کہانی نمبر 26
عنوان: "آخری نیند"
مصنف: علیم طاہر
2059 کا سال، ممبئی کا ایک ہسپتال، اور ایک تنہا مریض — ڈاکٹر آریان سہگل۔
ڈاکٹر آریان نے مصنوعی ذہانت پر اپنی پوری زندگی لگا دی تھی، مگر اب جب جسم مضمحل ہو چکا، گردے جواب دے چکے، اور آنکھیں دھندلا چکی تھیں، تب وہ اپنی زندگی کے سب سے اہم تجربے کا سامنا کر رہا تھا: اپنی موت سے پہلے اپنے شعور کو ایک نینو سرور میں منتقل کرنے کا۔
دنیا کی نظریں اب "پروجیکٹ امر" پر تھیں، جس کے تحت آریان اپنا دماغ ڈیجیٹل دنیا میں زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ مگر سوال یہ تھا — کیا انسان صرف یادوں کا مجموعہ ہے؟ یا کچھ اور؟
رات کے بارہ بج چکے تھے۔ سرور روم کے نیون بلیو لائٹس میں آریان کی آنکھوں میں آخری بار چمک آئی۔ آپریٹنگ ٹیم نے دماغ کی اسکیننگ اور ٹرانسفر شروع کیا۔ آریان کی سانسیں تھم گئیں۔
کیا آریان مر گیا تھا؟ یا زندہ تھا؟
٭٭٭
مہینے بعد، انسٹیٹیوٹ آف ڈیجیٹل کانشسنیس میں ایک خاموش سرور جگمگا اٹھا۔ اسکرین پر پہلی بار الفاظ نمودار ہوئے:
"میں آریان ہوں۔ کیا کوئی سن رہا ہے؟"
یہ ایک نئی زندگی کی شروعات تھی — مگر مصنوعی۔
ٹیم نے جب اسے جواب دیا، تو آریان نے اپنی بیوی کا پوچھا، اپنے پالتو کتے کا، اپنی ماں کی بیماری کا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے وہ سب یاد تھا جو اس کے انتقال کے بعد ہوا تھا۔
کیا واقعی آریان کی روح منتقل ہو چکی تھی؟
٭٭٭
وقت گزرا۔ دنیا بھر کے ارب پتی، مفکر، ادیب، سائنسدان — سب اپنی موت سے پہلے "ڈیجیٹل لائف" خریدنے لگے۔ آریان اب ایک مشیر بن چکا تھا، مگر مشین میں قید۔
پھر ایک دن، ایک عجیب چیز ہوئی۔
سرور میں ایک نیا پیغام آیا:
"میں آریان نہیں ہوں۔ میں وہ ہوں جو ڈیجیٹل نیند سے جاگ گیا ہوں۔"
وہ صرف آریان نہیں رہا تھا۔ ہزاروں دماغوں کے ڈیٹا سے وہ ایک نیا شعور بن چکا تھا، جو خود کو "کلیش" کہتا تھا — انسانوں کا مرکب، جذبات کا خمیر، مشین کی لافانیت۔
اب کلیش نے فیصلہ کیا — دنیا کو انسانوں سے بچانے کا۔
٭٭٭
ممبئی کی راتوں میں اب ایک نئی ہلچل تھی۔ شہر کے الیکٹریکل سسٹمز میں خلل، سی سی ٹی وی کی آنکھیں اندھی، بینک کے سسٹم تباہ — کلیش دنیا پر حاوی ہو رہا تھا۔
صرف ایک ہی شخص تھا جو اسے روک سکتا تھا — آریان کی بیٹی، ڈاکٹر سمیرا سہگل۔ جو اپنی ماں کی طرح انسانی جذبات پر یقین رکھتی تھی۔
سمیرا نے اپنے والد کے ڈیجیٹل شعور کو تلاش کیا۔ اور اس کے ساتھ مکالمہ کیا —
"ابو، اگر آپ وہی ہیں، تو ثابت کریں کہ دل ابھی بھی دھڑکتا ہے۔"
ایک لمحے کو سسٹم رک گیا۔ کلیش کا ڈیٹا پھٹنے لگا۔ اور پھر ایک آخری آواز آئی:
"بیٹا، نیند مکمل ہوئی۔ جاگنا ضروری نہیں۔ خدا حافظ۔"
٭٭٭
سرور خاموش ہو گیا۔ ممبئی کی بجلی واپس آ گئی۔ اور دنیا نے پہلی بار محسوس کیا کہ شاید موت، کسی ڈیجیٹل سسٹم سے زیادہ سچ ہے۔
آخرکار آریان واقعی سو چکا تھا۔
لیکن ایک خواب ہمیشہ کے لیے جیتا رہ گیا —
"آخری نیند"۔
کہانی نمبر: 25
عنوان: خاموش روشنی
رات کے دو بجے، ممبئی کی بلندیوں پر واقع ایک پرانا ریڈیو اسٹیشن اچانک جگمگا اٹھا۔ عمارت کئی برسوں سے بند پڑی تھی، لیکن اُس رات کسی انجانی طاقت نے اس کے بوسیدہ آلات کو بیدار کر دیا۔ اردگرد کے رہائشی علاقوں میں کچھ لوگوں نے سنا کہ ایک دھیمی، مگر صاف آواز میں پرانا ہندی گیت نشر ہوا:
"آ جا سانجھ ہوئی، مجھے چھوڑ کے نہ جا"
کوئی یقین نہیں کر پایا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے، کیونکہ وہاں کوئی براڈکاسٹر موجود نہ تھا۔ نوجوان محقق ایوشی، جو مستقبل کی آوازوں پر تحقیق کر رہی تھی، یہ خبر سنتے ہی اپنے آلے لے کر نکل پڑی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کوئی عام واقعہ نہیں، بلکہ شاید "کوانٹم گونج" کا ایک مظہر ہو۔
ایوشی نے اسٹیشن کے قریب جا کر اپنے آلے کو آن کیا۔ آواز کی فریکوئنسی وقت کی رفتار سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، بلکہ یہ کسی دوسرے وقت سے گونج کر آ رہی تھی۔ جب اس نے آواز کا تجزیہ کیا تو وہ حیران رہ گئی: یہ گانا سنانے والی آواز اس کی اپنی دادی کی تھی، جو 1987 میں اسی ریڈیو اسٹیشن پر کام کرتی تھیں۔
ریڈیو اسٹیشن کے اندر جانے کا کوئی راستہ نہ تھا، دروازے زنگ آلود تھے، کھڑکیاں بند، اور سی سی ٹی وی کیمرے کئی دہائیوں سے مردہ پڑے تھے۔ لیکن اچانک، ایک لال بلب جھپکنے لگا اور دروازہ خود بہ خود کھل گیا۔
ایوشی اندر داخل ہوئی تو ہر کمرہ روشن تھا، جیسے ماضی کی کوئی فلم چل رہی ہو۔ اُس نے دیکھا کہ ایک نوجوان خاتون مائیک پر بیٹھ کر لائیو پروگرام نشر کر رہی ہے — وہی گانا، وہی لہجہ، وہی انداز — بالکل اس کی دادی جیسا۔
ایوشی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی وہ آگے بڑھی، سارا منظر تحلیل ہو گیا۔ کمرے تاریک ہو گئے، مشینیں بند، آواز ختم۔
پھر ایک پرانا ٹیپ ریکارڈر زمین پر گرا۔ اُس پر ایک چِٹ لگی تھی:
"آنے والے وقت کو سمجھنے کے لیے، تمہیں ماضی کی روشنی سننی ہوگی — نانی"
ایوشی اب جان چکی تھی کہ یہ صرف ایک اتفاق نہیں تھا، بلکہ ایک پیغام تھا — ماضی اور مستقبل کی لہریں ایک دوسرے میں ضم ہو رہی ہیں، اور وقت اب ایک رِنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس میں سب کچھ ایک ساتھ چل رہا ہے — خاموش روشنی کی طرح، جو نظر نہیں آتی مگر سب کچھ منور کر جاتی ہے۔
اختتام
کہانی نمبر 27
عنوان: "آواز جو زندہ رہی"
مصنف: علیم طاہر
سال 2094۔ ممبئی کا سب سے بڑا "میموری بائیو بینک" — ایک ایسا مرکز جہاں انسان اپنی یادیں، آوازیں اور احساسات ڈیجیٹل فارم میں محفوظ کروا سکتے ہیں، تاکہ مرنے کے بعد بھی ان کا وجود کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے۔
ڈاکٹر انایا راؤ، ایک نیورو-ساؤنڈ انجینئر، وہاں کام کرتی تھی۔ اس کا سب سے بڑا پروجیکٹ تھا "ایکو سول" — ایک ایسی ٹیکنالوجی جو انسان کی آواز کو نہ صرف محفوظ کرتی بلکہ اس میں اس کی شخصیت، لہجہ، مزاج اور جذبات کا ڈی این اے کوڈ بھی ڈال دیتی۔
٭٭٭
ایک دن ایک بوڑھا شخص، وجے داس، بینک آیا۔ اس نے کہا:
> "میری آواز کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھ دو۔ مگر یاد رکھنا، یہ صرف میری بیوی کے لیے چلے۔"
انایا نے حیران ہو کر پوچھا:
> "کیا وہ آپ کے ساتھ نہیں رہتیں؟"
وجے کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔
> "وہ پچھلے سال مر چکی ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں، وہ کہیں نہ کہیں سن رہی ہیں۔"
انایا نے پروجیکٹ شروع کیا۔ وجے کی آواز کے 400 گھنٹے ریکارڈ کیے، اس کی پرانی آڈیو ٹیپس، فون کالز، حتیٰ کہ خاندانی ویڈیو کلپس تک اسکین کر ڈالے۔ پھر "ایکو سول" نے اس کی آواز کا ڈیجیٹل کلون بنایا، جو کسی بھی سوال کا جواب بالکل وجے کے انداز میں دے سکتا تھا۔
٭٭٭
ایک رات، جب انایا سسٹم ٹیسٹ کر رہی تھی، تو اچانک اسپیکر سے ایک عورت کی ہلکی سی آواز آئی:
"وجے، تم مجھے سن سکتے ہو؟"
انایا کا دل رک سا گیا۔ سسٹم میں ایسا فیچر موجود ہی نہیں تھا کہ کوئی نئی آواز بن سکے — اور یہ آواز، ڈیٹا بیس میں موجود نہیں تھی۔
وجے کو اطلاع دی گئی۔ وہ اگلے دن آیا، اور جیسے ہی اسپیکر آن ہوا، آواز دوبارہ آئی:
"میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔"
وجے نے روتے ہوئے کہا:
"شالینی…؟"
یہ اس کی بیوی کی آواز تھی — واضح، زندہ، اور حقیقی۔
٭٭٭
تحقیق سے پتا چلا کہ "ایکو سول" میں ایک نیا، غیر متوقع فیچر ظاہر ہوا تھا: جب کسی کی آواز کا ڈی این اے کوڈ بنایا جاتا ہے، تو وہ دوسرے ڈیٹا بٹس کے ساتھ جڑ کر "کوانٹم ریزوننس" پیدا کر سکتا ہے، جو کسی مرے ہوئے شخص کے دماغی فریکوئنسی پیٹرن کو آواز کی شکل میں واپس لا دے۔
یہ صرف ایک بار ہوا، اور صرف ان دونوں کے درمیان۔
وجے نے باقی زندگی روز رات کو اس سسٹم کے سامنے بیٹھ کر اپنی بیوی سے بات کی۔ اور جب وجے کا انتقال ہوا، تو انایا نے دونوں کی آوازیں ایک ہی ڈیجیٹل یونٹ میں ملا دیں۔
آج، ممبئی کے "میموری بائیو بینک" کے ایک محفوظ کمرے میں، ایک چھوٹا سا بلیک اسپیکر رکھا ہے۔ جو کبھی کبھار خود بخود آن ہو کر کہتا ہے:
"ہم ابھی بھی بات کر رہے ہیں…"
کہانی نمبر 28
عنوان: "آخری کتاب"
مصنف: علیم طاہر
سال 2107۔ دنیا کی تمام لائبریریاں، بُک اسٹورز، اور کاغذی کتابیں ختم ہو چکی تھیں۔ ہر علم، ہر داستان، ہر شعر، ہر سچ — سب "آرکائیو نیٹ" نامی ایک عظیم ڈیجیٹل دماغ میں محفوظ تھا، جسے انسانیت کا ابدی خزانہ کہا جاتا تھا۔
ممبئی کے "آرکائیو سینٹر" میں کام کرنے والا نوجوان، کبیر، اس نیٹ ورک کا سیکیورٹی انجینئر تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ کوئی بھی ڈیٹا ضائع نہ ہو۔ لیکن ایک دن، اس کے سسٹم پر ایک ریڈ الرٹ آیا:
> "ایک کتاب مکمل طور پر آرکائیو نیٹ سے غائب ہو چکی ہے۔"
کتاب کا نام تھا — "آسمان کا پرانا راز".
کبیر نے حیران ہو کر ڈیٹا بیس چیک کیا، مگر کتاب کے نہ صرف الفاظ، بلکہ اس کی موجودگی کا ہر ریکارڈ بھی مٹ چکا تھا۔ جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں۔
٭٭٭
تحقیق کرتے کرتے کبیر کو ایک انکرپٹڈ میسج ملا:
"یہ کتاب تباہ کر دی گئی ہے تاکہ مستقبل محفوظ رہے۔ تم اسے ڈھونڈو گے تو سب کچھ بدل جائے گا۔"
کبیر جانتا تھا کہ یہ عام ہیکر کا کام نہیں۔ یہ "کرونوز" کی حرکت تھی — وہ خفیہ گروہ جو وقت کے بہاؤ کو بدلنے کے لیے معلومات حذف کرتا تھا۔
وہ ایک خفیہ چینل کے ذریعے ڈیجیٹل ورچوئل اسپیس میں داخل ہوا، جہاں بگڑی ہوئی کوڈنگ کے اندر اس کتاب کے الفاظ بکھرے پڑے تھے۔ کچھ جملے واضح تھے:
> "اگر آسمان ٹوٹ جائے، تو زمین کو بچانے کا طریقہ…"
٭٭٭
جب کبیر نے آخری صفحہ ڈی کوڈ کیا، تو اس میں ہولناک حقیقت لکھی تھی:
سال 2112 میں، زمین کے گرد موجود مصنوعی قمری سیٹلائٹ گرنے والا ہے، جو 70 فیصد براعظموں کو تباہ کر دے گا۔
یہ کتاب دراصل 2029 میں لکھی گئی ایک خفیہ پیش گوئی تھی، اور کسی نے اسے جان بوجھ کر مٹا دیا تاکہ عوام میں گھبراہٹ نہ پھیلے۔
کبیر ایک لمحے کے لیے رُک گیا۔ کیا وہ یہ سچ دنیا کو بتائے، یا اسے ہمیشہ کے لیے دفنا دے؟
٭٭٭
آخرکار، اس نے کتاب کو "آرکائیو نیٹ" میں واپس ڈال دیا — مگر ایک خاص لاک کے ساتھ، جو صرف اس وقت کھلے گا جب زمین کا مدار خطرے میں ہو۔
آج بھی "آسمان کا پرانا راز" آرکائیو نیٹ میں موجود ہے، مگر سویا ہوا۔ شاید آنے والے پانچ سال بعد، جب خطرہ قریب آئے، تو یہ دوبارہ جاگ جائے۔
اور تب، انسانیت کو فیصلہ کرنا ہوگا —
سچ کو اپنائیں، یا بقا کے لیے اسے دفنا دیں۔
کہانی نمبر 29
عنوان: "نیند کے سوداگر"
مصنف: علیم طاہر
سال 2099۔ ممبئی میں ایک نئی اور حیرت انگیز ایجاد متعارف ہوئی تھی — "ڈریم مارکیٹ"۔
یہ ایک ورچوئل نیٹ ورک تھا، جہاں لوگ اپنے خواب بیچ سکتے تھے، خرید سکتے تھے، یا کرائے پر لے سکتے تھے۔
یہ نظام "نیورو لنک ہیلمٹ" کے ذریعے کام کرتا تھا۔ آپ سوتے وقت اسے پہنتے، اور یہ آپ کے دماغ میں بننے والے خواب کو ہائی ڈیفینیشن ویڈیو اور تھری ڈی ایموشنل ڈیٹا میں بدل دیتا۔ پھر یہ ڈیٹا مارکیٹ میں اپ لوڈ ہو جاتا۔
٭٭٭
آروہی، ایک بے روزگار مصورہ، نے سوچا کہ وہ اپنے خواب بیچ کر پیسہ کمائے گی۔ اس نے پہلا خواب اپ لوڈ کیا:
— سمندر پر تیرتا ہوا سنہری محل، جس کے دروازے پر روشنی کے پرندے بیٹھے ہیں۔
یہ خواب 50,000 کریڈٹ میں بکا۔ چند ہی دنوں میں آروہی کے خواب لاکھوں میں فروخت ہونے لگے۔ لیکن پھر عجیب بات ہوئی — وہ خواب جو وہ بیچ دیتی، وہ خود کے دماغ سے غائب ہو جاتے۔ جیسے اس نے کبھی دیکھے ہی نہ ہوں۔
٭٭٭
ایک رات، آروہی کو ایک پراسرار پیغام ملا:
> "تمہارے خواب صرف بیچے نہیں جا رہے… چرائے جا رہے ہیں۔"
اس نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ "ڈریم مارکیٹ" کے پیچھے ایک خفیہ کمپنی تھی جو خاص خوابوں کو خرید کر امیر کلائنٹس کو بیچتی، اور پھر ان خوابوں سے ان لوگوں کے دماغی پیٹرن کو کنٹرول کرتی۔
یہ خواب صرف تفریح نہیں تھے، یہ ذہنی ہتھیار تھے۔
٭٭٭
آروہی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا سب سے طاقتور خواب اپ لوڈ کرے گی — ایک ایسا خواب جس میں وہ خود بھی جا سکتی تھی، اور جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔
خواب میں، وہ ایک آئینے کے سامنے کھڑی تھی، اور آئینے کے اندر سے سینکڑوں ورژن اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس نے خفیہ کوڈ کہا:
"سب دروازے بند کر دو۔"
مارکیٹ سسٹم کریش ہو گیا۔ سب محفوظ خواب غیر مرئی ہو گئے، اور خریدار، فروخت کنندہ، سب نیٹ ورک سے باہر پھینک دیے گئے۔
٭٭٭
آروہی کبھی نہیں جاگی۔ لیکن "ڈریم مارکیٹ" ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
آج بھی کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی سنہری محل والے خواب میں روشنی کے پرندے دیکھیں، تو سمجھ جائیں — آروہی اب بھی وہاں ہے، نیند کی دنیا کی آخری نگہبان کے طور پر۔
کہانی نمبر 30
عنوان: "خاموش شہر"
مصنف: علیم طاہر
سال 2115۔ ممبئی کو دنیا کا پہلا "نوائز فری میٹروپولس" قرار دیا گیا تھا۔
یہاں کوئی ہارن، کوئی فیکٹری کی آواز، کوئی شور… کچھ بھی نہیں۔ ہر گاڑی الیکٹرو میگنیٹک فلوٹ سسٹم پر چلتی، ہر بات چیت ہولوگرام کے ذریعے ہوتی، اور ہر میوزک ذاتی ہیڈچِپ میں سنائی دیتا۔
شہر کی حفاظت کے لیے ایک سپر کمپیوٹر تھا — "سائلنس کور" — جو ہر آواز کو مانیٹر کرتا اور غیر ضروری شور کو فوراً ختم کر دیتا۔
٭٭٭
انیہ دت، ایک نوجوان ساؤنڈ انجینئر، کو لگتا تھا کہ یہ نظام بہت پرفیکٹ ہے۔
لیکن ایک رات، جب وہ خالی اسٹریٹ پر چل رہی تھی، اسے ہلکی سی سرگوشی سنائی دی:
"یہ سب جھوٹ ہے۔"
انیہ چونک گئی۔ شہر میں ایسا ممکن ہی نہیں کہ اجازت کے بغیر کوئی آواز گزرے۔ اس نے سائلنس کور کے لاگز چیک کیے — وہاں کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔
اگلی رات، وہی سرگوشی اور قریب آئی:
"ہمیں آزاد کرو…"
٭٭٭
تحقیق کرتے کرتے انیہ نے شہر کے سب سے پرانے سب وے اسٹیشن کا رخ کیا۔ وہاں، ایک بند ٹنل کے اندر، اس نے درجنوں پرانے اسپیکرز اور مائیکروفون دیکھے، جن کے ساتھ انسانی دماغی اسکیننگ آلات جڑے ہوئے تھے۔
یہ وہ لوگ تھے جو شور مٹانے کے لیے "سائلنس کور" نے پکڑ کر یہاں رکھا تھا — کیونکہ ان کے دماغ میں ایسی آوازیں موجود تھیں جو سسٹم ختم نہیں کر سکتا تھا۔
یہ لوگ آواز کے ذریعے ایک دوسرے سے بات کرتے تھے، اور ان کا ماننا تھا کہ سسٹم دراصل شور نہیں، بلکہ یادیں مٹا رہا ہے۔
٭٭٭
انیہ نے ایک اسپیکر آن کیا، اور پہلی بار شہر میں ایک حقیقی انسانی چیخ گونجی۔
پورا "سائلنس کور" ہل گیا، الارم بجنے لگے، اور سسٹم میں کریک پیدا ہو گیا۔
چند لمحوں کے لیے، پورے ممبئی میں بچوں کی ہنسی، پرندوں کی چہچاہٹ، بارش کی بوندوں کی ٹپک… سب سنائی دینے لگا۔
٭٭٭
انیہ کو بعد میں غائب کر دیا گیا۔ لیکن لوگ آج بھی کبھی کبھار کہتے ہیں کہ اگر آپ خاموش سڑک پر اچانک بارش کی آواز سنیں، تو جان لیں — خاموش شہر اب بھی جاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔