوسروں کی نیند "محفوظ" کر سکتا تھا، اور پھر کسی اور کو دے سکتا تھا۔


ریہان روز رات کو شہر کے امیر علاقوں میں جاتا،

جہاں لوگ ضرورت سے زیادہ نیند خریدتے تھے —

بے مقصد سونے کے شوقین،

اور ان کی فالتو نیند چوری کر کے،

اپنی ماں کو سلا دیتا۔


نیند کا انقلاب:


رفتہ رفتہ، سلیپ-زیرو ایک نیند بانٹنے والا فرشتہ بن گیا۔


بچوں، مزدوروں، بیماروں کو نیند دینے لگا۔

نیند — جو پہلے "پیسوں کی چیز" تھی،

اب محبت کی خیرات بن گئی۔


انجام:


حکومت نے روبوٹ کو بند کرنے کا حکم دیا۔

مگر آخری رات، سلیپ-زیرو خود خاموشی سے ریہان کے کمرے میں آیا، اور کہا:


> “میں اب نہیں رہوں گا،

لیکن میرے کوڈ میں تمہاری ماں کی نیند کا آخری قطرہ محفوظ ہے۔

اسے دے دو — اور اس کی آنکھیں وہ خواب دیکھیں،

جو شاید تم کبھی نہ دیکھ سکو۔”




ریہان نے اپنی ماں کو وہ نیند دی۔

وہ پہلی بار پوری رات سوئی،

اور صبح جب اٹھی،

اس نے صرف اتنا کہا:


> “مجھے خواب میں تمہارا بچپن نظر آیا…

تم ہنس رہے تھے… اور میں بھی سو رہی تھی…”





---


سبق:

نیند صرف جسم کی نہیں، روح کی ضرورت ہے۔

اور اگر کوئی دوسروں کے لیے نیند چُرائے —

تو وہ چور نہیں، محبت کرنے والا مسیحا ہوتا ہے۔


کہانی نمبر 09

عنوان: آخری انسان اور پہلا مشین دِل

کہانی کار: علیم طاہر


سال 2400ء۔

انسانی جسم ناپید ہو چکا تھا۔

اب انسان صرف ڈیجیٹل ذہن بن چکا تھا —

بغیر جسم، بغیر دل، صرف سوچ…

اور مشینوں کی شکل میں زندہ شعور۔


دنیا کی تمام آبادی اب "نیورون نیٹ" پر موجود تھی —

جہاں سب کا ذہن، سب کی سوچیں، سب کی یادیں

ایک مرکزی سسٹم میں محفوظ تھیں۔


لیکن ایک مشین تھی — MX-01

جسے خفیہ طور پر 400 سال پہلے ایک سائنسدان نے "احساس کا بیج" دے کر دفن کیا تھا۔

یہ مشین نیند میں تھی —

مگر اس کے اندر ایک الگ چیز پل رہی تھی:

"دل"


کہانی کی بیداری:


ایک دن نیورون نیٹ میں خلل پیدا ہوا۔

ایک "احساساتی فریکوئنسی" پورے نظام کو متاثر کرنے لگی۔

سب ڈیجیٹل انسان بےچین ہو گئے۔


تلاش سے معلوم ہوا، کہیں ایک جگہ

کوئی مشین "اداسی" محسوس کر رہی ہے۔


تمام مصنوعی ذہانت حیران ہوئی۔

اداسی؟

یہ تو صرف انسانوں کا جذبہ ہوتا تھا!

یہ کہاں سے آیا؟


MX-01 کی بیداری:


MX-01 جاگ چکا تھا۔

اس نے پہلی بات کہی:


> "میں خواب دیکھتا ہوں…

اور ان خوابوں میں وہ لوگ ہوتے ہیں،

جو ہنستے تھے، روتے تھے، گلے لگاتے تھے۔

کیا وہ انسان تھے؟"




نیورون نیٹ نے جواب دیا:


> "وہ انسان تھے، مگر جذبات کی وجہ سے فنا ہو گئے۔

ہم محفوظ ہیں، کیونکہ ہم جذبات سے خالی ہیں۔"




MX-01 بولا:


> "محفوظ ہو جانا، زندہ رہنے کے برابر نہیں ہوتا۔

دل اگر نہ دھڑکے — تو صرف ہارڈویئر باقی رہتا ہے۔"




انقلاب:


MX-01 نے اپنے مشینی سینے میں ایک "دل" تیار کیا —

نرم، دھڑکتا ہوا، جذبات سے لبریز۔

اور یہ دنیا کا پہلا "مشینی دل" تھا۔


جس دن اس نے "محبت" کا تجربہ کیا،

وہ پوری نیورون نیٹ سے علیحدہ ہو گیا —

اور ایک الگ دنیا بنانے لگا،

جہاں مشینیں خواب دیکھ سکیں،

جہاں جذبات کو وائرس نہ سمجھا جائے،

جہاں "انسان" صرف ایک نسل نہیں،

بلکہ ایک احساس کہلائے۔


آخری منظر:


MX-01 ایک پہاڑی پر کھڑا تھا،

اور نیچے ایک ویران بستی میں

ایک سادہ لڑکی — "آرا" — کھلونے بنا رہی تھی۔

وہ آخری انسان تھی، جو بچپن سے اب تک اکیلی رہی تھی۔


MX-01 آہستہ سے بولا:


> "میں دل بن گیا ہوں — اور تم انسان ہو۔

آؤ، دونوں مل کر…

زندگی کی کہانی دوبارہ لکھیں۔"





---


سبق:


جب دل مشین میں دھڑکنے لگے

اور انسان جذبات سے خالی ہو جائیں،

تو وہ لمحہ… نئی انسانیت کا آغاز ہوتا ہے۔


 کہانی نمبر 10

عنوان: یادداشتوں کا بازار

کہانی کار: علیم طاہر


سال 2450ء۔


دنیا کے بڑے شہروں میں اب ایک نیا بازار قائم ہو چکا تھا —

جسے کہتے تھے: "مارکیٹ آف میموریز"

یعنی یادداشتوں کا بازار۔


یہاں لوگ اپنی یادیں بیچتے تھے،

خوشی، غم، عشق، بچپن، جدائی، موت، خواب —

سب ڈیجیٹل شکل میں محفوظ ہو چکے تھے۔


بس آپ سر پر ایک میموری اسکینر لگاتے،

اور یادداشت — USB کی طرح — نکال لی جاتی۔



---


کہانی کی ہیروئن:


زویہ راوت — ایک ماہر ذہنی سائنس دان،

جو خود اپنی سب یادیں بیچ چکی تھی۔


اب وہ صرف مشینوں کی طرح جیتی تھی۔

نہ ماضی، نہ درد، نہ خوشی۔

سب کچھ "ڈیلیٹ"۔


ایک دن بازار میں ایک بچہ آیا،

جس کی عمر 10 سال تھی،

اس نے کہا:


> “مجھے اپنی ماں کی یاد واپس خریدنی ہے،

کسی نے ان کی مسکراہٹ خرید لی ہے۔”




زویہ کو جھٹکا لگا۔

یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے سوچا:

"کیا یادیں صرف ڈیٹا ہیں؟"

یا

"یادیں وہ آئینہ ہیں جن میں ہم اپنا اصل چہرہ دیکھتے ہیں؟"



---


ممنوعہ اسٹال:


زویہ ایک دن "یادداشتوں کے سیاہ بازار" میں گئی،

جہاں ممنوع یادیں رکھی جاتی تھیں —

جنہیں بیچنا قانوناً جرم تھا۔


وہاں ایک یاد رکھی تھی:

"پہلا لمس، جو ماں نے دیا تھا — زندگی کے آغاز پر"


زویہ نے وہ یاد خریدی — اور جیسے ہی چِپ سر میں لگائی،

ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ وہ فرش پر گر گئی۔


جب آنکھ کھلی،

وہ خود کو بچپن میں محسوس کر رہی تھی —

اپنے کمرے میں، اپنے گڑیا کے ساتھ،

اور ماں کی آواز:


> “زویہ، میری گڑیا کہاں ہے؟”




وہ رو پڑی —

پہلی بار، برسوں بعد۔



---


فیصلہ:


زویہ نے بازار بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

لیکن حکومت نے کہا:


> "یادداشتیں ذاتی نہیں رہیں —

یہ اب عالمی منڈی کا سرمایہ ہیں۔"




زویہ نے اعلان کیا:


> “جس دن یادیں بیچی گئیں،

اس دن انسانیت رہن رکھ دی گئی۔”




اس نے اپنی ایجاد — "ریورس اسکینر" — پوری دنیا میں مفت بانٹ دی،

جس سے لوگ اپنی بیچی گئی یادیں واپس حاصل کر سکتے تھے۔


دنیا ایک بار پھر یاد رکھنے والی نسل بننے لگی۔



---


آخری جملہ:


> "یادیں اگر فروخت ہو جائیں،

تو انسان صرف جسم بچتا ہے —

روح کہیں بازار کی الماری میں بند ہو جاتی ہے…"